انفاق فی سبیل اللہ

ثریا بتول

اسلام دین فطرت ہے جو انسانیت کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی تلقین کرتا ہے یہ ان تمام اخلاقی قدروں کا حامل ہے جو انسان کو شرف و عظمت کا تاج پہنائے آئی ہیں، اور جو اسے دنیا میں سرتاجِ کائنات اور اشرف المخلوقات بنانے میں مشعل راہ ثابت ہوتی ہے۔ ان اخلاقی قدورں میں ایک ہمدردیٔ انسانیت بھی ہے۔ یہ ہمدردی کئی طرح کی ہوسکتی ہے۔ مثلاً کسی کی فعلی مدد اور کسی حاجت مند کی مالی مدد و استعانت وغیرہ۔ ان میں سے مالی اعانت کے بارے میں چند ایک نکات پیش کیے جاتے ہیں۔

خدائے عزو جل نے اس آسمان کے نیچے تمام انسانوں کو یکساں پیدا نہیں کیا۔ یہاں کوئی انسان تو ایسا امیر ہے کہ اپنی دولت کا شمار نہیں کرسکتا، اور کئی ایسے غریب ہیں کہ وہ اپنی روح کو جسم کے ساتھ وابستہ کھنے کے لیے رات و دن کی شدید جدوجہد میں مصروف نظر آتے ہیں پھر بھی وہ دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں۔ اسی طرح کوئی شہنشاہ ہے کوئی گدا ہے۔ خدا تعالیٰ نے معاشرے کو اس طرح امیر و غریب کا حسین امتزاج بنایا ہے۔ اس میں اس کی کئی مصلحتیں کارفرما ہیں۔

اب غور طلب امر یہ ہے کہ اگر امیر اپنی دولت و امارت کے نشے میں چکنا چور ہو کر غریب عوام کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں یا اپنی امارت کے بل بوتے پر ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانا شروع کردیں تو لازماً غریبوں کے دل اپنے امیر بھائیوں کی طرف سے مکدر ہوجائیں گے۔ ان کے خلاف غربا کے دل میں نفرت و حقارت کے جذبات ابھر آئیں گے۔ معاشرہ امیر و غریب کے دو گروہوں میں بٹ جائے گا۔ ان دونوں گروہوں کے درمیان حقارت و نفرت کی ایک خلیج حائل ہوجائے گی۔ یہ نفرت معاشرے کو سنگین مسائل سے دوچار کردے گی۔

ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دین فطرت نے انفاق فی سبیل اللہ کا طریقہ رائج کیا ہے۔ اور یہ وہ طریقہ ہے جو کہ موجودہ دنیا کے ایک سنگین مسئلہ یعنی کہ سرمایہ دار اور مزدور کے مسائل کا تیر بہدف علاج اور موثر نسخہ ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ ایک شرعی اصطلاح ہے اس کا مترادف لفظ ’’صدقہ‘‘ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ معاشرے کے امیر لوگ اپنے غریب بھائیوں کی حتی الوسع مالی اعانت کریں۔ رفاہِ عامہ کے کاموں میں متوجہ ہوں۔ مثلاً مسجد، اسکول، کنویں وغیرہ بنوادیں۔ یتیموں کی پرورش اپنے ذمے لے لیں۔ غریب و یتیم تشنگانِ علم و ادب کو اپنے خرچ سے تعلیم دلا کر ان کی علمی پیاس کو تسکین عطا کریں وغیرہ اور جمہور کے فائدے کی خاطر بطور استطاعت خرچ کرتے رہیں۔ اور اس تمام نیکی کا بدلہ صرف اللہ تعالیٰ سے چاہیں۔

لیکن کیا شریعت نے امیر دل کو یہ حکم بغیر کسی اجر و صلہ کے دیا ہے؟ نہیں بلکہ اس نے اس کام کے بے شمار دنیاوی اور آخروی فوائد گنوائے ہیں۔ مثلاً خداتعالیٰ عزو جل فرماتے ہیں: ’’کون شخص ایسا ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے پھر اللہ اس قرض کو کئی گنا زیادہ کردے اور اللہ ہی تنگی کرتا ہے اور وہی کشادگی کرتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے۔‘‘

حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ ایک نیکی کے کام کا عام ثواب سات سو گنا تک ہے لیکن خدا اگر چاہے تو اسے بھی کئی گنا بڑھا کر ایک لاکھ تک بڑھا سکتا ہے اور اپنے فضل و کرم سے صدقہ کو اس طرح پرورش کرتا ہے جس طرح انسان اپنے چھوٹے سے بچھڑے کو پرورش کرتا ہے۔ پھر خدا تعالیٰ اس صدقہ کو پرو رش کرتے کرتے اونچا پہاڑ جتنا بنا دیتا ہے۔

مولانا شبیر احمد عثمانی قرض حسنہ کی تعبیر یوں فرماتے ہیں: ’’قرض حسنہ اسے کہتے ہیں جو قرض دے کر تقاضا نہ کرے اور اپنا احسان نہ رکھے اور اپنا بدلہ نہ چاہے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دینے سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے بغیر کسی دنیاوی لالچ کے اپنے غریب بھائی بندوں، مسکینوں، حاجت مندوں کی اپنے فنا پذیر مال سے اعانت کی جائے۔

