[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

انٹرنیٹ کے توسط سے فرانسیسی خاتون کا قبولِ اسلام

ماخوذ

انٹرنیٹ نے پوری دنیا کوایک گاؤں میں تبدیل کردیا ہے۔ عصرِ حاضر میں یہ معلومات کے حصول اور دعوت کا ایک بہترین ذریعہ بن چکا ہے۔ میلا راون ایک فرانسیسی نژاد خاتون ہیں۔ ان کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے، جنھوں نے انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام کا مطالعہ کیا، دوسرے مذاہب کے ساتھ اس کا موازنہ کیا اور پھر سچائی کو پالیا۔ میلا راون ۱۹۷۴ء میں پیدا ہوئیں۔ کینیڈا میں تعلیم حاصل کی اور اب مراکش میں مقیم ہیں۔ انھوں نے چار سال پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ حال ہی میں ان کاانٹرویو ریاض سے شائع ہونے والے انگریزی رسالے ’’دعوۃ‘‘ میں شائع ہوا ہے۔ جس کو اردو کے قالب میں ڈھال کر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

سوال: آپ کی انٹرنیٹ کے ذریعے اسلام تک رسائی کیسے ہوئی؟

جواب: دراصل میں اسلام میں خواتین کو دیے گئے حقوق کے متعلق جاننا چاہتی تھی کیونکہ یہ موضوع اکثرو بیشتر مغربی میڈیا میں زیرِ بحث آتا تھا۔ چنانچہ میں نے اسلام، عیسائیت اور یہودیت میں خواتین کو دیے گئے حقوق کا تقابل کرنا شروع کردیا۔ جب میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا تو میں حیران رہ گئی کہ اسلام نے دیگر تمام مذاہب سے زیادہ خواتین کو حقوق فراہم کیے ہیں۔ حالانکہ پہلے میں میڈیا میں زیرِ بحث چیزوں کو درست مانتی تھی کہ اسلام خواتین کے حقوق سلب کرتا ہے۔ بہرحال اب یہ غلط فہمی دور ہوئی تو میں نے اسلام کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کرنے کی ٹھان لی۔ اس وقت میں بھی اسلام کے بارے میں کوئی مثبت تاثر نہیں رکھتی تھی، چنانچہ میں اسلام کی غیر معقول باتوں کو کھوجنے لگی۔ لیکن میری تمام کوششیں ناکام ہوگئیں۔ مجھے پتہ چلا کہ اسلام میں پورے کا پورا داخل ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مجھے انٹرنیٹ پر ایسی ویب سائٹس مل گئیں جو مجھے اسلام کے بارے میں درست معلومات فراہم کرسکتی تھیں۔ میں جانتی ہوں کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنھوں نے میری طرح اسلام قبول کیا ہے۔

سوال: آپ کی انٹرنیٹ پر جو سائٹ ہے، اس کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟

جواب: میں نے اپنی مشکلات کو اپنی سائٹ پر ظاہر نہیں کیا۔ تاہم ان پر میں اب گفتگو کرسکتی ہوں۔ جب میں مراکش میں تھی تو حالات خاصے دشوار تھے۔ کیونکہ مراکش میں آنے سے پہلے میرا مسلمانوں کے ساتھ ملنے جلنے اور رہنے کا تجربہ نہیں تھا۔ میں نے محض کتابوں کی بنیاد پر ہی اسلام کے متعلق معلومات حاصل کی تھیں۔ لیکن جب میں مراکش آئی تو مجھے فرانس سے بالکل مختلف طرزِ زندگی ملا۔

