کینیڈا کے دارالسلطنت اوٹاوہ میںہیزے لینڈ اپنی دکان کے کائونٹرپرحیران وششدر کھڑا تھا، باہر خریداروں کی قطارلگی ہوئی تھی،خواتین باری باری آتیںاورایک ہی سوال دوہراتیں’’آپ کے پاس خشک گوشت ہے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘ہیزے مصنوعی اخلاق سے کہتا۔
’’ذرادکھائیے تو۔‘‘
’’کیا میں لفافہ پھاڑ سکتی ہوں؟‘‘خاتون بڑی معصومیت سے پوچھتی۔
’’جی…اس کی کیا ضرورت ہے؟ ہر لفافے میںکمپنی کی طرف سے دوپونڈ گوشت موجود ہے۔‘‘
’’دیکھے بغیر ہر گزنہ خریدوںگی۔۔۔۔کمپنی والوں سے خداسمجھے،گوشت کے بجائے چھیچھڑے سکھا کر لفافوں میںبھردیتے ہیں۔‘‘
’’محترمہ!میںذمہ لیتاہوںکہ مال خراب نکلا تو قیمت واپس کردی جائے گی۔‘‘
’’مگرلفافہ کھول کر دیکھنے میںکیاحرج ہے؟‘‘
ہیزے منہ دیکھتارہ جاتاہے۔خاتون کاغذی لفافہ پھاڑکر گوشت نکالتی،پلٹتی اورواپس کائونٹر پر رکھتے ہوئے کہتی’’معاف کیجیے،گوشت کا رنگ بہت سرخ ہے اورباسی معلوم ہوتاہے۔‘‘
خاتون باہر چلی جاتی توہیزے براسامنہ بناکر لفافہ اُٹھاتا۔اچانک دوسری خاتون آجاتی،پھر وہی سوال وجواب:
’’کیوں صاحب!خشک گوشت ہوگاآپ کے پاس؟‘‘
صبح نوبجے سے ہیزے ان خریداروں کو برداشت کررہاتھا جو لفافہ پھاڑ کر گوشت دیکھتیں اور خریدے بغیرچلی جاتیں۔کسی گاہک کو پہلے سے کھلا ہوا لفافہ پیش کرتاتوجواب ملتا’’جناب لفافہ تو کھولا جاچکا ہے، شایدکسی خریدارنے ناپسندکردیاہوگا،تازہ مال دکھائیے۔‘‘
ہیزے خشک گوشت کی بہت بڑی دکان کا مالک تھا،تیرہ برس سے یہ دھنداکررہاتھا،مگرآج اسے محسوس ہواکہ دکان چلانا بڑے دل گردے کاکام ہے۔ خواتین سے بدسلوکی کے الزام میںکئی دکان داروں پر مقدمے چل رہے تھے،اس لیے وہ سختتی سے جواب نہیں دے سکتاتھا۔ہربارجب خاتون گوشت خریدے بغیر باہر جاتی تو وہ غصے سے اپنے ہونٹ کاٹنے لگتا۔ گیارہ بجے تک وہ اس کھیل سے عاجز آگیا،موقع پر جلدی سے دکان کا دروازہ بند کیااورباہر نکلا۔سڑک پر خریداروں کا ہجوم تھا،اسے دیکھ کر خواتین نے نعرے لگائے:
’’مسٹرہیزے خدارادکان بند نہ کیجیے،ہمیں بہت کچھ خریدناہے۔‘‘
لیکن ہیزے میںرکنے کی سکت نہ تھی،وہ کار میں بیٹھ کر رفوچکر ہوگیا۔
اگلے روزمقامی اخبارات کی سرخیاں بہت دلچسپ تھیں:’’خشک گوشت بیچنے والے گیارہ دکان دار کاروبارچھوڑ کر بھاگ گئے۔‘‘
تین دکان داروں نے پولیس کو اپنی مدد کے لیے بلالیا۔‘‘
’’ایک دُکان دار کا دماغ خراب ہوگیا۔‘‘
’’خواتین دن بھر خشک گوشت کی تلاش میں بازاروں کے چکر کاٹتی رہیں۔‘‘
یہ ساراڈراماخریداروں کی قومی انجمن کی ہدایت پرکھیلا گیا۔ یوں تویورپ اور امریکہ میں خریداروں کی کئی انجمیں ہیں،لیکن کینیڈامیںخریداروں کی قومی انجمن سب سے زیادہ فعال اورکارگرثابت ہوئی ہے۔ پورے ملک میںکسی جگہ دکان دار چیز مہنگے داموں فروخت کریں،ناقص مال بیچیں یا گاہکوں سے بدسلوکی روارکھیں،توانجمن فوراًحرکت میں آجاتی ہے تاکہ مناسب اورموزوں حل تلاش کرسکے۔
