انھوں نے ہمیں ناکام کردیا

راجیو دیسائی

سیاسی طبقہ ایک پبلک سیکٹر کی طرح ہے جو کہ جدید اداروں کو نوکر شاہی کے انداز میں چلانا چاہتا ہے۔ سیاست داں، بیوروکریٹس اور ان کے لوگ قومی سیاست کو کمانڈ اور کنٹرول کے ان طریقوں کو استعمال کرکے چلانا چاہتے ہیں جو کہ استعماری دور کے لیے زیادہ مناسب تھے۔
یہ تضاد ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے ذریعے سامنے آگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید ترین قومی ریاست ایسے حملوں کا اندیشہ نہیں کرتی تھیں بہرحال اس کے حل کی شاہ کلید وہ ردعمل ہے جو ہم نے ظاہر کیا۔امریکہ اور دیگر یوروپی ملکوں اور حکمرانوں نے ان کے شہروں پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کا فوری ردعمل ظاہر کیا یہ الگ بات ہے کہ وہ صحیح تھے یا غلط۔
یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ میں 9/11 کے بعد کوئی معمولی سا واقعہ بھی پیش نہیں آیا، اس کا موازنہ ہندوستانی حکام کے غیر مربوط اور متذبذب ردِ عمل سے کیجیے۔ برمحل معقول انداز کم از کم انسانی جانوں کی ہلاکت تو کم کرہی سکتا تھا۔ کمانڈوز کو موقع واردات پر آنے میں تقریباً دس گھنٹے لگ گئے، اس پر مزید یہ کہ پولیس ایک مرتبہ پھر اپنے معمولی ذمے داری والے علاقے کو گھیرے رکھنے میںناکام ثابت ہوئی اس کے برخلاف متجسس تماش بینوں، ٹی وی چینلوں اور رپورٹروں کی بھیڑ وہاں تھی۔ مزید یہ کہ ’’بریکنگ نیوز‘‘ دینے کے ٹی وی رپورٹرس کے شوق نے خبروں کے کوریج کے ذریعے منفی اثر ڈالا خاص طور پر دہشت گردوں اور کمانڈو کارروائی کے طریقہ کار سے متعلق خبریں بہم پہنچانے کے معاملے میں کہ یہ انہیں معلومات فراہم کرتے رہے۔ مختلف ترجمانوں نے میڈیا کو پولیس کے منصوبے، حکومت کی حکمتِ عملی اور کمانڈو کارروائی کے بارے میں غیر شعوری طور پر اہم اطلاعات فراہم کیں۔
یہ بات صاف تھی کہ کوئی بھی انچارچ نہیں تھا۔ نہ مرکزی وزیر داخلہ نہ ریاست کے وزیرِ اعلیٰ نہ ریاست کے داخلی امور کے وزیر ، نہ NSGکے چیف اور نہ پولیس کمشنر اور نہ ہی مرکزی و ریاستی وزارتیں برائے اطلاعات عامہ۔ یہ حکومتی نظام کی ہمہ گیر ناکامی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاستداں اور نوکر شاہی افسران نے کسی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے؟ یقینا وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا کیا کیوں نہیں؟
وزیرِ اعلیٰ کو حملے کی صحیح نوعیت سمجھنے میں اتنا وقت کیوں لگا؟ ان کے نائب نے جو ریاست کے وزیرِ داخلی امور بھی ہیں مسئلہ کی سنگینی کو ہلکے انداز میں کیوں لیا اور مرکز کو بیدار ہونے میں اتنا وقت کیوں لگا؟ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کیا کررہے تھے اور وزیر داخلہ کس کام میں مصروف تھے۔ حال ہی میں ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ہنگامی حالات سے نمٹنے والا ادارہ) آفس قائم کیا گیا تھا ۔ کیا یہ ہنگامی حادثہ اس کی ذمہ داریوں کی فہرست میں نہیں آتا تھا۔
ہمیں الزام در الزام کا کھیل نہیں کھیلنا چاہیے، بلکہ اس بات کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ حالات اس قدر خطرناک رخ پر کیسے چلے گئے؟
ایک تو یہ کہ سیاستدانوں کی کسی بھی پارٹی میں پوزیشن یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کا منھ دیکھ کر کام کرتے ہیں اور سوائے سب سے اعلیٰ لیڈر کے کوئی بھی محفوظ نہیںہے۔ یہ چیز اس خوشامدی ماحول کو مزید تقویت دینے والی ہے، جس میں اطلاعات نیچے سے اوپر کی طرف پہنچائی جاتی ہیں اور اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ سیاست داں کیوں کر ایک کے اوپر ایک ذمہ داریاں اوڑھتے جاتے ہیں اور ایسی مذہبی رسموں کو بھی انجام دیتے جاتے ہیں جو محض توہماتی ہیں۔ (ایسے میں) ان کا وجودکارکردگی یا قیادت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ ایسے میں اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ (اس کی کارکردگی سے) اعلیٰ قیادت ناراض ہوجائے۔
نہ تو (سابق) وزیر اعلیٰ ولاس راؤ دیشمکھ اور نہ ہی کوئی پاٹل (سابق و مرکزی وزیر داخلہ) اس قابل تھے کہ کچھ کرسکتے وہ صرف موہوم کامیابیوں کی تقریب منانے جیسی خبر کا محض مظاہرہ کرسکتے تھے جو ان کے خیال میں ان کے آقاؤں کو خوش کرسکتا تھا۔ ایسے میں سیاست باہدف اور بامقصد ہونے کے بجائے محض ایک (پروسس) عمل بن کر رہ گئی ہے۔ بے معنی لن ترانیاں اور دکھاوا ہی سب کچھ ہے۔
یہاں آپ دیشمکھ ’’ٹررٹورزم‘‘ کے فلمی ستاروں کے ساتھ تاج ہوٹل دیکھنے جانے یا گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی کے رقم کے اس تحفہ کو ویکھیں جو انھوں نے ایک شہید سیکورٹی افسر کے اہل خانہ کو بھیجا ہے۔ ذرا غور سے دیکھیں اور پھر اس کا موازنہ 9/11 سے کریں جب نیویارک شہر کے میر روڈی نے کمان سنبھالی اور فوجی کارروائی کی قیادت کی۔
قومی مفاد سیاست دانوں کے اقدار کی ترجیحات میں بہت نیچے آتا ہے۔ ہر صورت حال جو انہیں پیش آتی ہے یا تو ان کی پوزیشن کو مستحکم کرتی ہے یا کمزور۔ تملق اور خوشامد پر مستزاد سیاسی کلچر مفاد پرست ہی بناتا ہے۔ اس کی وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ پڑوسی ریاست کے وزیرِ اعلیٰ کیوں بھاگ کر فوراً اوبرائے ہوٹل پہنچے جہاں وہ خود پسندانہ انداز میں موجود میڈیا سے مخاطب ہوئے اور مہاراشٹر سرکار پر ناکامی کا الزام لگایا اور نئے قوانین کی جو ان کے یہاں ہیں دہائی دی۔ اگر کہیں نریندر مودی اپنی موجود شبیہ سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ یہ صورت حال ہے۔ وہ حقیقت میں کیا ہیں اس کا مظاہرہ ان کے اس عمل سے ہوتا ہے۔ ایک قلیل مدتی موقع پرستی اپنے ایجنڈے کو لے کر یقینا ان کے لیے بڑی چیز تھی۔ دریں اثنا حزبِ اختلاف کے رہنما ایل کے اڈوانی نے حکومت کی حمایت کا انکارکرکے ملک کے ممکنہ وزیر اعظم کی دعوے داری کی برسی لکھ دی۔ یہ چیز اس حمایت و تائید کے برخلاف تھی جو امریکہ اوریورپ کے سیاست دانوں نے اس طرح کے دہشت گردانہ حملوں کے وقت پیش کی تھی۔
جدت پسندی اور آئیڈیالوجی جدید سیاسی کلچر کا لازمی حصہ ہیں۔ باراک اوباما نے امریکی قصرِ صدارت تک پہنچنے کے لیے ہائی ٹیک مہم اور تبدیلی کے پیغام کو ذریعہ بنایا۔ ہندوستان میں مایاوتی نے اپنی صلاحیت کو غریبوں اور دلت سماج کے مظلوم لوگوں کو جمع کرنے کے لیے ہیروں کی چمک اور ذہنوں کو بیدار کرنے کے ذریعے استعمال کیا۔
بی جے پی نے مسلمانوں کے خلاف اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے ذریعے سوائے منافرت پھیلانے کے اور کچھ خاص پیغام لوگوں کو نہیں دیا۔ دائیں بازو کی متبادل طاقت کی حیثیت سے ابھرنے میں اس کی ناکامی ناقابل معافی جرم ہے۔ جو دور اندیشی کی کمی کے بارے میں بتاتی ہے۔
دوسری طرف کانگریس بے چارگی کے عالم میں مختلف گروہ بندیوں کے سبب تعطل کا شکار ہوگئی ہے جس میں بائیں بازو کی سوشلسٹ پارٹیاں ہیں جو اندرا گاندھی کے زمانے کی طرف لوٹنا چاہتی ہیں۔ جاگیر دار طبقات بھی ہیں جو ذات اور مذہب کی بنیادوں پر بنے ہیں اور مختلف حکمران جماعتوں کے ترقی پسند گروپ بھی ہیں، جن کا مختلف گروپوں کے ذریعے احتساب کیا جاتا ہے۔ اس کانتیجہ چوری چھپے کی جانے والی اصلاحات (رفارم) متذبذب خارجہ پالیسی اور بے عقلی کی مقبولیت کے حصول کی صورت میں قوم کے سامنے ہے۔ اس طرح کے کمزور کلچر سے بے وقوف بننے والا پولیٹکل کلاس (سیاست دانوں کا طبقہ) یقینی طور پر ممبئی پر دہشت گردانہ حملوں کا مناسب انداز میں جواب دینے کے لیے نا اہل ہے۔
(بشکریہ ٹائمس آف انڈیا)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146