نویرا آج پھر اسکول سے غیر حاضر تھی۔ شیزا کل بھی سارا دن بے چینی اور غصے کے ملے جلے جذبات کے ساتھ اس کا انتظار کرتی رہی تھی۔ آج پورا ایک ہفتہ ہورہا تھا، نویرا کو شیزا کی کاپی لیے ہوئے۔ بدھ کو ٹیسٹ تھا اور آج منگل … اس کے پاس تیاری کے لیے صرف اور صرف آج کا دن تھا، اور اگر آج بھی نویرا نہ آئی؟ یہ سوچ کر اس کی بے چینی اور بڑھ جاتی۔
اچانک ہی اس کی نگاہ کے سامنے نویرا آگئی جو گیٹ سے اسکول میں داخل ہورہی تھی اور ہاتھ میں شیزا کی کاپی تھی جسے دیکھ کر اس کے اندر سکون اترگیا۔
جیسے ہی نویرا شیزا کے قریب پہنچی، شیزا نے بغیر کسی انتظار کے جھپٹ کر اپنی کاپی لے لی اور یہ دیکھ کر اسے مزید غصہ آگیا کہ کاپی کا کور بھی پھٹا ہوا تھا۔
’’دراصل میں نے یہ کاپی تین دن پہلے ہی علی بھیا کے ہاتھ تمہیں بھجوائی تھی، لیکن اس کی سائیکل کو ایک کار نے ٹکر ماردی، جس سے علی کو بھی چوٹیں آئیں اور کاپی کا کور بھی پھٹ گیا۔‘‘ نویرا نے شیزا کے بدلتے تیور دیکھ کر فوراً اپنی صفائی پیش کردی، لیکن شیزا غصے میں ان سنی کرکے چل دی۔
جس دن شیزا کے اسکول کا پہلا دن تھا،وہی نویرا کا بھی پہلا دن تھا، اور اب یہ دونوں نویں کلاس کی طالبات تھیں۔ یوں دونوں کی دوستی بڑی پکی تھی اور اسکول میں ان کی دوستی کی مثال دی جاتی تھی۔
شیزا کا تعلق کھاتے پیتے گھرانے سے تھا۔ اکلوتے پن کے احساس نے اسے ضدی اور خود سر بنادیا تھا۔ جب کہ نویرا کا تعلق ایک سفید پوش گھرانے سے تھا، اور نویرا خود بھی صابر و شاکر اور قناعت پسند طبیعت کی تھی۔ ماں کے پِتّے کے آپریشن کی وجہ سے وہ گھر کی ذمہ داریوں میں مصروف ہوکر اسکول نہ جاسکی اور یوں کافی ہوم ورک جمع ہوگیا تو شیزا نے اپنی کاپی نویرا کو دے دی کہ وہ اپنا کام کرلے اور کاپی اگلے دن واپس کردے، لیکن گھریلو مصروفیت کے سبب نویرا اس دن پھر اسکول نہ آسکی اور اس نے کاپی اپنے چھوٹے بھائی علی کے ہاتھ شیزا کو بھیج دی کہ یہ حادثہ پیش آگیا۔ اور اب نویرا سخت پریشان تھی کہ وہ اپنی دوست کا دل کس طرح صاف کرے؟
چھٹی کے وقت شیزا کے سر میں سخت درد ہونے لگا اور گھر پہنچتے ہی اسے بخار ہوگیا، اور وہ دوسرے دن صبح اسکول بھی نہ جاسکی تو شام میں وہ نویرا کی طرف چلی گئی تاکہ معلوم کرسکے کہ آج اسکول میں کیا کام ہوا؟ نویرا کے گھر پہنچنے پر اسے پتا چلا کہ نویرا تو کہیں گئی ہوئی ہے اور گھر میں صرف اس کی امی اور علی ہیں۔ اس کی امی کچن میں مصروف تھیں، اور علی صحن میں چار پائی پر لیٹا ہوا تھا۔ اس کے سر اور ہاتھ پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور چہرے پر بھی خراشیں تھیں۔ پوچھنے پر علی نے بتایا کہ جب وہ اس کی کاپی واپس کرنے آرہا تھا تو اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ اور پھر علی شیزا سے کاپی کا کور پھٹ جانے پر معافی مانگنے لگا۔ شیزا کو اپنے رویے پر سخت شرمندگی ہوئی۔ راستے بھر جیسے جیسے وہ اپنے رویے کے بارے میں سوچتی، سخت ندامت محسوس کرتی۔
دوسرے دن شیزا سوچ رہی تھی کہ جب ہم پہلی دفعہ ملے تھے، اُس وقت بھی نویرا نے اسے اپنے اخلاق سے ہی متاثر کیا تھا۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ پیچھے قدموں کی چاپ ابھری اور وہ بنا دیکھے ہی سمجھ گئی کہ پیچھے کون ہے۔ جیسے ہی نویرا اس کے پیچھے آکر بیٹھی اس نے مصنوعی خفگی سے منہ پھیر لیا۔ نویرا کو پتا تھا کہ اب شیزا زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہ سکتی اس لیے شوخی سے بولی : ’’آج ناشتہ نہیں ملا؟‘‘
شیزا نے مسکراہٹ دبا کر کہا: ’’مجھے تنگ مت کرو، میرا موڈ آف ہے۔‘‘ نویرا نے مسکرا کر کہا: ’’کبھی تمہارا موڈ آف ہوتا ہے اور کبھی آن، مجھے ڈر ہے کہیں یہ موڈ فیوز ہی نہ ہوجائے اور پھر …‘‘ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ یہ دلفریب منظر دیکھ کر بڑے شیطان نے چھوٹے شیطان کو چپت رسید کی اورکسی اور کے اندر نا اتفاقی کا بیج بونے چل دیے کہ یہاں تو ناکامی ہوئی تھی۔