منظر: خلیفہ متوکل عباسی اپنے خاص دربایوں کے ہمراہ جلوہ افروز ہے۔ (دربان یعقوب قوصرہ دربار میں داخل ہوتا ہے۔
متوکل: یعقوب! کیا خبر لائے؟
یعقوب: امیر المؤمنین آپ کے حکم کے بموجب احمد بن ابی دوأد گرفتار کرکے لائے گئے ہیں۔
متوکل: اس ذلیل کو یہاں لے آؤ۔
یعقوب: امیر المؤمنین کا حکم سر آنکھوں پر۔ (یعقوب واپس جاتا ہے اور ابن ابی دوأد کو لے کر آتا ہے۔ پولس کے دو جوان اسے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں، نگاہیں اس کی جانب اٹھ جاتی ہیں۔)
متوکل: اس کو زمین پر بٹھا دو اور اس دیوار سے ٹکا دو، (ابن ابی دوأد کو زمین پر بٹھا دیا جاتا ہے اور ایک گوشہ کی دیوار سے ٹکا دیاجاتا ہے۔ فالج زدہ ہے خود سے حرکت نہیں کرسکتا۔)
ابن ابی دوأد: امیر المؤمنین! السلام علیک۔
متوکل: تمہارے علاوہ پر امن و سلامتی، ابن ابی دوأد، کیا تم بتا سکتے ہو کہ تم لوگوں نے احمد بن حنبل کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟
ابن دوأد: میرا خیال ہے کہ امیر المؤمنین اس سے ناواقف نہیں ہیں۔
متوکل: کیا حقیقت میں جلادوں نے انھیں اتنا مارا تھا کہ وہ بے ہوش ہوگئے تھے؟
ابن ابی دوأد: جی ہاں! امیر المؤمینن۔
متوکل: کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ ان سب ایذا رسانیوں کے سزاوار تھے؟
ابن ابی دوأد: ……
متوکل: ان کا جرم کیا تھا؟
ابن ابی دوأد: امیر المؤمنین! انھوں نے اس بات سے انکار کیا تھا کہ قرآن مخلوق ہے۔
متوکل: کیا تمہارا خیال ہے کہ وہ دین کے خلاف سازش اور دین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے تھے؟
ابن ابی دوأد: نہیں، ایسا نہیں تھا۔ مگر انھوں نے غلطی کی۔
متوکل: تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ انھوں نے غلطی کی۔ کیا تم دین کے سب سے بڑے عالم ہو اور اس عظیم اور بلند پایہ امام سے زیادہ سنت سے واقفیت رکھتے ہو؟
ابن ابی دوأد: امیر المؤمنین! میں اس بارے میں اکیلا نہیں تھا، میں آپ کے والد امیر المؤمنین معتصم کے ہمراہ تھا۔
متوکل: کیا معتصم، احمد بن حنبل سے بڑے عالم و فقیہ تھے؟
ابن ابی دوأد: یہی رائے آپ کے چچا امیر المؤمنین مامون کی بھی تھی۔
متوکل: تمہارا ناس ہو، کیا صرف اس بنا پر مامون کو احمد بن حنبل سے زیادہ کتاب و سنت کا علم ہوگیا تھا کہ اس نے یونانی فلسفہ کی کچھ شد بد حاصل کرلی تھی۔
ابن ابی دوأد: امیر المؤمنین! حکمرانی کے لیے یہی بات کار آمد تھی۔
متوکل: کون سی حکومت؟ ہماری حکومت، یا ہمارے دشمن علویوں کی حکومت۔
ابن ابی دوأد: اے آل عباس! تمہاری اپنی حکومت۔
متوکل: کیا مامون اس حکومت کو مسمار کرنے کے لیے کوشاں نہیں تھا، کیا اس نے یہ ارادہ نہیںکیا تھا کہ حکومت کو ہمارے ہاتھوں سے چھین کر ابن ابی طالب کو پیش کردے۔
