انوکھی ترکیب

خالد محی الدین

پانچ سال گزرنے کے باوجود وہ اولاد کی نعمت سے محروم رہا۔ آخر بچے کی خواہش شدت اختیار کرگئی، تو ڈاکٹروں سے رجوع کیا، جنھوں نے میاں بیوی کے ٹیسٹ کروائے، پھر کچھ دوائیں اور انجکشن تجویز کیے۔ طویل علاج معالجے کے بعد کوئی صورت نہ بنی، تو حکیموں اور سنیاسیوں کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔ وہاں سے مایوسی ہوئی تو تعویذ گنڈے والوں کی چوکھٹ پکڑلی۔ طفل تسلیوں میں مزید ایک برس بیت گیا، مگر وقت اور پیسے کے ضیاع کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ پھر کسی کے کہنے پر روحانی علاج کی طرف متوجہ ہوئے۔ ایک بابا جی نے فجر کی نماز کے بعد اسم اعظم کی تسبیح اور مسلسل چالیس روزے رکھنے کی تاکید کی اور وثوق سے کہا کہ انشاء اللہ بانجھ پن کا خاتمہ ہوجائے گا، مگر زرینہ یہ مشقت جھیلنے پر آمادہ نہ ہوئی۔

اب تو خاندان والوں نے بھی باتیں بنانا شروع کردیں۔ کوئی کہتا، لڑکی میں نقص ہے۔ دوسرا بولتا، زاہد کو چاہیے کہ دوسری شادی کرلے، پیچھے کوئی نام لینے والا تو ہو وغیرہ وغیرہ۔ میں نے پہلی بار دیکھا کہ ایک عورت دوسری عورت کے لیے اتنی سنگ دل بھی ہوسکتی ہے۔

زاہد کی محبت اور مرغن غذاؤں نے زرینہ کو فربہ کردیا تھا۔ وہ سارا دن نئی نویلی دلہن کے مانند پلنگ پر پڑی رہتی۔ ملازمہ گھر کی صفائی کرجاتی اور وہ رانی بنی حکم چلاتی۔ زرینہ کے ذمے بس تین وقت کا کھانا پکانا تھا، وہ یہ کام خوشی خوشی انجام دیتی اور بھانت بھانت کے کھانے پکاکر زاہد کا من موہ لیتی، لیکن بچہ نہ ہونے کے باعث آہستہ آہستہ میاں بیوی میں فاصلے بڑھنے لگے۔ زاہد کی زرینہ میں دلچسپی کم ہوتی گئی اور نوبت تو تکار تک آپہنچی۔ اب خاندان والے دونوں کی جدائی کے منتظر تھے کہ دیکھیں کون پہل کرتا ہے۔

زاہد کھویا کھویا سا رہنے لگا۔ دکان پر بیٹھے بیٹھے اپنے آپ سے باتیں کرنے لگتا اور کبھی خوامخواہ گاہکوں سے الجھ پڑتا۔ اسے زرینہ سے کیے ہوئے عہد و پیمان یاد آتے اور کبھی وہ انتہائی قدم اٹھانے کی سوچتا، وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ ایک روز کسی ضروری کام سے اسے باہر چچا کے پاس جانا پڑگیا۔ شدید گرمی اور تیرہ گھنٹوں کی طویل مسافت کے بارے میں سوچ کر اس نے ارادہ ملتوی کرنا چاہا مگر کام کی نوعیت ہی کچھ ایسی تھی کہ اسے جانا ہی پڑا۔

چودھری اقبال زاہد کے سگے چچا تھے ان کا ایک بڑا فارم تھا جہاں وہ کھیتی کرواتے تھے۔ جب زاہد چچا کے ڈیرے پر پہنچا، تو سورج غروب ہونے کو تھا۔ گرد سے اٹے، تھکے ہارے مزدور کھیتوں سے بیلوں سمیت لوٹ رہے تھے۔ چودھری اقبال کے بیلوں کی جوڑی ڈیرے میں داخل ہوئی، تو وہ جوڑی کے بجائے ’جوڑا‘ تھا یعنی ایک بیل اور ایک گائے۔ چودھری صاحب نے نوکر دین محمد سے پوچھا: ’’گائے سے خوب ہل چلوایا ہے کہ نہیں؟‘‘

دین محمد نے کہا: ’’چودھری صاحب! آج تو اسے دو منٹ کے لیے بھی سستانے نہیں دیا اور چارہ بھی بس ایک ہی وقت دیا ہے۔‘‘ چودھری نے اسے شاباش دی۔ بات آئی گئی ہوگئی لیکن زاہد نے دلچسپی اور حیرت سے دونوں کے سوال جواب سنے تھے۔

زاہد نے خیریت وغیرہ دریافت کرنے کے بعد چچا کو اپنے آنے کا مقصد بتایا اور پھر موقع پاتے ہی گائے والا قصہ چھیڑ دیا۔ چودھری اقبال نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور بتایا’’ہم گائے کے ساتھ یہ سلوک اس لیے کررہے ہیں تاکہ اس کی نسل بڑھ سکے۔ یہ گائے زیادہ کھانے اور آزاد پھرنے کی وجہ سے وقت سے پہلے جوان ہوگئی تھی اور جلد ہی ’بول‘ پڑی (بالغ ہوگئی)۔ فطری تقاضا پورا ہونے کے باوجود یہ گابھن نہیں ہوئی، جب یہ دوبارہ بولی، تو اسے پھر اس منزل سے گزارا گیا مگر ناکامی ہوئی۔ اب جی میں آیا کہ اسے قصاب کو بیچ دوں لیکن طبیعت مائل نہ ہوئی۔ آخر کسی نے ایک ٹوٹکا بتایا جو بظاہر تو ظالمانہ اور عجیب سا لگا مگر بڑا کارگر ثابت ہوا۔

چچا کی بات سن کر زاہد کا اشتیاق بڑھ گیا اور وہ یہ ٹوٹکا جاننے کے لیے مصر ہوگیا جس سے گائے کا بانجھ پن ختم ہوگیا تھا۔ چودھری اقبال نے بتایا: ’’ایسا جانور جو بانجھ ہو، سب سے پہلے اس کا موٹاپا ختم کیا جاتا ہے، جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ دن بھر اس سے خوب کام لیا جائے اور چارہ ناپ تول کر کھلایا جائے تاکہ چربی زائل ہو، عام طور پر دو چار ماہ میں اس کا موٹاپا ختم ہوتے ہی وہ زرخیز ہوجاتا ہے، اور الحمدللہ یہ طریقہ کارگر اور آزمودہ ہے۔‘‘

لیکن یہ سب تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ چچانے زاہد سے پوچھا۔

اپنی معلومات میں اضافے کے لیے۔ زاہد نے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا۔

زاہد نے یہ ٹوٹکا ذہن نشین کرلیا اور ضروری کام نمٹا کر لوٹ آیا۔ ایک دن کہیں جانے کے لیے زرینہ نے الماری سے نئے کپڑے نکالے، تو اسے آستینیں چڑھانا مشکل ہوگیا۔ زاہد پاس بیٹھا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ بے اختیار اسے زرینہ موٹی سی گائے لگنے لگی… اسے احساس ہوا کہ زرینہ کے بانجھ پن کاسبب بھی موٹاپا ہی ہے۔ وہ اسی سوچ میں غرق تھا کہ زرینہ نے اٹکھیلی کی، لیکن وہ خاموش رہا اور اس مذاق کا کوئی جواب نہ دیا، جس پر زرینہ کو بڑا تعجب ہوا۔

اگلے روز جب ملازمہ گھر کی صفائی کے لیے آئی، تو زرینہ حسبِ معمول سورہی تھی۔ زاہد نے اٹھ کر دروازہ کھولا اور وہ جھاڑ پونچھ کرنے لگی۔ اچانک صفائی کے دوران ایک قیمتی گلدان اس کے ہاتھ سے گر کرٹوٹ گیا۔ گلدان ٹوٹنے کی دیر تھی زاہد نے پورا گھر سر پر اٹھا لیا۔ شور سن کر زرینہ کی آنکھ کھل گئی۔

’’کل آکر اپنا حساب کرلینا اور آئندہ تمہیں کام پر آنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ زاہد نے شعلہ بار آنکھوں سے کہا۔ ملازمہ بغیر کچھ کہے منہ میں بڑبڑاتی چلی گئی جبکہ زرینہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ آخر جی کڑا کرکے بولی خیریت ہے؟ آج صبح ہی صبح پارہ چڑھا ہوا ہے۔ کسی نے کچھ کہہ دیا جو سویرے سویرے ملازمہ کو ڈانٹ رہے ہو۔‘‘

یہ سنتے ہی زاہد کا دماغ بپھر گیا وہ انٹ شنٹ بکنے لگا۔ زرینہ یک دم سہم گئی کہ زاہد کو کیا ہوگیا ہے، اس نے تو کبھی اونچی آواز تک میں بات نہیں کی تھی۔

زاہد نے زرینہ کو گھورتے ہوئے کہا: ’’محترمہ! یہ نئی نویلی دلہنوں والے لچھن چھوڑو، اب ہماری شادی کو چھ سال بیت چکے ہیں اورتم مسہری سے یوں چپکی بیٹھی ہو جیسے کل ہی یہاں آئی ہو۔ بہت ہوگیا، اب سیدھی طرح پٹری پر آجاؤ ورنہ …‘‘ زرینہ کے لیے یہ باتیں غیر متوقع تھیں۔

وہ ابھی ان نوکیلے نشتروں سے سنبھل نہ پائی تھی کہ زاہد نے ایک اور تیر داغا: ’’تمہاری وجہ سے میری بھی عادتیں بگڑتی جارہی ہیں۔ نہ فجر کی نماز وقت پر نصیب ہوتی ہے نہ صبح کی سیر کے لیے نکلتا ہوں۔ تمہارے ساتھ میں بھی دیر سے اٹھنے کا عادی ہوگیا ہوں۔ جب تمہارے ساتھ رشتے کی بات چل رہی تھی، تو تمہاری تعریفوں میں یہ بات بھی شامل تھی کہ لڑکی صوم و صلوٰۃ کی پابند ہے مگر…

آج سے گھر کے سارے کام تم کروگی، میں نے ملازمہ کو فارغ کردیا ہے۔ پیسے کوئی پیڑوں پر نہیں لگتے کہ ہاتھ بڑھایا اور توڑلیے۔ دن رات محنت کرنی پڑتی ہے۔ میک اپ اور مرغن غذاؤں کے علاوہ تمہارے علاج معالجے پر بے تحاشا خرچ ہوچکا ہے۔ اب یہ فضول خرچیاں بند کرو اور کمر باندھ لو… ہمارے کونسے بال بچے ہیں جو تمہیں دوسرے دھندوں سے فرصت نہیں ملتی۔‘‘ یہ کہہ کر زاہد بغیر ناشتہ کیے کام پر چلا گیا۔

زرینہ کے لیے وہ دن بڑا مایوس کن تھا، وہ بوجھل قدموں سے غسل خانے گئی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر زار وقطار رونے لگی۔ ’’زاہد کو اچانک کیا ہوگیا ہے؟‘‘ اس نے اپنے آپ سے پوچھا … لیکن کوئی نتیجہ اخذ نہ کرسکی اور چپ چاپ پلنگ پر آبیٹھی۔ اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس ادھیڑ بن میں غلطاں وہ مسہری ہی کی ہورہی۔

زاہد دوپہر کا کھانا کھانے آیا، تو زرینہ اپنے کمرے ہی میں تھی۔ اس کا بھوک کے مارے برا حال ہورہا تھا۔ باورچی خانے کا چکر لگایا مگر چولہا ٹھنڈا دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی۔ اسے بے اختیار زرینہ پر غصہ آیا، وہ الٹے پاؤں اپنی خواب گاہ کی طرف پلٹا تاکہ بیگم کی خبر لے۔

زرینہ اوندھے منہ مسہری پر پڑی سسکیاں لے رہی تھی، اسے خبر نہ ہوئی کہ زاہد کمرے میں کھڑا ہے۔ زاہد کچھ دیر یونہی ساکت کھڑا رہا، پھر کچھ سوچ کر دبے پاؤں واپس لوٹ گیا۔ یہ شادی کے بعد پہلی تلخ رات تھی جو بے قراری میں گزری، دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہ کی۔

دوسرے دن زاہد نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت زرینہ کو بتایا کہ وہ دوسری شادی کررہا ہے اور اس نے لڑکی بھی دیکھ لی ہے۔ یہ سنتے ہی زرینہ کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی اور اسے یہ احساس کچوکے دینے لگا کہ اس نے شوہر کا کہنا نہ مان کر بہت بھیانک غلطی کی ہے۔ وہ سوتن کی معیت میں زندگی گزارنے کے لیے قطعی آمادہ نہ تھی۔ لہٰذا دوسری شادی کی دھمکی نے اس کی آنکھیں کھول دیں اور اس نے دل ہی دل میں ایک مصمم ارادہ کرلیا۔

اگلے دن کے سورج نے نیا منظر دیکھا۔ زرینہ منہ اندھیرے جاگ اٹھی۔نماز فجر ادا کرنے کے بعد رسوئی گئی۔ کھٹ پٹ کی آواز سے زاہد بھی اٹھ گیا اور آج فجر کی نماز مل گئی۔ ادھر زرینہ نے جھاڑ پونچھ کر، چولہا جلایا اور آٹا گوندھ کر رکھ دیا۔ چھوٹے موٹے کاموں سے فارغ ہوکر گرما گرم چپاتیاں پکائیں۔ فریج میںپڑا سالن نکال کر گرم کیا۔تب تک زاہد بھی نہا دھوکر کھانے کاانتظار کرنے لگا۔ زرینہ بڑے سلیقے سے ٹرے میں کھانا چن کرلے آئی اور دونوں نے اکٹھے کھانا کھایا۔

’’دوپہر کو کیا پکانا ہے؟‘‘ زاہد زرینہ سے مخاطب ہوا۔

’’جو آپ کہیں۔‘‘ زرینہ بولی۔

’’میرا خیال ہے آج کوئی سبزی پکالیتے ہیں، گوشت اور تلی ہوئی چیزیں کھا کھا کر جی اکتا گیا ہے۔ کیا خیال ہے؟‘‘ زاہد نے زرینہ سے پوچھا۔

’’ٹھیک ہے، کوئی سبزی لے آئیے۔‘‘

زاہد سبزی دے کر چلا گیا۔ دوپہر کھانے کے وقت لوٹا، تو گرما گرم کھانا تیار تھا۔ دھیرے دھیرے معاملات خود بخود سدھرتے چلے گئے۔ میاں بیوی نماز فجر کے بعد سیر کرنے جاتے۔ واپسی پر زرینہ گھر کے کاموں میں مشغول ہوجاتی۔ باورچی خانے کا کام کرتی، فرش دھوتی، برآمدے میں پڑے گملوں سے گھاس صاف کرتی۔ میاں کے کپڑے دھوتی، برتن مانجھتی، غرض یہ کہ گھر کا ہر چھوٹا موٹا کام وہ اپنے ہاتھوں سے کرتی۔ اس نے آہستہ آہستہ خود کو حالات کے مطابق ڈھال لیا اور روکھی سوکھی پر قناعت کرنے لگی۔ گوشت کے بجائے سبزیاں اسے بھانے لگیں۔

زرینہ یک لخت اپنے آپ کو اتنا بدل لے گی، کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا اور یہی تبدیلی اس کا گھر ہرا بھرا کرنے کا موجب بن گئی۔ زاہد خوش تھا کہ ایک نادر ترکیب نے بڑی خوش اسلوبی سے اس کی موٹی تھل تھل بیوی کو چاق و چوبند عورت میں تبدیل کردیا۔

’’آج ڈاکٹر سے معائنہ کروانے جانا ہے۔ شام پانچ بجے تیار رہنا۔‘‘ زاہد نے دکان پر جانے سے پہلے زرینہ سے کہا۔ جی اچھا کہہ کر زرینہ گھر کے کاموںمیں جت گئی اور ٹھیک ساڑھے چار بجے تیار ہوکر زاہد کا انتظار کرنے لگی۔

لیڈی ڈاکٹر نے جب وزن کرنے کی مشین پر زرینہ کو کھڑا کیا، توحیرت کے مارے اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ پچھلی رپورٹ کے حساب سے زرینہ کا وزن دس پونڈ کم تھا۔ ڈاکٹر نے حیرت سے پوچھا کہ اس نے یہ کارنامہ کیسے سرانجام دیا؟ اس سے پہلے کہ زرینہ لب کشائی کرتی،زاہد نے جواب دیا: ’’سادہ خوراک اور روز مرہ کے گھریلو کام کاج کی برکات سے…‘‘

لیڈی ڈاکٹر نے بھی اس بات کی تائید کی اور کہا’’آج کل کی بہت سی خواتین موٹاپے اور کاہلی کا شکار ہیں جس سے مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں اور بانجھ پن بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اگر آپ مستقل مزاجی سے اسی طرح کاربند رہیں، تو انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب آپ کی گود ہری ہوگی۔‘‘

ڈاکٹر کی یہ بات سونے پر سہاگے کا کام کرگئی اور زرینہ پہلے سے زیادہ تندہی سے کاموں میں جت گئی۔ سارے دن کی مصروفیت کے بعد وہ تھک کر چور ہوجاتی، مگر بستر پر لیٹتی، تو عجیب سی طمانیت محسوس کرتی۔ آہستہ آہستہ زاہد کے رویے میں نرمی آگئی اور زندگی کی روٹھی ہوئی رعنائیاں پھر سے لوٹ آئیں۔

ایک روز اچانک زرینہ کی طبیعت خراب ہوگئی۔ اس قدر شدید متلی اسے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی۔ جب ڈاکٹر نے معائنہ کیا، تو یہ عقدہ کھلا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ زاہد کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ جب وہ پہلے بچے کا باپ بنا تو چچا اقبال کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنا نہیں بھولا… زرینہ اب چار بچوں کی ماں ہے اور خوش و خرم زندگی بسر کررہی ہے۔

(ماخوذ: اردو ڈائجسٹ)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں