’’تم اب تک تیار نہیں ہوئیں وہ لوگ آتے ہی ہوں گے۔‘‘ بیگم رئیس نے ردا کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔’’اور ہاں بیٹی سنا ہے لڑکے کی بڑی بھابی بھی دیکھنے آرہی ہے۔ ہاں! اور وہ نومسلم ہے۔ یاد رکھنا ان کے سامنے زیادہ انگریزی جملے ادا کرنا کوئی بھی سوال کرنے پر جواب اچھے انداز میں دینا اور اچھے ماڈرن کپڑے پہن کر آنا۔‘‘
ردا آج بہت خوش تھی اس کی خواہش پایۂ تکمیل کو پہنچنے والی تھی وہ ریحان کو دل وجان سے چاہتی تھی۔ ریحان بچپن سے ہی اسے پسند تھا اور وہ گذشتہ سال بزنس کے سلسلے میں اپنے بڑے بھائی دانش کے ساتھ لندن چلا گیا تھا۔ ان کے والدین بزنس کے سلسلے میں امریکہ جا بسے تھے۔ والدین کی سرپرستی انھیں میسر نہیں تھی۔ اس لیے دانش نے اپنی پسند سے ایک انگریز غیر مسلم لڑکی سے شادی کرلی تھی۔ دونوں بھائیوں کی عمر اس موڑ پر تھی جہاں حسین خواب دیکھنا اور اپنی پسند و آئندہ زندگی کے منصوبہ بنانا ہر آدمی کو اچھا لگتا ہے۔
آخر وہ وقت آہی گیا جس کا بیگم رئیس کو بے صبری سے انتظار تھا۔ ریحان اپنی بھابی سارہ (جو اسلام قبول کرچکی تھی) اور بھائی دانش کے ساتھ رئیس خان صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ ریحان ایک شرمیلا اور فرمانبردار لڑکا تھا اور اپنے بھیا و بھابی کی بہت عزت کرتا تھا اور ان کا ہر حکم بجا لاتا تھا۔ اس لیے سب کچھ اپنی بھابی کی پسند پر چھوڑ دیا تھا۔
وہ پڑھا لکھا نوجوان تھا۔ اس نے ایم اے میں گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ کئی لڑکیاں کالج میں اس پر فریفتہ تھیں۔ لیکن کوئی بھی ایک انچ راہ سے نہ ہٹا سکی۔ کئی لڑکیاں اس کی مردانہ وجاہت اور پرکشش شخصیت پر مری پڑتی تھیں لیکن اس نے کسی کو بھی قریب نہ آنے دیا۔ اس کی نظر میں اس قسم کا سطحی عشق و محبت بے کار کی چیزیں تھیں۔ کالجس میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کے اختلاط سے پنپنے والے تعلقات سے تو اسے نفرت تھی۔ وہ کہتا تھا کہ یہ پیار، محبت، عشق صرف دنیا وآخرت کی تباہی کا ذریعہ ہیں۔
ریحان، دانش اور سارہ کے گھر پہنچتے ہی رئیس خانصاحب اور بیگم رئیس نے ان کی خوب خاطر تواضع کی۔ مختلف اقسام کے کھانے پیش کیے، بہت سی مٹھائیاں پیش کی گئیں اس دوران بیگم رئیس نے ردا کی تعریف میں خوب خوب قصیدے پڑھے۔ ہماری لڑکی نے بی اے، انگریزی لٹریچر میں پوری یونیورسٹی ٹاپ کی، انگریزی زبان تو وہ کیا فراٹے سے بولتی ہے۔ اس پر تو اسے عبور حاصل ہے۔ کالج کے تین سال تک اس کا کوئی مد مقابل نہیں تھا۔ اس کو یونیورسٹی ٹاپ کرنے پر گولڈ میڈل سے نوازا گیا ہے۔ ہم نے اپنی لڑکی کو وہ سب تعلیم دی جو کہ ماں باپ کا فریضہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
تھوڑی دیر بعد لڑکی کو دکھانے کا وقت آگیا۔ ردا کو بلایا گیا۔ ’’ارے آؤ بیٹی یہاں آؤ ہمارے پاس۔‘‘ سارہ نے نہایت ہی فصیح اور صاف الفاظ میں کہا۔
ردا پاس آئی اور سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔ ساتھ میں بیگم رئیس اور رئیس خان صاحب بھی تھے۔ ردا کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس کے دل میں خوشی اور پریشانی دونوں کا امتزاج تھا یہ وہ وقت تھا جس کا اسے برسوں سے انتظار تھا۔
سارہ نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا ’’دیکھئے چاچی جان ہماری چند شرطیں ہیں۔‘‘
بیگم رئیس اور خان صاحب سمجھ گئے کہ جہیز وغیرہ کی شرطیں ہوں گی۔ وہ دونوں فوراً بول پڑے ’’ہاں کہئے جو کچھ شرطیں ہیں۔ ہمیں سب کچھ منظور ہیں اور ہم جہیز میں کچھ بھی دینے کے لیے تیار ہیں کہ ساری دنیا دیکھتی رہ جائے۔‘‘
سارہ نے کہا: ’’جی! لیکن اللہ تعالیٰ کا ہم پر بہت رحم و کرم ہے ہمارے پاس وہ سب کچھ ہے۔ ہمیں جہیز میں آپ کی دولت نہیں چاہیے صرف تین سوالات کے جوابات لینے ہیں۔ اگر آپ کی بیٹی نے جوابات دے دئے تو اسے بطور کروڑوں کا جہیز تصور کریں گے۔‘‘
بیگم رئیس دل ہی دل میں بہت خوش ہوئیں کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے ہماری لڑکی میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ہم نے اسے دنیا بھر کی تعلیم سے آراستہ کیا ہے۔ کچھ بھی پوچھئے جواب مل جائے گا۔
ردا کے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ رہے تھے وہ سوچ رہی تھی کہ وہ ان سے تو یونہی نمٹ لے گی۔ تھوڑی دیر بعد سارہ نے پہلا سوال کیا ’’ہماری سب سے پہلی ام المومنین کا نام کیا تھا؟‘‘ سوال سنتے ہی ردا کے پاؤں تلے کی زمین کھسک گئی۔ اس کا جسم کانپنے لگا۔ اس کے لب تھر تھرانے لگے۔ یہ کیسا سوال ہے۔ اس کا جواب تو میں بالکل نہیں جانتی۔ ’’کیا بات ہے بیٹی؟ کیا ہوا؟ تم کچھ کیوں نہیں کہتیں؟‘‘
جی وہ …… جی وہ …… میں …
خیر دوسراسوال بتاؤ کہ اسلام کے لیے سب سے پہلے شہید ہونے والی خاتون کون تھیں؟
ردا کی کپکپاہٹ اور گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کا سر چکرا رہا تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لیں، سارہ نے بیگم رئیس کی طرف دیکھا وہ مارے غیرت کے نظریں نیچی کیے ہوئے تھے ان کا سر شرم سے جھُک گیا۔
سارہ نے تیسرا سوال کیا اچھا خیر بیٹی یہ بتاؤ کہ اسلام کے بنیادی ارکان کون کون سے ہیں؟
جی وہ … جی وہ … نہ … نہ … نہیں معلوم۔ اور بیگم رئیس اور خانصاحب حالتِ افسردگی میں مہمانوں کے سامنے نادم کھڑے تھے۔ ہر طرف خاموشی طاری تھی۔
سارہ نے خاموشی کو توڑا اور کہا کہ ٹھیک ہے ہم کل جواب دیں گے۔ دوسرے دن خانصاحب کو ایک خط موصول ہوا اس پر تحریر تھا:
محترم و مکرم رئیس خاں صاحب! السلام علیکم و رحمۃاللہ
کل ہم لوگ آپ کی بیٹی سے رشتہ کے سلسلہ میں آپ کے دولت خانے پر حاضر ہوئے تھے۔ آپ کی جانب سے ملنے والے عزت و احترام اور مہمان نوازی پر ہم تہہ دل سے شکر گزار ہیں۔ صاحبزادی اپنے ظاہری حسن اور تعلیم و ثقافت کے اعتبار سے قابل تعریف ہے۔ اولاد کی عصری تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں مگر ہم اس تعلیم کی تلاش میں تھے جو اس دنیا کے بعد کی زندگی کو سنوارنے والی ہو۔ ہمیں افسوس ہے کہ دینی معلومات کے سلسلے میں صاحبزادی بالکل صاف ہیں۔ ہمارے نزدیک سب سے قیمتی جہیز لڑکی کی دینی و اخلاقی تعلیم و تربیت ہے۔
والسلام
آپ کا بھائی