انوکھا امتحان

علی اکمل تصور

میری آنکھوں نے جو منظر دیکھا تھا اسے تسلیم کرنے کے لیے میرا ذہن تیار نہیں تھا۔ اس وقت میں اپنے دوست ادریس کی دکان پر موجود تھا۔ بازار میں روزانہ کی طرح بہت بھیڑ تھی۔ میں اپنے دوست سے باتیں بھی کررہا تھا اور بازار میں لوگوں کو چلتے پھرتے بھی دیکھ رہا تھا۔

ادریس کے پاس روزانہ شام کے وقت آکر بیٹھنا میرا معمول تھا۔ ہم بچپن کے ساتھی تھے۔ ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کی، پھر ایک ساتھ شہر کے بہترین کالج میں داخلہ لیا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک ساتھ نوکری کی تلاش میں نکلے۔

میرے والد صاحب ایک بڑے سرکاری آفیسر تھے۔ ان کی سفارش پر مجھے بینک میں نوکری مل گئی۔ میں نے ادریس سے بہت کہا کہ اپنے ابو سے کہہ کر تمہارے لیے نوکری کا بندوبست کروادیتا ہوں۔ لیکن وہ ضدی ہونے کے ساتھ ساتھ اصول پرست بھی تھا۔

میری بات سن کر اس نے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا تھا: ’’مجھے تو تم نوکری دلوا دو گے لیکن اتنے نوجوان جو بے روزگار ہیں انھیں نوکری کون دلوائے گا؟‘‘ اس کی بات کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ دن گزرتے رہے اور چھ ماہ گزر گئے۔ ادریس کو نوکری نہ ملی تو اس نے ایک جنرل اسٹور کھول لیا اور پھر میرا اس سے روزانہ شام کے وقت ملاقات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

اس وقت بھی میں دکان پر اس کے پاس بیٹھا تھا کہ میں نے ایک شخص کو بازار میں ادریس کی دکان پر لگے سائن بورڈ کو غور سے پڑھتے دیکھا پھر وہ شخص بری طرح چونکا۔ اس کے چہرے پر سفید داڑھی بہت بھلی لگ رہی تھی۔ سر پرسفید کپڑا لپیٹ رکھا تھا۔ پھر وہ دکان کے سامنے آکھڑا ہوا۔ اب وہ غور سے ادریس کو دیکھ رہا تھا جیسے اسے پہنچاننے کی کوشش کررہا ہو۔

’’ادریس ذرا دیکھو تو … ‘‘ میں نے دھیمی آواز میں اسے متوجہ کیا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور سوالیہ لہجے میں کہا : کیا بات ہے؟

’’ادھر بازار میں دیکھو …‘‘ میں نے اس بزرگ آدمی کی طرف اشارہ کیا۔

کون ہے… اس کے منہ سے نکلا اور وہ اپنی نشست پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بوڑھا شخص دکان میں داخل ہوا اور ادریس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ ’’تم ادریس ہونا…‘‘ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔

’’ہاں اور آپ…‘‘ ادریس کی بات نامکمل رہ گئی۔ وہ بوڑھا شخص تحکمانہ لہجے میں بولا: ’’ذرا باہر آؤ…‘‘ اس کی بات سن کر ادریس کاؤنٹر کے پیچھے سے نکل کر اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔

’’رومال ہے تمہارے پاس…؟‘‘ بوڑھے نے پوچھا: ’’ہاں… ہے…‘‘ ادریس نے کہا۔

’’میرے جوتے صاف کرو۔‘‘ بوڑھے کی بات کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ ادریس جیب سے رومال نکالتے ہوئے جھکا اور اس کے جوتے صاف کرنے لگا۔

یہ منظر میری آنکھیں دیکھ رہی تھیں اور میرا ذہن سمجھ نہیں پارہا تھا۔ چند لمحوں بعد وہ آدمی چھوٹی چھوٹے قدم اٹھاتا دکان سے نکل گیا اور ادریس اپنے رومال کو تہہ لگاتے ہوئے اپنی نشست پر آبیٹھا۔ اس کا چہرہ مسرت کے جذبے سے چمک رہا تھا اور میرا دل ڈوب رہا تھا۔ میرے دوست نے ایک غریب سے بوڑھے آدمی کے جوتے صاف کیے تھے۔ کس قدر شرمندگی کی بات تھی۔ پھر میں نے ادریس کی طرف دیکھا ، وہ مسکرا رہا تھا۔

ایک آدمی تمہاری بے عزتی کرگیا اور تم مسکرا رہے ہو۔ میرا لہجہ بڑا تلخ تھا۔ تم ایک بار پہلے بھی ایسی ہی بات دوسرے انداز سے کہہ چکے ہو… جب میں نے جنرل اسٹور کھولنے کا فیصلہ کیا تھا تم نے کہا تھا کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیا مجھے اسٹور کھولنے پر بے عزتی کا احساس نہیں ہوگا۔ اور میں نے تمہیں جواب میں کہا تھا کہ رزق حلال کا حصول جس کام سے بھی ممکن ہو، وہ کام عظمت والا ہوتا ہے، ادریس نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا۔

لیکن اس آدمی میں تمہیں کون سی عظمت نظر آئی؟ میں نے طنزیہ لہجے میں کہا: ’’وہ انسان عظمت میں سب سے بڑھ کر ہے تم سے بھی … اور تم نے جو مجھے اس کے جوتے صاف کرتے ہوئے دیکھا تو ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ میں تو بچپن سے اس کے جوتے صاف کررہا ہوں۔ آج تو میرا امتحان تھا اور میں خوش ہوں کہ اس امتحان میں مجھے کامیابی ملی۔‘‘ وہ کہتا چلا گیا۔ چند لمحوں کی خاموشی رہی میں اب جاننا چاہتا تھا کہ وہ عظیم شخص بھلا کون ہوسکتا ہے!

’’وہ میرا روحانی باپ ہے۔ میرے ابو کا دوست … بچپن میں مجھے وہ گھر پر پڑھانے کے لیے آیا کرتے تھے۔ اسکول میں کیسی تعلیم دی جاتی ہے اس کا اندازہ مجھے بھی ہے اور تمہیں بھی… یہی وہ بزرگ ہیں جنھوں نے میرے وجود میں علم کی پیاس پیدا کی۔ اور دس سال تک میری راہنمائی کرتے رہے۔ میری بچپن سے عادت تھی کہ ضرورت پڑنے پر ان کے جوتے میں ہی صاف کرتا تھا۔

پھر جب میں کالج میں آیا تو یہ جانے کہاں چلے گئے۔ آج ان سے ایک عرصے کے بعد ملاقات ہوئی ہے۔ انھوں نے میرا امتحان لیا ہے کہ میں اب بھی وہی طالب علم ہوں یا ایک کاروباری انسان۔ مجھے خوشی ہے کہ میں ان کی آزمائش میں پورا اترا ہوں۔ میں سوچنے لگا کہ ان دونوں میں عظیم کون ہے۔ ادریس کا استاد یا خود ادریس…

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146