ہم گذشتہ کئی سالوں سے یہاں شارجہ میں رہ رہے ہیں۔ آٹھ دس ماہ پہلے میری ایک پرانی سہیلی بھی اپنے شوہر کے ساتھ یہاں آئی ہے۔ ٹیلی فون پر گفتگو تو ہوئی مگر ملنے کا موقع اب ملا۔
آج سے ایک ہفتہ قبل جب میں اپنی پرانی دوست شہلا کے گھر اس سے ملنے گئی تو وہ بے انتہا خوش ہوگئی ہمارے بچے بھی تقریباً ہم عمر ہیں اس لیے وہ بھی گھل مل گئے۔ شہلا کو یہاں آئے ہوئے آٹھ ماہ ہوگئے تھے لیکن ہماری ملاقات محض فون کی حد تک تھی اور فاصلوں کی وجہ سے ہم مل نہ سکے تھے اور آج تو جیسے پرانی یادیں پھر تازہ ہوگئیں۔
شہلا کالج لائف میں بہت سوشل ہوا کرتی تھی، ہر کام میں آگے آگے رہتی۔ وہ ہر کام اپنے انداز میں بڑی پلاننگ کے ساتھ کرتی ۔ وہ مغرب کی دلدادہ تھی۔ لیکن اب جو میں نے اس کو دیکھا تو یکدم الٹ پایا۔ بظاہر تو اس میں کوئی فرق نہیں آیا تھا لیکن شاید میاں کی طبیعت کی وجہ سے وہ بے انتہا نرم پڑ گئی تھی۔ اب اس میں وہ آگے بڑھ بڑھ کر بولنا، دلیلیں دینا اور اپنی ہی بات پر زور دینا ختم ہوچکا تھا بلکہ بردباری آچکی تھی اور جس بات نے مجھے چونکا دیا وہ آج تک میرے دماغ سے نہیں نکل رہی، وہ میں آپ کو بتاتی ہوں۔
شہلا جب چائے بنانے اٹھی تو میں بچوں کی طرف آگئی، میری بیٹی شہلا کی بیٹی سے دوستی کرچکی تھی اور میرا بیٹا شہلا کے بیٹے شرجیل کے ساتھ اس کے کھلونوں میں مگن تھا۔ میں شرجیل سے اس کے اسکول کے بارے میں پوچھ رہی تھی تو ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ ایک اور بچہ شاید پڑوس کا تھا اس کا بھی نام پوچھ لوں۔ میں نے بچے کا نام پوچھا تو اس کے جواب دینے سے پہلے ہی شرجیل میاں بول پڑے: آنٹی یہ وشال ہے اور ہمارے پڑوس میں… وشال یکدم بیچ میں بات کاٹتے ہوئے بولا: آنٹی میں وشال نہیں عبداللہ ہوں اب میں مسلم ہوں۔ اتنے میں شہلا بلانے آگئی۔ میں ذہن میں بے چینی لیے شہلا سے پوچھ بیٹھی۔ شہلا مجھے لے کر اندر آئی اور بتانے لگی کہ یہ بچہ پڑوس کا ہے، ماں باپ دونوں نوکری کرتے ہیں، اکیلا ہے اسکول سے آنے کے بعد ماںتو لنچ کے بعد دوبارہ ڈیوٹی چلی جاتی ہے اور یہ بلڈنگ میں مختلف گھروں میں جاتا رہتا ہے، اب جب سے میں اس فلور پر آئی ہوں میرے گھر آنا جانا ہوگیا ہے۔ سمیرا صحیح بات تو یہ ہے کہ مجھے زندگی کا اصل شعور تو شادی کے بعد اطہر نے دیا ہے زندگی محض گزارنے یا انجوائے کے لیے نہیں ہے بلکہ ایک مقصد کے لیے ہے، اس مقصد پر کام کرتے ہوئے انجوائے بھی کریں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ جب یہ بچہ میرے گھر آنا شروع ہوا تو پہلے پہل میں بہت ڈسٹرب ہوئی کہ میرے بچوں میں غلط عادات نہ آجائیں لیکن میں نے سوچا اور بہت سوچا تو اس نتیجے پر پہنچی کہ اگر یہ لوگ ہمیں اپنی غلط روایات دے سکتے ہیں تو ہم بھی اپنی سوچ دے سکتے ہیں اور یقین کرو سمیرا اس دن کے بعد سے میں نے وشال کو آنے سے کبھی منع نہیں کیا۔ آتا ہے لیکن یہ خود ہی جج کرتا ہے، یہ بچوں کو قاری صاحب سے پڑھتا دیکھتا تو ہے بظاہر دور بیٹھ کر کھلونوں میں لگا رہتا ہے لیکن دل اس کا دوسری طرف ہوتا ہے۔ یہ بچوں کو وقت پر نماز پڑھتے دیکھتا ہے تو ان سے طرح طرح سے سوالات کرکے اطمینان چاہتا ہے، پھر ابھی کچھ دن پہلے ہی اس نے مجھے کہا ’’آنٹی میں مسلم ہونا چاہتا ہوں‘‘ تو میں چونک اٹھی۔ اس نے مجھے خود ہی کلمہ سنایا، نماز سنائی اور بتایا کہ وہ مسلم بچوں کے ساتھ سامنے مسجد بھی گیا اور نماز بھی پڑھی تھی۔ لیکن سمیرا میں نے اس کو سمجھایا کہ بیٹے ابھی تو تم بارہ سال کے ہی ہو، ابھی تم اور سمجھو۔ لیکن یہ تو اب اپنے آپ کو مسلم ہی کہتا ہے پھر بھی ماں سے تھوڑا ڈرتا ہے کہتا ہے بس میں ۱۵ سال کا ہوجاؤں تو ممی کو بتادوں گا۔ سمیرا تم مجھے مشورہ دو کہ میں کیا کروں؟ اس کو کیا سمجھاؤں؟ میں عمل کی حد تک تو اچھی باتیں سکھانے کی کوشش کرتی ہوں لیکن اتنے چھوٹے بچے میں استقامت کیسے پیدا کروں؟ شہلا یہ کہہ کر خاموشی سے مجھے دیکھنے لگی اور میں … میرا ضمیر اس وقت طنزیہ ہنسی ہنس رہا تھا کہ ہائے تو کتنی بدنصیب ہے۔ تجھے تو کتنے مواقع ملے کہ تو یہ کام کرسکتی تھی لیکن تو نے محض اپنے بچوں کی تربیت کی خرابی کا سوچ کر کسی کو اپنے گھر آنے کی اجازت نہ دی اور پھر میں نے شہلا کو سوچ کر بتانے کے لیے کہہ کر کوئی دوسرا موضوع نکال لیا۔
لیکن میں گھر آکر کتنی شرمندہ تھی۔ شہلا جیسی دنیادار خاتون نے اللہ کے نزدیک کتنا بہترین عمل کیا ہے۔ ایک میں ہوں جو دین کا لبادہ اوڑھ کر بھی اس سے محروم ہوں۔ میرے پڑوس میں سُجاتا نے کتنی مرتبہ مجھ سے کہا کہ سمیرا میں جاب پر جاتی ہوں اگر تم امیتھ کو روزانہ دو گھنٹے کے لیے رکھ لیا کرو تو میرے لیے کافی آسان ہوجائے گا لیکن میں نے کس طرح سے اس کو صاف الفاظ میں منع کردیا تھا۔ حالانکہ امیتھ میرے علی کے برابر ہی تو ہے اور وہ علی جیسے سلجھے ہوئے بچے سے بہت کچھ سیکھ سکتا تھا اور ویسے بھی بچے تو مسلمان ہی پیدا ہوتے ہیں، دنیا میں آنے کے بعد مختلف مذاہب میں بٹ جاتے ہیں… نہایت نرم دل… ان کا دل تو حق کی تلاش میں رہتا ہے اور جب حق ان تک پہنچتا ہے تو وہ بڑھ کر تھامنے والے ہوتے ہیں۔ ساری رات میں سوچتی رہی اور اگلے دن صبح صبح جاکر سجاتا کی کال بیل بجا ڈالی، سجاتا آئی تو میں نے اس سے اپنا مدعا بیان کیا۔ اس نے سنا تو طنزیہ ہنس پڑی اور کہنے لگی: ’’آپ سے کہنے کے بعد ہم نے اپنے امیتھ کو فورتھ فلور والی رشیدہ آنٹی کے پاس بھیجنا شروع کردیا تھا کیونکہ وہ راضی ہوگیا تھا لیکن ہمارا امیتھ تو دو ہی ہفتوں میں بدل گیا، ہم نے اس کو بچپن سے جو تہذیب اور مینر سکھایا تھا وہ سارا ختم ہوگیا۔ ہم سب کچھ کرتے ہیں، کلب بھی جاتے ہیں، فلم بھی دیکھتے ہیں، لیکن ہر چیز وقت پر۔ پڑھائی اپنے وقت پر، کھیل اپنے وقت پر۔ تمہاری رشیدہ آنٹی کے یہاں جاکر تو امیتھ میں کوئی مینر نہیں رہا۔ ان کا بچہ لوگوں کے ساتھ ہر وقت کاریڈور میں کرکٹ کھیلتا ہے اور اس کی زبان اتنی خرابی ہوگئی کہ ایک دن جب اس کے پاپا نے اس کو غلط حرکتوں سے منع کیا تو اس نے ایک گندی سے گالی نکالی بس اس دن سے ہم نے اپنا بچہ اٹھا لیا۔ اب ہم تو لوگوں کا رسک نہیں لے سکتے۔ اب تم اس کو اپنے ہی یہاں کے ایک دوست کی بہن کے پاس روزانہ چھوڑ کے جاتے ہیں اور ویسے بھی اب تو تھوڑے ہی دن کے بعد اسکول کھل جائیں گے، ہاں تم کو ہم سے اور کوئی کام ہو تو بولو۔‘‘ سجاتا تو اپنی بات ختم کررہی تھی لیکن میرا سر نہ جانے کیوں گھومتا جارہا تھا اور پھر میں کس طرح سے اپنے گھر پہنچی مجھے معلوم نہیں۔
اور اس دن سے آج تک یہی ٹینشن لاحق ہے کہ ہم پردیس میں محض اگر دنیا کمانے آتے ہیں تو کیا اس کے ساتھ ہم اپنی آخرت نہیں بناسکتے؟ ہمارے یہاں لوگوں سے کتنے تعلقات ہوسکتے ہیں، جو مختلف مذاہب اور مختلف قومیت سے تعلق رکھتے ہیں ہم یا تو ان سے الگ تھلگ رہتے ہیں یا ان سے ہی ان کا کلچر ان کی رسومات اور ان کی روایات اپنا رہے ہوتے ہیں، لیکن آخر کیوں ہم اپنے آپ کو ایک معیار بناکر پیش نہیں کررہے ہوتے؟ وہ معیار جو اسلام نے دیا ہے۔ اس لیے کہ ہمیں خود وہ معیار پسند نہیں۔ نہیں!ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے اخلاق و کردار سے بہت سوں کو بدل سکتے ہیں، بہت سوں کے دلوں میں گھر کرسکتے ہیں، بہت سوں میں انقلاب برپا کرسکتے ہیں لیکن اس کے لیے شرط یہی ہے کہ اپنے آپ کو اسلامی مزاج میں ڈھالیں اور اسلام پھیلانے کے لیے ہر لمحہ کو غنیمت جانیں۔