انفاق کے لیے ایک تجربہ

ڈاکٹر ممتاز عمر

ہم لوگ اکثر اس وجہ سے پریشان رہتے ہیں کہ انفاق فی سبیل اللہ کے حوالے سے رقوم کہاں سے لائیں؟ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسا موقع آتا ہے کہ جہاں مالی ایثار کرنا ہو، جذبہ تو موجود ہوتا ہے، مگر ہاتھ جیب تک جاکر واپس آجاتا ہے، یا پھر محض دس بیس روپیے دے کر معاملے کو ٹال دیا جاتا ہے۔ اکثر مواقع پر مسئلے کی اہمیت، نزاکت ایسی ہوتی ہے کہ زرِ کثیر سے تعاون کیا جائے، مگر اپنی حیثیت اور مال کی عدم دستیابی اس راہ میں رکاوٹ رہتی ہے۔ دل کچوکے لگاتا ہے مگر مجبوری کے پیشِ نظر اس کی خواہشات کو دبانے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ مساجد، مدارس، افطار، دینی پروگرام، قدرتی آفات، سیلاب، زلزلہ یا آتش زدگی وغیرہ کے موقع پر امداد باہمی کی اشد ضرورت ہوتی ہے، مگر ہمارا مسئلہ وہی کہ کچھ نہیں بچتا، کہاں سے دیں؟ یا پھر محدود سی رقم دے کر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی مواقع کے حوالے سے میرا اور دیگر اہلِ خانہ کا جو طریقہ کار ہے، آپ کے سامنے رکھے دیتی ہوں۔ ممکن ہے کسی درجے میں قابلِ قبول ہو۔ یوں مالی ایثار کے مواقع پر شرمندگی سے بچنے اور خواہش کا احترام کرنے میں رکاوٹ نہ پائیں گے۔
میرے والد مرحوم نے مجھے نصیحت کی تھی کہ ہر ماہ کی آمدنی کا پانچ فیصد الگ کرلیں، جو زکوٰۃ کے علاوہ ہو۔ جب ہم نے ان کی یہ تجویز سنی تو اس کے قابلِ عمل ہونے میں بڑی رکاوٹیں نظر آئیں کیونکہ اس طرح ایک بڑی رقم اخراجات سے منہا کرنی تھی اور ہمارا مسئلہ بھی وہی تھا کہ ماہانہ آمدنی میں پہلے ہی بڑی مشکل سے گزارا ہوتا۔ والد صاحب نے اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے یہ بھی بتایا کہ جو نصیحت وہ ہمیں کررہے ہیں اس پر ہمیشہ کاربند رہے ہیں۔ ان کے حکم سے سرتابی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھی۔ اس لیے کچھ پس و پیش کے بعد ہم نے ان کی تجویز پر عمل کرنا شروع کردیا۔ جس کے مطابق ہر ایک ہزار روپئے میں سے پچاس روپئے الگ کرنے تھے۔ یوں خاصی معقول رقم الگ ہوگئی، جس میں سے ہم نے قریبی مسجد ، مدرسے اور اپنی پسندیدہ جماعت کو ماہانہ بنیاد پر کچھ رقم مخصوص کرکے دینا شروع کی، جو ہر ماہ حاصل ہونے والی رقم کا تقریباً نصف تھی، بقیہ رقم کو جمع کرتے رہے۔ جیسے ہی کسی قدرتی آفت یا دیگر وقتی ضرورت کا احساس ہوا، جمع شدہ رقم میں سے ایک بڑا حصہ وہاں ادا کردیا۔ اسی طرح رمضان المبارک کے دوران روزہ افطار کرانے کا پروگرام رکھنے یا محلے میں افطاری بھیجنے کے لیے بھی اسی رقم میں سے کچھ الگ کی۔ یوں افطار پارٹی وغیرہ کے اہتمام میں بھی کافی سہولت رہی۔ یہی نہیں اسی رقم سے دینی و اصلاحی کتب کی خریداری اور دوست، احباب کو بطور تحفہ دینے میں بھی خاصی سہولت رہی ہے۔
الحمدللہ یہ طریقہ کار بڑا کارآمد ثابت ہوا کیونکہ آمدنی کا کوئی ایک حصہ مقرر نہیں کیا بلکہ آمدنی میں پانچ فی صد حصہ مختص کیا ہے جو آمدنی کے بڑھنے یا گھٹنے ہر دو صورتوں میں گھٹتا بڑھتا رہتا ہے (ویسے راز کی بات یہ ہے کہ اس طریقے کو اپنانے کے بعد آمدنی کبھی گھٹی نہیں ہمیشہ بڑھی ہے۔) امید ہے کہ آپ اس طریقے کو اختیار کرکے انفاق فی سبیل اللہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں گے۔ پہلی مرتبہ اس طریقے کو اپنانے میں پریشانی ہوگی مگر جب آپ ایک مرتبہ یہ کام شروع کرلیں گے تو ان شاء اللہ رب العالمین کا فضل و کرم بھی شاملِ حال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146