لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ۰ۥۭ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِيْمٌ۹۲
ترجمہ :’’مومنو! تم نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک تم ان چیزوں میں سے خرچ نہ کرو جو تمہیں عزیزہیں۔اورجو چیز تم صرف کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔‘‘ (آل عمران 92)
جب یہ آیت نازل ہوئی تو ایک صحابی اللہ کےر سولؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ مدینہ سے قریب میرا ایک باغ ہے جو مجھے بہت عزیز ہے میں اسے اللہ کی راہ میں دینا چاہتا ہوں۔ جب حضور پاکؐ نے اسے قبول کرنے کا عندیہ دیا تو وہ باغ کے پاس گئے اور باہر ہی کھڑے ہوکر اپنی بیوی کو پکارا ’’…اے … ام فلاں باغ سے نکل آؤ اب میں نے یہ اللہ کی راہ میں دے دیا ہے۔ جواب میں بیوی نے پکارا ’’اے ابو فلاں…! تم نے خوب سودا کیا ہے۔‘‘
انفاق کے معنی ہیں اللہ کی خوشنودی کےلئے خرچ کرنا۔ یہ اسلام کی ترقی کیلئے خرچ کرناہے ۔ صدق دل سے خرچ کرنا ۔ مال کا اچھا ہونا ۔ ریا کاری نہ ہونا۔اس کی بنیادی شرائط ہیں۔ خرچ کرو طیبات میں سے۔ یعنی اچھی اور پاک چیزوں میں سے۔ خرچ کرنے میں سستی وکاہلی نہ ہو ،جو بھی میسر ہو چا ہے، وہ چھوٹی سے چھوٹی چیزہی کیوں نہ ہو۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ہر مسلمان کو چاہئے کہ صدقہ ضرور کرے، چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ قرآن پاک میں ایک اور جگہ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’مومنو! سنو جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سےنکالتے ہیں ان میں سے خرچ کرو، بری اور ناپاک چیزیں دینے کا تصور نہ کرنا اگر وہ چیزیں تمھیں دی جائیں تو وجہ اس کو لینے وقت آنکھیں بند نہ کر لو ۔ ان کو نہ لو اور جان رکھوکہ اللہ بے پروا ہ و قابل ستائش ہے۔‘‘ (البقرہ: 267 )
’’ہاں جو مال تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہ ہوگا ۔ان لوگوں پر خرچ کرو جو حاجتمند ہیں۔ اللہ کی راہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ملک میں کسی طرح آنے جانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ مانگنے سےآرکرتے ہیں ۔ یہاں تک کہ نہ مانگنے کی وجہ ناواقف لوگ ان کوغنی سمجھ لیتے ہیں اور تم ان کو دیکھ کر ہی صاف پہچان لو گے کہ وہ حاجت مند ہیں کہ شرم کی وجہ سے منہ پھاڑ کر نہیں مانگتے۔ تم جو مال خرچ کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔
اس مضمون سے متعلق ویڈیو کے لیے کلک کریں!
اللہ کی راہ میں خرچ کرنا۔۔۔محترمہ طیبہ صبا
انفاق ایک ایسی چیز کو کہتے ہیں جس کے دونوں سرے کھلے ہوں۔ ایک طرف سے کچھ ڈالا جائے تو دوسری طرف سے نکل جائے۔ صرف مال ہی کا صدقہ نہیں بلکہ اور بھی کئی طریقوں سے صدقہ کیا جاتا ہے ۔ جن لوگوں کے پاس خیرات کرنے کو کچھ نہیں ہوتا، حسرت کرتے رہ جاتے ہیں کہ کاش ان کے پاس مال ہوتا تو وہ بھی صدقہ کرتے اور نیکی حاصل کرتے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کوتسلی فرما رہے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھی نیکی حاصل کر سکتے ہیں ۔ جیسے کلمہ طیبہ یعنی اچھی ہات کہنا۔ خوش اخلاقی سےگفتگو کرنا۔ اللہ کی خوشنودی کے لے ملنا ملانا ،غم زدہ لوگوں کی زندگی میں چند لمحے خوشیوں کے لانا مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ساتھ بات کرنا بھی صدقہ ہے۔چند لمحہ خوشیوں کے لانا، مسکرا کر بات کرنا ، مشکلات میں حوصـلہ بڑھانا، بیمار کی عیادت کرنا، راستہ سے تکلیف دہ چیزں کو ہٹانا، خیر و بھلائی کے لے خرچ کرنا، دعا کرنا، مصیبت زدہ سے ہمدردی سے پیش آنا، دو فریقوں میں صلح کرانا، کمزوروں کی حفاظت کرنا، راستہ دکھانا، دعا کرنا۔ صدقہ کی لمبی فہرست کی کچھ چیزیں ہیں:
راہ خدا میں جو بھی خرچ کریں خلوص دل سے خرچ کریں ۔ ہم اپنے آپ کو محفوظ محسوس کریں گے۔ اگر دینے کو کچھ نہ ہو توبھلی بات کہو۔
نیکی ایک سرسبز باغ کی مانند ہے ۔اس کی حفاظت اسی طرح کرنا چاہیے جیسے ایک کسان اپنی فصل کی حفاظت کرتا ہے ۔ کیونکہ نیکی کرنا اتنا مشکل نہیں جتنا اسے سنبھالنا ہے۔ اگر فصل کی حفاظت صحیح طریقے سے نہ ہو تو نقصان کا امکان ہے۔ اسی طرح نیکی کرکے حفاظت نہ کرنا نقصان ہی نقصان ہے۔ نیکی کو شکوہ شکایت کر کے تباہ کر دیتے ہیں ۔ نیکی کی حفاظت اس طرح کرنا چاہیے جیسا قیمتی چیزوں کی کرتے ہیں ۔ یا اس سے بھی بڑھ کر نگہداشت کرنا چاہئے ورنہ نیکی ضائع ہو جائے گی۔ بسا اوقات ہم جن لوگوں کی مد د کرتے ہیں ان سےکچھ زیادہ توقعات وابستہ کربیٹھتے ہیں۔جب توقعات پوری نہ ہوں تو ذہنی و جسمانی تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حضور اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:’’اللہ روز قیامت تین لوگوں کی طرف نظر رحمت نہیں ڈ الے گا، ان میں سے ایک وہ ہوگا جو انفاق کرکے اسے جتاتا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اس خطرے سے آگاہ فرمایا دیا کہ ’’اپنے صدقات کو ان کا احسان جتا کر اور تکلیف دے کر بے کار اور رائیگاں نہ کرو۔‘‘
’’مومنو !تم جو مال خرچ کرو گے تو اس کا فائدہ تمہیں کو ہے اور تم جو خرچ کرو گے وہ پورا دیا جائے گا۔ تمہیں پورا پورا صلہ مل جائے گا اور تمہارا کچھ نقصان نہ ہوگا۔‘‘
یہ بھی پڑھیں!