اسی طرح میں نے اپنی ویب سائٹ پر مستقبل کے حوالے سے اپنے ارادوں اور عزائم کو ظاہر نہیں کیا۔ میں سب سے پہلے عربی زبان سیکھنا چاہتی ہوں۔ میں اسلام کے راستے پر چلی ہوں تو ابھی یہ میرا آغاز ہے۔ مجھے ایک لمبا راستہ طے کرنا ہے۔ مجھے اسلام کے متعلق بہت کچھ سیکھنا ہے۔ بہت سے لوگ مجھے اجتماعات میں بلاتے ہیں اور وہاں میرا لیکچر سننا چاہتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ میں معلومات کے بغیر لیکچر نہیں دے سکتی۔ میںانٹرنیٹ پر ایک فرانسیسی جریدے کے لیے کام کرتی ہوں۔ اب میں کمپیوٹر کے ذریعے اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں۔ کام کرنے کے لیے میرے ذہن میں ایک خاکہ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میں عورتوں اور بچوں کے لیے کچھ کام کروں۔ بہرحال میں نے ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ میرے ذہن میں اتنے خاکے ہیں کہ میں سوچ رہی ہوں کہ بیک وقت یہ سارے کام کیسے کروں؟

سوال: آپ کا نام میلا راون ہے۔ آپ فرانسیسی یہودی ہیں یا عیسائی؟

جواب: نہیں، میں یہودی نہیں ہوں۔ بعض اوقات یہودی میری ویب سائٹ کا دورہ کرتے ہیں اور مجھے خطوط ارسال کرتے ہیں۔ میرے نام کو دیکھ کر وہ سمجھتے ہیں کہ میں بھی یہودی ہوں اور پھر وہ مجھے یہودیت کی طرف واپسی کی ترغیب دینے لگتے ہیں۔ میں واضح کرتی ہوں کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے میں عیسائی تھی، یہودی نہیں تھی۔ اب بھی مجھے روزانہ یہودیوں کے درجنوں خطوط موصول ہوتے ہیں اور مجھے کہا جاتا ہے کہ یہودیت کی طرف واپس چلی جاؤں۔ اب میں ایک مسلمان ہوں اور ایک مسلمان ہونے پر مجھے فخر ہے۔

سوال: جب آپ نے اسلام قبول کیا تو آپ کے کیا احساسات و جذبات تھے؟ کیا اسلام کے حوالے سے ساری معلومات آپ نے انٹرنیٹ ہی سے حاصل کی تھیں؟

جواب: میں نے اسلام قبول کیا تو اس وقت میں نے اپنے اندر سکون اور وقار محسوس کیا۔ البتہ میں مستقبل کے حوالے سے کچھ خوفزدہ بھی تھی۔ کیونکہ میرے خاندان میں کوئی بھی مسلمان نہیں تھا۔ شروع میں میرے گھر والوں نے میرے فیصلے کو قبول کرلیا لیکن جب میں نے حجاب کا اہتمام شروع کیا تو میرے والد صاحب سمیت دیگر کئی افرادِ خانہ نے مجھ تعلقات منقطع کرلیے۔ بہرحال میں اللہ کی ذات پر ایمان رکھتی تھی اور مجھے اسلام کی حقانیت پر پختہ یقین اور اللہ پر توکل تھا، اس لیے جلد ہی میں نے اس خوف سے نجات حاصل کرلی۔ جہاں تک انٹرنیٹ کا تعلق ہے تو میں نے چارسال پہلے اسلام کے حوالے سے اپنی تحقیق شروع کی تھی۔ اس وقت زیادہ اسلامی سائٹس نہیں تھیں۔ آج بہت سی اسلامی ویب سائٹس ہیں جو اسلام سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن ان میں سے بعض ضروریات کے مطابق ڈیزائن نہیں کی گئیں۔ البتہ یہ اس قدر بہتر ضرور ہیں کہ کوئی بھی شخص جو حق کا متلاشی ہو، ان کی مدد سے بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ یاد رہے کہ میں صرف انگریزی ویب سائٹس کی بات کررہی ہوں۔ عربی ویب سائٹس کے حوالے سے میری معلومات کچھ بھی نہیں ہیں۔ جہاں تک فرنچ ویب سائٹس کا تعلق ہے تو ان میں بھی بہتری اور بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ چند ایک اچھی ویب سائٹس بھی ہیں تاہم زیادہ تر ویب سائٹس سرسری سی معلومات ہی فراہم کرتی ہیں۔

سوال: کچھ اپنی زندگی کے بارے میں بتائیں؟

جواب: میں ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ تعلیم و تفریح کے حوالے سے ہر چیز مہیا تھی۔ میں اپنے دادا اور دادی کی آنکھوں کا تارا تھی۔ وہ میری ہر خواہش پوری کرتے تھے، لیکن دادا کے انتقال کے بعد عیسائیت کے حوالے سے از خود کچھ سوالات میرے ذہن میں امنڈنے لگے۔ عیسائیت کی بہت سی غیر معقول چیزوں کو میں قبول کرنے کو تیار نہیں تھی۔ حالانکہ میں عیسائیت کا خاصا احترام کرتی تھی لیکن اب یہ احترام آہستہ آہستہ اٹھتا جارہا تھا۔ میں اسے ایک درست مذہب کا درجہ دینے سے ہچکچارہی تھی۔ پھر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے کینیڈا چلی گئی۔ میں نے وہاں اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے کے حوالے سے تحقیق کی۔ جب میں کینیڈا روانہ ہورہی تھی تو میں سمجھ رہی تھی کہ میں زیادہ وسیع الذہن ہورہی ہوں۔ دراصل ایک فرد جب اپنا وطن چھوڑتا ہے اور دوسرے ملک میں جاتا ہے تو اسے مختلف قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہاں میں نے کچھ موضوعات پر تحقیق شروع کی تو میں نے محسوس کیا کہ مجھے صرف میڈیا پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس لیے میں نے اسلام میں عورت کے مقام و مرتبے پر میڈیا رپورٹس سے ہٹ کر ریسرچ شروع کردی۔ یوں میرا اسلام سے متعلق مطالعہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ جب میں نے اسلام قبول کیا تو اس وقت میں کینیڈا ہی میں تھی لیکن چند ہفتے میں فرانس پلٹ آئی۔ کیونکہ کینیڈا میں میری تعلیم کا سلسلہ مکمل ہوگیا تھا۔ فرانس واپسی پر میں نے محسوس کیا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتی کیونکہ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ میں یہا ںرہ کر حجاب کا اہتمام نہیں کرسکوں گی یا پھر حجاب کے ساتھ یہاں کام نہیں کرسکوں گی۔ یوں میں فرانس کو خیر باد کہہ کر مراکش چلی آئی۔ میں نے مراکش کا انتخاب اس لیے کیا تھا کہ یہا ںمیری بہت سی مسلمان سہیلیاں رہتی تھیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد فرنچ زبان بھی بولتی ہے۔ یوں مجھے کم پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

سوال: غیر مسلموں کے سامنے کس طرح بہترین انداز میں دعوت پیش کی جاسکتی ہے؟

جواب: دراصل لوگوں کو اسلام کے حوالے سے مطمئن کرنے کا کوئی ایک یا خاص طریقہ نہیں ہے۔ ہر انسان کی فطرت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ زندگی کے بارے میں ہر فرد کا تصور اور نظریہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ لوگ مختلف چیزوں کو اپنے اپنے انداز سے سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ سائنٹفک انداز سے معاملات کو پرکھتے ہیں۔ کچھ لوگ جذباتی ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عمل اور کردار سے متاثر ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ لوگوں کو دعوت دینے سے پہلے ان کو سمجھنا یا جاننا چاہیے۔ اسلام کے حوالے سے بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ جو عقل کو اپیل کرتی ہیں۔ لیکن ہر چیز کسی کو اپیل نہیں کرتی یا ہر کسی پر فوری طور پر اثر نہیں ہوتا۔

بعض لوگ اسلام کے تصورِ توحید سے متاثرہوتے ہیں، بعض اسلام میں عورتوں کے مقام و مرتبہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اسلام کے سماجی اور معاشرتی نظام سے متاثر ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کو اسلام کا اخلاقی نظام زیادہ پرکشش لگتا ہے، اس لیے ہمیں اس بات پر دھیان دینا چاہیے کہ ہم لوگوں کے سامنے اسلام کا تعارف کیسے پیش کریں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں