انقلابی کتاب

قاری محمد طیب صاحبؒ

قرآن کریم ایک انقلابی کتاب ہے جو دلوں کو بدل دیتا ہے اور روحوں کو بدل دیتا ہے۔ جنہوں نے اسے ہاتھ نہیں لگایا وہ تو نہیں جانتے کہ کیا چیز ہے کیوں کہ انہوں نے استعمال نہیں کیا اس کو اور جب تک کسی چیز کو استعمال نہ کیا جائے اس کے فوائد معلوم نہیں ہوسکتے اور نہ ہی اس کا کوئی اثر ہوسکتا ہے، جیسے قیمتی سے قیمتی دوا ہو لیکن اس کو استعمال نہ کیا جائے تو وہ کیا اثر کرے گی۔ مثلاً شہد کو کہاگیا ہے کہ اس میں شفا ہے لیکن کوئی شخص شہد سے گھبرائے اور خیال کرے کہ شہد میرے گھر میں بھی داخل نہ ہوسکے، تو کیا فائدہ ظاہر ہوگا۔ ایسے ہی اگر قرآن کریم سے بچتے رہیں گے کہ قرآن کریم کو سنے بھی نہ اور اس کے پاس پھٹکے بھی نہ تو کیا اس کا نور ظاہر ہوگا۔ اسی کے لیے نور ظاہر ہوگا جو اس کو آکر سنے، اس کو پڑھے، اس کو دل میں جمائے۔ اسی سے اس کے انوار و برکات نمایاں ہوں گے۔ اس کے لیے دیکھا جائے تو قرآن کریم ایک انقلاب کی کتاب ہے دلوں کو بدل دے، روحوں کو بدل دے، کایا پلٹ کردے۔ زمانہ جاہلیت جو اسلام سے قبل کا زمانہ ہے اس کے اندر، دلوں میں، روحوں میں ہر برائی جمی ہوئی تھی، شرک میں وہ مبتلا تھے بدعات مین وہ مبتلا تھے، منکرات میں وہ مبتلا تھے، چوری ڈکیتی، زناکاری، ساری حرکتیں ان کے اندر موجود تھیں۔ عقیدہ صحیح، نہ عمل صحیح نہ مال درست، بس جیسے جانور گزارتے ہیں اس طرح سے زمانہ جاہلیت کا دستو رتھا، رات دن ڈکیتی۔ رات دن مار دھاڑ، قبیلوں میں جنگ اور کشت و خون۔ ہر وقت کا یہی مشغلہ تھا۔ قرآن کریم آیا جن دلوں نے اس کو قبول کیا اور اس سعادت کو حاصل کیا تو ایک دم کایا پلٹنی شروع ہوگئی۔ پہلے ان کا نام تھا جہلائے مکہ، جب اس کو قبول کرلیا اب ان کا نام ہوگیا صحابہ کرامؓ۔ تو جہلائے مکہ سے بن گئے صحابہ کرام ان کا وہ زمانہ زمانہ جاہلیت تھا اب اس کا نام ہوگیا خیر القرون کہ دنیا کے سارے زمانوں میں بہترین زمانہ ہے۔ وہ لوگ جو جہالت میں مبتلا تھے علماء کے استاد بنے۔ پوری دنیا کو نور سے منور کر دیا ایک دم کایا پلٹ ہوگئی، جو ایک ایک پیسے کے لیے ڈکیتیاں ڈالتے تھے گردنیں کاٹتے تھے، اور مرتے تھے پیسے کے اوپر آج کی یہ کیفیت ہے کہ گھر بھرے ہوئے ہیں خزانوں سے اور وہ رخ کر کے بھی نہیں دیکھتے۔

حضرت علیؓ کا واقعہ

حضرت علیؓ ایک مرتبہ خزانے میں تشریف لے گئے تو سونے اور چاندی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے، بیت المال میں لاکھوں روپے جمع تھے۔ سونے چاندی کو خطاب کرکے فرمایا: دنیا غری غیری اے دنیادھوکہ کسی اورکو دینا۔ ہم تیرے دھوکے میں آنے والے نہیں۔ اور خزانچی کو اسی وقت حکم دیا کہ غرباء میں دولت تقسیم کی جائے، رات بھر دولت تقسیم ہوئی۔ اندازہ لگایا تو لاکھوں روپے تقسیم ہوئے، یہ لوگ تھے جو پہلے ایک ایک پائی کے لیے جان دیتے تھے اور آج خزانے پڑے ہوئے ہیں، اوراس کو خطاب کر رہے ہیں کہ ہم تجھ پر ریجھنے والے نہیں، ہم تجھ پر مرنے والے نہیں ہیں ۔ یہ کایا پلٹ کہاں سے ہوئی!