ہم سرکار دو عالم ﷺ کے فرمان کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ انفاق فی سبیل اللہ یا صدقہ جس کو خدا تعالیٰ کس طرح انسان کے لیے خیر کثیر کا باعث ہوتا ہے:

’’صدقہ غضب الٰہی کوٹھنڈا کرتا اور بری موت سے بچاتا ہے۔‘‘

’’دوزخ کی آگ سے بچو خواہ آدھی کھجورہی دے کرہو۔‘‘

یعنی صدقہ میں بے شمار دینی فوائد پنہاں ہیں اول یہ کہ خدا کے غیظ و غضب کی آتش کو ٹھنڈا کرکے خدا تعالی کی رضا کا موجب بنتا ہے۔ سکرات الموت کے وقت شدت اور تکلیف میں کمی کرکے آسان موت کا باعث بنتا ہے اور پھر دوزخ کی شعلہ زن آگ سے بچانے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح سخی خدا کا مقرب، جنت کے قریب اوردوزخ سے دور ہوتا ہے۔ وہ چونکہ اپنے رشتہ داروں اور دیگر حاجت مندوں کی مدد کرتا ہے اس لیے عوام میں مقبول و ہردل عزیز ہوتا ہے۔

صدقہ کی فضیلت میں عمر بن خطاب فرماتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اعمال باہم ایک دوسرے پر فخر کرتے ہیں لیکن صدقہ کہتا ہے کہ میں تم سب سے افضل ہوں۔

راہ خدا میں مال خرچ کرنا بہت سی بلند اقدار کا حامل ہے مال کو خرچ کرنے والا گویا اس بات کا عملی ثبوت بہم پہنچاتا ہے کہ اے مالک میں نے اپنا مال خون پسینہ ایک کرکے بڑی محنت و کوشش سے حاصل کیا ہے اس لیے مجھے یہ بڑا محبوب ہے۔ لیکن اسے میں تیری رضا کے لیے تیری راہ میں لٹا رہا ہوں۔ تیرے غریب عوام میں خرچ کررہا ہوں۔ محض اس لیے کہ تیری رضا حاصل کرسکوں۔ میں تیری محبت کا خریدار بننا چاہتا ہوں کیوں کہ تیری محبت مجھے اپنی محنت سے کمائے ہوئے فنا پذیر مال سے کہیں زیادہ محبوب ہے۔

اپنا مال و دولت خدا کی راہ میں خرچ کرنابڑی اولوالعزمی کام ہے۔ یہ کام وہی کرسکتے ہیں جن کے قلوب بخل کی پلیدی و نجاست سے پاک ہوں۔ چنانچہ صدقہ کرنے والے آدمی کا دل بخل جیسی آلائش سے پاک ہوجاتا ہے اور وہ بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوجاتا ہے۔ وہ جب اپنے مال کو لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے صرف کرتا ہے تو پھر وہ بلاشبہ اقدار عالیہ کا علمبردار بن جاتا ہے جس انسان کی اس نے حاجت پوری کی ہے۔ وہ انسان بھی ہمیشہ کے لیے اس کا شکر گزار بن جاتا ہے اس طرح غریب و امیر میں محبت و ہمدردی اور خیرسگالی کے وہ لازوال جذبات پنپنے لگتے ہیں جو معاشرہ کو ناقابل تقسیم وحدت میں جکڑ دیتے ہیں اور خود بخود اس فتنے کاسدباب ہوجاتا ہے جو کہ معاشرہ کو محض مالی وجوہات کی بنا پر دو بڑے گروہوں میں منقسم کردیتا ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ میں بظاہر تو مالی نقصان نظر آتا ہے۔ لیکن خدا اس کے سبب مزید انعامات و نوازشات کی بشارت سناتے ہوئے فرماتا ہے: ’’اے ابن آدم تو میری راہ میں مال خرق کر تجھ پر اپنی رحمت کے خزانے کھول دو گا۔‘‘

ایک جگہ اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقے کو بڑھاتا اور اس کی افزائش کرتا ہے۔‘‘

گویا صدقہ ہمارے مال کو کم نہیں کرتا بلکہ اس میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں ان لوگوں کی نسبت جو بغیر کسی طمع و لالچ کے اپنا مال راہ خدا میں غربا و یتامیٰ پر صرف کرتے ہیں فرماتا ہے: ’’یعنی قیامت کے دن جب کہ لوگوں کے چہروں پر مارے حسرت کے شکنیں پڑی ہوں گی اور محشر کے ہولناک و مہیب مناظر سامنے ہوں گے، اللہ ایسے لوگوں کو ہر قسم کی سختی، خوف و دہشت سے محفوظ رکھے گا۔ ان کے چہروں پر تروتازگی اور قلوب میں خوشی و سرور ہوگا۔‘‘

صدقہ کرنے والے کا مال بڑھتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اسے مزید انعامات و نوازشات کی بشارت ملتی رہتی ہے۔

یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ متصدق کو اپنا مال صدقہ کرنے کے بعد اسے جتلانا نہیں چاہیے۔ اس سے احسان یا صدقہ کی تمام تر نیکی ضائع ہوجاتی ہے۔ اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: ’’اے صدقہ کرنے والو اپنے صدقہ کو جتلا کر یا جس آدمی کو صدقہ دیاہے اسے کسی اور قسم کی تکلیف دے کر اپنے صدقہ کے ثواب کو ہر گز ضائع نہ کرو۔‘‘

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں