لدھیانہ کا رکھ باغ کسی زمانہ میں نہایت ہی مشہور جگہ تھی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے رکھ باغ کیوں کہا جاتا تھا۔ اس میں پارکوں کی نسبت سڑکیں زیادہ تھیں۔ بمشکل تمام ایک دو پارک تھے جو زیادہ بڑے تو نہ تھے مگر آتے جاتے مسافر ان میں آرام سے سستا سکتے تھے۔ ہاں یہاں پر درخت بہت تھے۔ ایک طرف تو لیچی اور آم کے کچھ درخت تھے اور دوسری طرف سوئمنگ پول تھا۔ ایک شارع عام بھی تھا جس کے دوسری طرف ستلج کلب تھی۔ کلب ہی ایسی جگہ تھی جہاں رات کو دیر تک رونق رہتی تھی۔ ایک کھلے لان میں چھت کے پنکھے لگے ہوئے تھے جن کے نیچے بیٹھ کر ممبر گھنٹوں تاش کھیلا کرتے تھے۔ سیر کرنے کے لیے یہ باغ نہایت موزوں تھا۔ دوپہر ڈھلتے ہی لوگ جوق در جوق وہاں ٹہلنے آتے تھے۔
ایسے لوگوں کے علاوہ کچھ لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے گھروں کے شور وغل سے بچ کر یہاں پڑھنے کے لیے بھی آتے تھے۔ میں بھی جب بی اے (آنرز) کی تیاری کررہا تھا تو یہیں پڑھنے کے لیے آتا تھا، میری طرح کچھ اور لوگ بھی اس مطلب سے وہاں آتے تھے اور اکثر ملنے جلنے کی وجہ سے ان لوگوں سے دوستی کا رابطہ پیدا ہوگیا تھا۔کتنے مزے دار تھے وہ دن لڑکپن کے! اب تو یادیں ہی رہ گئی ہیں۔ محض یادیں!
ایک دن میں حسب معمول بعد دوپہر رکھ باغ میں لیچی کے درختوں کے نیچے ایک چھوٹی سے دری پر بیٹھا شیکسپئر کے ایک ڈرامے پر تبصرہ پڑھ رہا تھا۔ موسم بہت اچھا تھا۔ ہوا کے جھونکے مجھے سوجانے کی دعوت دے رہے تھے مگر میں اپنی دھن کا پکا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کتاب کے اوراق نہایت تیزی سے پلٹ رہا تھا کیونکہ اس زمانے میں میری پڑھنے کی رفتار بہت تیز تھی۔
اسی اثنا میں ایک پیر عمر رسیدہ وہاں آگیا۔ سفر سے کافی تھکا ہوا اور گرمی کا ستایا ہوا نظر آرہا تھا۔ باغ کی ٹھنڈی ہوا سے اس کے چہرے کی مردنی ختم ہوگئی اور وہ آرام کرنے کے لیے گھاس پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد نیند نے اسے آلیا۔ اس نے لاپراوہی سے باندھی ہوئی بوسیدہ سی پگڑی اتاری اور اس کو تکیہ بنا کر لیٹ گیا۔ لیٹتے ہی اس کو نیند آگئی اور وہ جلد ہی لمبے لمبے خراٹے لینے لگا۔ میرے دوست کہتے ہیں کہ میں سوتے ہوئے بہت زور دار خراٹے لیتا ہوں اور جہاں میں سو رہا ہوں وہاں کوئی دوسرا اپنی سدھ بدھ کھوئے بغیر نہیں سوسکتا۔ میں اس بارے میں کوئی رائے نہیں دے سکتا کیونکہ میں نے اپنے خراٹے تو سنے نہیں۔ مگر یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس بزرگوار کے خراٹے کسی ہوائی جہاز کی گونج سے کم نہیں تھے۔ اس سے پہلے کہ میری پڑھائی اس کے خراٹوں میں غرق ہوجاتی میں دس بیس فٹ دور جاکر بیٹھ گیا۔
اس دن وہ پیر عمر رسیدہ خوب جم کر سوئے اور میں نے بھی جم کر پڑھا کیونکہ اس دن میرا دوست ہرگولال بھی نہیں آیا تھا جس سے پڑھائی کے درمیان تھوڑی سی گپ شپ ہوجاتی تھی۔ میں نے اپنی پرانی مگر سچائی سے وقت دکھانے والی گھڑی کی طرف نگاہ ڈالی تو پتہ چلا کہ شام کے ساڑھے چار بج چکے تھے۔ پانچ بجے کے قریب میں ایک کھوکھے سے جو زیادہ دور نہیں تھا، ایک پیالی چائے پینے جایا کرتا تھا۔ اس چائے میں بھی ایک عجیب نشہ تھا جس کا احساس میں آج بھی آسانی سے کرسکتا ہوں۔ میں نے اپنی کتابیں ایک بیگ میں ڈالیں۔ دری جھاڑکر تہ کی اور جانے کے لیے تیار ہوگیا۔
اچانک میں نے دیکھا کہ وہ بزرگ آدمی ایک انوکھی ورزش کررہا تھا۔ وہ اپنی سونے والی جگہ سے تھوڑی دور جاتا اور پھر زمین پر آنکھیں گاڑے آگے بڑھتا جاتا اور تقریباً اس جگہ جاکر رک جاتا جہاں اس نے پگڑی رکھی تھی۔ پھر وہ وہاں بیٹھ جاتا اور اپنے ہاتھوں سے دائیں بائیں طرف گھاس کو ٹٹولتا۔ اس کے بعد وہ پھر اٹھ کھڑا ہوتا اور پہلے کی طرح کچھ دور جاکر پگڑی والی جگہ کو گھور کر دیکھتا اور پھر آگے بڑھ کر اس جگہ بیٹھ جاتا اور پہلے والی کارروائی دہراتا۔ ایسا اس نے بارہا کیا۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ کنچے کھیل رہا ہو۔ مگر وہاں کنچے نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
جب اس نے یہ فعل دس بارہ بار کیا تو میں بیتاب سا ہوگیا اور جھٹ سے بول اٹھا۔ ’’بڑے میاں آپ یہ کون سا کھیل کھیل رہے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘ وہ جھنجھلا کر بولا: ’’بیٹا! یہ تیری سمجھ میں آئے گا بھی نہیں۔ تم اسے تب کھیلو گے جب میری عمر کے ہوجاؤ گے۔‘‘
میں بول اٹھا: ’’بابا! میری سمجھ میں آپ کی بات اب بھی نہیں آئی۔ بھلا اس سے عمر کا کیا تعلق ہے؟‘‘
وہ پھر بولا: ’’بیٹا! بڑھاپے کی وجہ سے میری نظر کمزور ہوگئی ہے۔ میں دور سے دیکھ سکتا ہوں لیکن پاس سے نہیں۔ تم نے ایسی تکلیف کے بارے میں کتابوں میں ضرور پڑھا ہوگا۔ جب میں لیٹنے لگا تھا تو میں نے اپنا چشمہ اتار کر سر کے پاس ایک طرف رکھ دیا تھا۔ بدقسمتی سے اٹھنے سے پہلے میں وہ چشمہ لگانا بھول گیا۔ اب وہ چشمہ میرے ہاتھ میں نہیں آرہا۔ جب میں تھوڑی دور جاکر دیکھتا ہوں تو چشمہ مجھے نظر آتا ہے اور میں چشمہ سے فاصلہ کا اندازہ لگاکر آگے بڑھتا ہوں اور جب میں اس کے پاس پہنچتا ہوں تو وہ غائب ہوجاتا ہے اور مجھے نظر نہیں آتا کیونکہ نزدیک کی چیزیں بغیر چشمہ کے مجھے نظر نہیں آتیں۔ اسی لیے میں اسی ادھیڑ بن میں لگا ہوا ہوں۔ دور سے چشمہ نظر آتا ہے مگر پاس پہنچنے پر نظر نہیں آتا۔ بڑھاپے کی یہی ستم ظریفی ہے۔میں نے نظر دوڑائی اور چشمہ مجھے نظر آگیا۔ میں نے لپک کر اسے اٹھا لیا اور بوڑے میاں کو پیش کرتے ہوئے کہا: ’’لیجئے اپنا چشمہ!‘‘بڑے میاں کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ایسا لگتا تھا جیسے اس کی آگے پیچھے جانے کی اور اٹھنے بیٹھنے کی تھکان یک دم دور ہوگئی ہو۔ اس نے تہ دل سے مجھے دعائیں دیں اور اپنی راہ لی۔ہائے بڑھاپے کی ستم ظریفی!