ہم نے اوپر جس واقعے کا ذکر کیا ہے،وہ گزشتہ برس نومبر میں پیش آیا۔اوٹاوہ کی بیشتر خواتین نے شکایت کی تھی کہ بند لفافوں میں بکنے والاگوشت بہت ناقص ہوتاہے،لفافہ کھول کر گوشت دیکھانہیں جاسکتا،اس لیے بہت تکلیف ہورہی ہے۔پہلے یہ گوشت پلاسٹک کی تھیلیوں میںفروخت کیا جاتا تھا، خریدار یہ تھیلیاں کھول کر گوشت دیکھتے، ناپسند ہوتا تو دوبارہ تھیلیوں میں بندکردیتے،لیکن کاغذ کے لفافوں کو پھاڑناپڑتاتھااورپھروہ گاہک کو مجبوراًخریدناپڑتا۔
انجمن نے گوشت مہیا کرنے والی کمپنیوں سے درخواست کی مگراُنھوںنے مطلق پروانہیں کی۔ تنگ آکر یہ مسئلہ ایک خصوصی کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ کمیٹی نے اگلے روز اس مسئلے کا حل پیش کیا۔شام تک انجمن کے تمام اراکین کو ہدایات پہنچ گئیں۔ساری تیاریاں مکمل ہوگئیں توتیسری صبح گوشت کی دکانوں پر ’’دھاوا‘‘بول دیاگیا۔دوپہر تک تقریباًسبھی دکان دار عاجز آچکے تھے۔گوشت کے کاغذی لفافوں کے خلاف احتجاج کی یہ تدبیرکارگرثابت ہوئی۔متعلقہ کمپنیوں نے فوراًکاغذی لفافوں کی رسدبندکردی اورگوشت پھر سے شفاف پلاسٹک کی تھیلیوں میں آنے لگا۔اب ہر شخص تھیلی کو کھولے بغیر آسانی سے گوشت دیکھ سکتاتھا۔
کینیڈا میںخریداروں کی قومی انجمن ۱۹۵۱ء کے اوائل میںقائم ہوئی۔۱۹۵۳ء تک انجمن کی شاخیں سارے ملک میں پھیل چکی تھیں۔آج کل اس کے ارکان کی تعداد پچاس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان میں زیادہ ترگھریلوعورتیں شامل ہیں۔انجمن کا سالانہ چندہ صرف ایک ڈالر فی کس ہے۔قصبو ں اورشہروں میں ایک ایک ہزارارکان مل کر ایک نمائندہ منتخب کرتے ہیں۔صدر،سکریٹری اور دوسرے عہدیداروں کا انتخاب سال میںایک مرتبہ ہوتاہے۔عہدیدارکوئی معاوضہ نہیںلیتے،صرف دفتری ضروریات کے لیے انھیں الائونس ملتاہے۔عام طورپر ارکان اپنا کام کرتے ہیں، جب ضرورت پیش آئے انھیں ایک جگہ بلالیا جاتا ہے تاکہ تازہ مسائل پر بحث کی جاسکے۔
انجمن کا سب سے بڑاکارنامہ قیمتوں کو قابو کرناہے۔1954ء میںبعض اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں توگھریلوعورتیں سخت عاجز آگئیں۔حکام نے متعلقہ کمپنیوں سے باربار قیمتوں پرنظرثانی کی درخواست کی،مگرتاجروں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔آخرکار خریداروں کی انجمن حرکت میںآگئی۔فیصلہ ہواکہ انجمن کی اراکین ان دکانداروں سے سودانہیںلیںگی جو مہنگے داموں مال فروخت کرتے ہیں۔ملک کے طول وعرض میں اس ہدایت پر عمل کیاگیا اورصرف دودن کے اندراشیائے خوردونوش مہیا کرنے والی ان کمپنیوں کا دیوالیہ نکل گیا۔ کمپنیوں نے قیمتیں مقررکرنے سے پہلے انجمن سے مشورہ کیا۔نئی قیمتیں مناسب اورموزوںتھیں۔
اسی سال ایک اوردلچسپ واقعہ پیش آیا۔چند خواتین نے،جو انجمن کی باقاعدہ رکن تھیں،بنیان تیار کرنے والی ایک فرم کے خلاف شکایت کی۔خواتین کو اعتراض تھاکہ لفافوں پربڑاسائز،درمیانہ سائز اور چھوٹا سائز لکھاہوتاہے،لیکن اندرسے بنیان ایک ہی سائز کے نکلتے ہیں حالاںکہ وہ لفافے جن پر بڑاسائز لکھا ہے،زیادہ قیمت پرفروخت ہوتے ہیں اور ’’چھوٹا سائز‘‘ کی مہروالے کم قیمت پر۔
بنیان تیارکرنے والی فرم سے استفسار کیا گیا، لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہ ملاتومعاملہ خصوصی اجلاس میںپیش ہوا۔متفقہ طورپر ایک خاتون وکیل کی یہ تجویز تسلیم کرلی گئی کہ اس کمپنی پر مقدمہ دائرکرناچاہیے۔اس خاتون نے ہرسائز کا ایک ایک لفافہ لے کر عدالت میںثبوت کے طورپر پیش کیا۔فریب دہی ثابت ہوگئی اورکمپنی کو ایک لاکھ ڈالر کا جرمانہ ہوا۔
خریداروں کی قومی انجمن ایک ہفتہ وار اخبار بھی شائع کرتی ہے جس کی پالیسی یہ ہے کہ خریداروں اورسامان فروخت کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ قریب لایاجائے۔بعض کمپنیاں نئی مصنوعات پیش کرنے سے پہلے انجمن سے باقاعدہ منظوری لیتی ہیں۔ انجمن کے ماہرین اندازہ لگاتے ہیں کہ ان مصنوعات پر کتنا خرچ آیاہے۔اخراجات میںکمپنی کا منافع اور حکومت کی طرف سے عائد کردہ ٹیکس شامل کرکے ’’معیاری قیمت‘‘مقرر کردی جاتی ہے۔عام طورپر کمپنیاں ذراسی بحث وتمحیص کے بعدمعیاری قیمت‘‘ قبول کرلیتی ہیں۔بعدازاں اشتہاروں میںنمایاں طور پر لکھاجاتاہے’’ہماری مصنوعات کی قیمتیں خریداروں کی انجمن سے تصدیق شدہ ہیں۔‘‘
ایک بارڈبوںمیںبندگاڑھے دودھ کی قیمت میںاضافے پرانجمن کے مختلف دفاتر میںبے شمار شکایات موصول ہوئیں۔انجمن نے حسب دستورسب سے پہلے متعلقہ کمپنیوں سے استفسار کیا،کمپنیوںنے شکایت کی کہ شیشے کی بوتلیں مہنگی ہوگئی ہیں اس لیے مجبوراً اُنھیں اپنے نرخ بڑھانے پڑے۔انجمن نے شیشے کی بوتلیں تیارکرنے والوں سے رابطہ کیا۔اُنھوںنے شیشے کی مصنوعات پرحکومت کی طرف سے لگائے جانے والے ایک نئے ٹیکس کی شکایت کی۔
صورت حال پر سنجیدگی سے غور کیا گیا۔ اندازہ ہواکہ شیشے کی بوتلوں کی قیمتوں میںواقعی اضافہ ہوناچاہیے،لیکن اتنا نہیں جتناکمپنی نے کیاہے،بوتلوں کی مہنگائی کی وجہ سے گاڑھے دودھ کی بندبوتلیں بھی مہنگی ہونی چاہئیں،مگرقیمت میں زیادہ سے زیادہ چوتھائی سینٹ فی بوتل اضافہ مناسب ہے جب کہ کمپنی والوں نے پون سینٹ کے قریب اضافہ کردیاتھا۔
کمپنی کے کارپردازوں اور انجمن کے ماہرین میںبڑی لے دے ہوئی اور بالاخر کمپنی والوں کو تسلیم کرناپڑاکہ اُنھوںنے بوتلیں مہنگی ہونے کا عذر پیش کرکے پہلے سے زیادہ منافع لینا شروع کردیا ہے۔ جلد بوتلوں کی قیمت کم کردی گئی۔
کینیڈا کی خواتین نے اشیائے صرف کی قیمتوں میں کمی کے لیے جو ذرائع استعمال کیے اُنھیں ہر ملک میں آزمایا جاسکتا ہے۔ہمارے ہاں بھی خریداروں کی انجمن قائم ہونی چاہیے تاکہ تاجروں اور دکانداروں کی ناجائز منافع خوری کا خاتمہ کیاجاسکے۔ ——