ابن ابی دوأد: امیر المؤمنین خوب جانتے ہیں کہ مجھے اس بات سے کوئی سرورکار نہیں تھا۔
متوکل: میں تمہیں اس کی وجہ سے سزا نہیں دوں گا۔ لیکن اس بناء پر ضرور سزا دوں گا کہ تم نے اس جلیل القدر امام پر ظلم ڈھائے ہیں۔ اور میرے چچا مامون، میرے والد معتصم اور میرے بھائی واثق کی حکمرانی کے دوران ان کو سخت ترین تکلیفیں اور اذیت پہنچائی ہے۔
ابن ابی دوأد: امیر المؤمنین! اس لیے کہ یہ آل علی کے ہمنوا اور معاون تھے۔
متوکل: ان کے گھر کی تلاشی لی گئی مگر ہمارے علوی دشمنوں میں سے کوئی بھی نہیں ملا، حالاں کہ تم نے جھوٹ اور بہتان تراشی کرکے تلاشی لینے پر اصرار کیا تھا۔
ابن ابی دوأد: امیر المؤمنین! انھوں نے وہاں سے ہٹا دیا ہوگا، یا فرار ہوجانے دیا ہوگا۔
متوکل: ناپاک مجرم! تو جھوٹ بکتا ہے۔ خدا کی قسم، میں تمہاری باقی ماندہ جائیداد ضبط کرلوں گا تاکہ تمہارے پاس ایک کوڑی بھی نہ بچے۔
ابن ابی دوأد: امیر المؤمنین! رحم کیجیے۔ میرے گھر والوں اور بچوں کے سہارے کے لیے کچھ چھوڑ دیجیے آپ نے تو میری جائیداد اور دولت کے بڑے حصہ کو واپس لے لیا ہے اس کے نتیجہ میں اس فالج کا شکار ہوا، اللہ تعالیٰ آپ کو محفوظ رکھے۔
متوکل: یہ تو اللہ کا عذاب ہے، اب تم میری سزا کا مزا چکھو گے۔
ابن ابی دوأد: امیر المؤمنین! ابن حنبل کو جو بھی تکلیف دی گئی اس کی سزا تنہا مجھے دیں یہ انصاف نہیں ہے۔
متوکل: تمہارا برا ہو، کیا تمہارے شریک کار: مامون، معتصم اور واثق کی قبریں کھدواؤں، تو یہی چاہتا ہے ناہنجار؟
ابن ابی دوأد: اللہ کی پناہ، میں تو آپ سے درگذر اور معافی کا خواستگار ہوں اور ان حضرات کے لیے اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا خواہاں ہوں۔
(یعقوب داخل ہوتا)
یعقوب: امیر المؤمنین! احمد بن حنبل پہنچ چکے ہیں۔
متوکل: مرحبا! خوش آمدید! تشریف لائیں۔
(یعقوب واپس جاتا ہے)
متوکل: اے شخص! کیا تو یہ پسند کرے گا کہ میں تمہارے بارے میں احمد بن حنبل کو ثالث بنادوں، وہ تمہارے بارے میں جو چاہیں فیصلہ کریں؟
ابن ابی دوأد: امیر المؤمنین! آپ زیادہ رحم دل اور انصاف پسند ہیں، میرا معاملہ میرے دشمن کے سپرد نہ کریں۔
متوکل: کیا تم ان کا فیصلہ نہیں پسند کرتے؟
ابن ابی دوأد: امیر المؤمنین! میں تو صرف آپ کے فیصلہ کا منتظر ہوں۔
متوکل: تو پھر جہاں ہو اسی طرح پڑے رہو، اور جب تک پوچھا نہ جائے ایک لفظ نہ بولو گے۔
(امام احمد بن حنبل دربار میں داخل ہوتے ہیں، خلیفہ ان کے احترام میں کھڑا ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ تمام درباری سروقد کھڑے ہوجاتے ہیں متوکل انھیں اپنے پہلومیں بٹھا لیتا ہے۔)
متوکل: ابو عبداللہ! خوش آمدید و مرحبا، آپ کی آمد ہمارے لیے باعث شرف وسعادت ہے۔
احمد: امیر المؤمنین کو اللہ تعالیٰ صلاح و فلاح عطا فرمائے۔ میں آج آپ کے حکم کی بجا آوری کے طور پر آپ کے محل میں حاضر ہوگیا، امیر المؤمنین! مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟
متوکل: مجھے آپ سے ایک شکایت ہے،میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
احمد: امیر المؤمنین ! کس طرح کی شکایت؟
متوکل: ابوعبداللہ! آپ ہماری مجلس میں آنا پسند نہیں کرتے ہیں۔
احمد: میں بلا ضرورت حاضری پسند نہیں کرتا تاکہ آپ کو آپ کی رعایا کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں رکاوٹ نہ بنوں۔
متوکل: مگر آپ نے تو بغداد سے یہاں آنا ہی پسند نہیں کیا۔
احمد: امیر المؤمنین! دراصل مجھے سفر کی مشقت و پریشانی سے تردد و تکلف تھا، آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں بوڑھا اور عمر رسیدہ ہوں۔
متوکل: ان سب کا برا ہو، مجھے تو لوگوں نے بتایا کہ آپ مجھ سے ملنا نہیں چاہتے اور اس سے گریز کرتے ہیں، ورنہ میں آپ کو سفر کی تکلیف نہ دیتا۔
احمد: امیر المؤمنین! یہ تو ویسی ہی بات ہوئی کہ میںنے اپنے گھر میں آپ کے کسی دشمن کو پناہ دے رکھی ہے۔
متوکل: جی ہاں… ابو عبداللہ مجھے معاف کردیں۔ مجھ سے غلطی ہوئی، میں نے آپ کے گھر کی تلاشی لینے کا حکم دیا۔
احمد: امیر المؤمنین! میں نے آپ کو پہلے ہی معاف کردیا تھا۔
متوکل: اور جو ہدیہ میں نے آپ کی خدمت میں بھیجا تھا اس کے بارے میں سنا کہ آپ نے قبول نہیں کیا اور اسے غریبوں و مسکینوں کو تقسیم کردیا۔
احمد: وہ لوگ مجھ سے زیادہ ضرورت مند تھے، اس لیے میں نے ان کو دے دیا، میرا مقصد آپ کو تکلیف پہنچانا یا ناراض کرنا نہیں تھا۔
متوکل: لیکن ابوعبداللہ! مجھے اس سے ناراضگی ہے۔
احمد: (مذاق کرتے ہوئے) امیر المؤمنین! آپ نے میرے بیٹے کے لیے چھوڑا ہی کیا؟ وہ اپنی ناراضگی میں حق بجانب ہے، لیکن آپ کے پاس کوئی عذر نہیں!
متوکل: (ہنستے ہوئے) ابوعبداللہ! آپ سچ کہتے ہیں، آج سے میں آپ کے سلسلہ میں کسی چغل خور کی بات نہ سنوں گا۔
احمد: اللہ تعالیٰ امیر المؤمنین کو خوش رکھے اور صحت و عافیت عطا فرمائے۔
متوکل: آپ نے تو میری غلطی و لغزش سے درگذر کردیا، تو کیا آپ میرے والد معتصم کو بھی معاف کردیں گے۔
احمد: میں نے معاف کردیا۔
متوکل: (خوش ہوتے ہوئے) کیا واقعی، آپ کے دل میں اس کے خلاف کوئی رنجش اور کبیدگی باقی نہیں رہی۔
احمد: اور نہ کسی ایسے شخص کے خلاف جس نے مجھے اذیت دی یا تکلیف پہنچائی۔ میں نے سب کو معاف کردیا۔
متوکل: اس معلون مجرم کو بھی (اور ابن ابی دوأد کی جانب اشارہ کیا)
احمد: (متوکل نے جس طرف اشارہ کیا تھا ادھر دیکھتے ہوئے) امیر المؤمنین! یہ کون ہے؟
متوکل: کیا آپ اسے نہیں پہچان رہے ہیں؟ یہ آپ کا دشمن ابن ابی دوأد ہے۔
احمد: نہیں، امیر المؤمنین، یہ میرا دشمن نہیں ہے۔ میں نے اسے معاف کردیا اور اس سے درگذر کردیا ہے۔
متوکل: یعقوب!
یعقوب: حاضر! امیر المؤمنین۔
متوکل: اس ذلیل کو اس کے گھر والوں کے پاس لے جاؤ۔
ابن ابی دوأد: (دونوں کانسٹبل اسے اٹھا کر نکلنے کاارادہ کرتے ہیں۔) امیر المؤمنین! میرے معاملہ میں ابوعبداللہ کو ثالث بنادیجیے۔
متوکل: اب، جبکہ تم پہلے اس کو رد کرچکے ہو، اب تو تمہارے بارے میں میں ہی فیصلہ کروں گا۔
ابن ابی دوأد: اللہ آپ کی عمر دراز کرے، میرا فیصلہ انہی کے سپرد کردیجیے۔
(دونوں اسے لے کر جاتے ہیں اس کی چیخ و فریاد سنائی دیتی ہے۔)
احمد: امیر المؤمنین! اس کا کیا معاملہ ہے… ابن ابی دوأد کا کیا قصہ ہے؟
متوکل: میں اس سے آپ کا بدلہ لینا چاہتا تھا، لیکن آپ نے معاف کردیا، تو میں نے حکم دیا کہ اسے اس کے گھر والوں کے پاس پہنچادیا جائے۔
احمد: اللہ تعالیٰ آپ کو عزت و شرف بخشے، اللہ کا ارشاد ہے: فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ۔ (جس نے معاف اور معاملہ کو درست کردیا تو اس کا اجر اللہ کے یہاں ثابت ہوگیا۔)
متوکل: یہی شخص ہے جس نے آپ کو اذیت اور تکلیف پہنچائی اس نے ہی میرے والد، میرے چچا اور میرے بھائی کو آپ کو ایذا رسانی اور آپ پر ظلم و تشدد کرنے کے لیے آمادہ کیا تھا۔
احمد: (ہاتھ اٹھا کر گڑگڑا کر دعا کرتے ہوئے) اے اللہ تو ابن ابی دوأد کو معاف کردے۔ اے اللہ تو اس کی توبہ قبول کرلے۔
متوکل: اور آپ اس کے لیے دعا بھی کررہے ہیں۔ آپ گنہگاروں اور مجرموں کے لیے دعا کرتے ہیں؟
احمد: (دعا جاری رکھتے ہوئے) اے اللہ اگر تو امت محمد ﷺ کے گنہگاروں کی جانب سے فدیہ قبول کرے تو مجھے ان کی جانب سے بطور فدیہ قبول کرلے۔ (تمام درباریوں اور حاضرین پر خشیت طاری ہوجاتی ہے، ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہیں، اور ان پر گہری خاموشی چھا جاتی ہے۔)
متوکل: (اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی ہوتی ہیں) اے ابوعبداللہ! ہم آپ کی صحت سے بے نیاز نہیں ہوسکتے ہیں۔ کیا آپ اس وقت تک جب تک اللہ چاہے ہمارے ساتھ (سر من رأی) میں قیام نہیں کرسکتے ہیں؟
احمد: امیر المؤمنین! آپ مجھے معاف کریں اور مجھے اپنے گھر بغداد واپس لوٹ جانے کی اجازت دے دیں میں آپ کا شکر گزار ہوں گا۔
متوکل: کیا آپ میرے ساتھ قیام کو ناپسند کرتے ہیں، یا آپ کو ہماری کوتاہی کی شکایت ہے؟
احمد: امیر المؤمنین! میں آپ سے سچ کہوں گا، میں نہیں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے والد معتصم سے زیادہ میرے لیے امتحان کا سبب بنیں۔
متوکل: ابو عبداللہ، یہ کیسے؟
احمد: کل آپ کے والد نے مجھے دین کی آزمائش میں ڈالا تھا، اور آج آپ مجھے دنیا کے فتنہ اور امتحان میں ڈالنا چاہتے ہیں، اپنے عطیوں، انعاموں اور نعمتوں سے مجھے اور میرے گھر والوں کو مالا مال کردینا چاہتے ہیں، امیر المؤمنین میں پہلی آزمائش سے تو بچ گیا مگر ڈرتا ہوں کہ دوسرے امتحان سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکوں گا۔
متوکل: ابو عبداللہ! میں آپ کا مقصد سمجھ گیا، میری جانب سے اختیار ہے آپ جو پسند فرمائیں۔
احمد: (خوش ہوکر) امیر المؤمنین! اللہ تعالیٰ آپ کو طویل عمر عطا کرے۔ اور آپ کو ہر خیر و بھلائی کی توفیق دے۔
متوکل: ابو عبداللہ! میرے پاس سے روانہ ہونے سے قبل مجھے کچھ نصیحت کرتے جائیں۔ مجھے ایسی نصیحت کیجیے جو میں زندگی بھر یاد رکھوں۔
احمد: اے اللہ کے بندے … سفر قریب ہے، راستہ طویل ہے… اور زاد راہ قلیل ہے۔
(پردہ)