اس قرآن نے ہی تو دلوں کو بدل دیا تھا، روحوں کو پلٹ کر رکھ دیا تھا، پہلے مال کی محبت تھی،اب کمال کی محبت ہوئی، پہلے مخلوق کی محبت تھی، اب خالق کی محبت شروع ہوئی اور محبت میں مستغرق ہوگئے، غرق، غرق ہوگئے۔ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

حضرت جابرؓ کا واقعہ

حضرت جابرؓ لکھ پتی صحابہ میں ہیں ایک دن گھر میں تشریف لائے تو اہلیہ محترمہ نے دیکھا کہ کچھ غمگین اور اداس ہیں پوچھا کہ آج آپ اداس کیوں ہیں؟ فرمایا کہ خزانے میں روپے زیادہ جمع ہوگئے ہیں دل کے اوپر بوجھ پڑ رہا ہے کہ اتنی خرافات کہاں میرے سر پر لد گئی۔ اس کی وجہ سے غمگینی ہے۔ بیوی بھی صحابیہ تھیں انہوں نے کہا کہ پھر غم کی کیا بات ہے اللہ کے نام پر غرباء کو تقسیم کردو۔ بس تشریف لے گئے اور خزانچی کو بلاکر حکم دیا کہ غرباء میں تقسیم کیا جائے یتیموں اور بیواؤں کی مدد کی جائے، تمام رات مدینہ کی گلیوں میں روپیہ تقسیم ہوتا رہا صبح کو جو حساب لگایا تو رات بھر میں چھ لاکھ روپے تقسیم ہوئے۔ صبح کو گھر پہنچے بہت ہشاش بشاش۔ بیوی کے ہاتھ چومے اورکہا کہ بہت عمدہ تدبیر بتلائی تھی، میرا دل ہلکا ہوگیا۔ پہلے یہ کیفیت تھی کہ ان کا دل ہلکا ہوتا تھا جب دولت زیادہ ہوتی تھی یا آج ہلکا ہونے لگا جب دولت ختم ہوجائے یہ کایا پلٹ نہیں تھی تو اور کیا تھا۔انقلاب نہیں تھا تو اور کیا تھا دل بدل گئے۔

دولت کی محبت سب سے زیادہ عورتوں کو ہوتی ہے اور ان ہی سے یہ روگ مردوں کو بھی لگتا ہے اگر عورتیں نہ ہوں تو یہ بھی اس روگ میں مبتلا نہ ہوں اور یہ محبت عورتوں میں اس لیے ہوتی ہے کہ پیداہوتے ہی یہ زیوروں کی جھنکار میں ہی پرورش پاتی ہیں۔ آج اس کے کان میں سوراخ کردیے تو بالیاں پڑ گئیں۔ ناک پھوڑ دی تو اس میں لونگ گھس گئی ہاتھ پاؤں میں سونے چاندی کی بیڑیاں ڈال دیں وہ بندھ گئیں۔ تو پیدائش سے لے کر وہ مبتلا ہوتی ہیں سونے چاندی میں اس لیے ان کے دل میں ان کی محبت بیٹھ جاتی ہے۔ جس کو قرآن کریم میں فرمایا گیا: ’’کیا یہ عورت جو رات دن زیوروں کی جھنکار میں پرورش پا رہی ہے یہ عقل کامل رکھتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر خاوند سے توتو میں میں ہوجائے تو خاوند تو اپنے دلائل پیش کرے گا اور یہ وہی مرغے کی ایک ٹانگ ہانکے جائے گی نہ دلیل نہ حجت یہ اسی پر جمی رہے گی تو جو کلام کی پاک قوت ہوتی ہے وہ نہیںرہتی کیوں کہ علم نہیں اور علم اس لیے نہیں کہ مال یعنی سونا چاندی اندر گھسا ہوا ہے۔ علم نورانی ہے اور دولت سیاہ چیز ہے۔ اور سیاہی کے ساتھ نور جمع نہیں ہوتا ہے اور سیاہی آنکھوں سے نظر آتی ہے آپ خود دیکھتے ہیں اب تو خیر سونے چاندی کا سکہ نہیں رہا اب تو کاغذ رہ گئے ہیں مگر جب سونے چاندی کے سکے تھے تو اگر پچاس روپے گن لیں تو انگلیاں سیاہ ہوجاتی تھیں تو سونے چاندی میں کالک بھری ہوئی ہے گنتے گنتے ہاتھ پیر سیاہ ہوجاتے تھے جو عورتیں رات دن پیروں میں زیور پہنتی ہیں توان کے ٹخنوں پر سیاہ داغ پڑ جاتے ہیں۔ حضرت مولانا نانوتوی کا مقولہ میں نے سنا اسی کے بارے میں فرمایا کہ دست زر آلود این قدر بدبو میکند۔ قلب زرد آلود چہ قدر بدبو خواہد کرد یعنی جو ہاتھ سونے چاندی کو لگتے ہیں اس میں اس قدر بدبو آجاتی ہے، اگر کوئی دل اٹک جائے سونے چاندی میں تو دل میں کتنی بدبو پیدا ہوگی اور کتنا تعفن پیدا ہوگا تو عورتوں کے بارے میں فرمایا: ’’جب وہ عورتیں زیورات میں ہی نشو و نما پاتی ہیں تو ان کے اندر علم و کلام کی قوت کہاں سے ہوسکتی ہے وہ تو مرغ کی ایک ہی ٹانگ ہانکے جائیں گی، نہ حجت، نہ دلیل۔ دوسرا لاکھ دلیلیں بیان کرے وہ اپنی ہی ہٹ پر رہیں گی چوں کہ دولت سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ مگر قرآن کریم نے عورتوں کے دل اتنے بدل دیے تھے کہ بجائے محبت کے بیزاری پیدا ہوگئی تھی سونے چاندی سے۔ حضرت عائشہؓ کے بھانجے عبد اللہ ابن زبیرؓ مکہ کے حاکم ہوگئے تھے تو انہوںنے بوریاں بھر کر گیہوں کی اور زیوروں کی اپنے خالہ کے ہاں ہدیہ کے طور پر بھیجی تو اندازہ کیجیے۔ کتنے ہزاروں اور کتنے لاکھوں روپے ہوں گے جب کہ دو بوریاں بھری ہوتی ہوں۔ ایک طرف سونا اور ایک طرف چاندی یہ تمام سامان لے کر خالہ کے گھر پہنچے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ میں کیا کروں گی، اتنی دولت کو اس کو غریبوں میں تقسیم کردو وہ دولت غریبوں کو تقسیم ہونی شروع ہوگئی۔ صبح سے تقسیم کرنا شروع ہوئی اور شام تک وہ بوریاں خالی ہوگئیں۔ باندی نے عرض کیا کہ ام المومنین تین وقت سے آپ پر فاقہ ہے کچھ آپ نے بھی رکھ لیا ہوتا ، فرمایا کہ بیوقوف پہلے سے کیوں نہیں کہا۔ دو چار روپے میں بھی رکھ لیتی۔ ذہن میں یہ بھی نہیں کہ تین وقت سے فاقہ میں ہوں اور مجھے کچھ رکھ لینا چاہیے۔ اس قدر گویا کہ غنی ہوگئی تھیں وہ زر سے اور دولت سے کہ یہ بھی یاد نہیں تھا کہ مجھے فاقہ ہے کچھ مجھے رکھنا چاہیے۔ یہ انقلاب تھاقرآن کا پیدا کیا ہوا کہ عورتوں کے قلوب کو بھی اتنا پاک بنا دیا تھا کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں آتا تھا کہ پیسہ پاس نہیں ہم فاقہ سے ہیں یہ قرآن کا ہی تو انقلاب تھا۔ تو قرآن کریم دنیا میں بھی انقلاب پیدا کرتا ہے آخرت میں بھی۔ دنیا میں تو یہ کہ دل کے اندر بجائے کفر و معصیت کے ایمان کی حلاوت پیدا کرتا ہے اور آخرت میں جہنم سے بچا کے جنت میں پہنچاتا ہے۔ فتنوں سے نکال کر امان میں پہنچاتا ہے قرآن یہاں بھی انقلاب لاتا ہے،اور آخرت میں بھی انقلاب لائے گا اور برزخ میں قبر کے اندر بھی انقلاب لائے گا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146