اور میں فلم نہ دیکھ سکا!

ذاکرہ بانو

پروفیسر دواکر جھا آج چھٹی پر تھے۔ اس لیے ہمارا چوتھا گھنٹہ خالی تھا۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ ایک بج کر پچاس منٹ ہوئے تھے۔ میں نے سوچا کیوں نہ آج میٹنی شو دیکھنے کا پروگرام بنایا جائے۔ یونیورسٹی سے سیدھا ہاسٹل پہنچاکہ فائل کمرے میں رکھ دوںاور سیدھا سینما ہال کا رخ کروں۔ میں کمرے میں داخل ہوتے ہی سہم گیا۔ بستر پر ایک خط رکھا تھا۔ ضرور کسی ’’مخلص دوست‘‘ نے لکھا ہوگا۔ میرا یونیورسٹی کا رجسٹریشن کرادو۔ مجھے ایل ایل بی میں داخلہ لینا ہے۔ مہربانی کرکے ایک فارم بھیج دو۔ میرا میٹرک کا مارکس شیٹ گم ہوگیا ہے۔ بھیج دو، روپئے بعد میں بھیج دوں گا۔

بس میرے پاس اسی طرح کے خطوط آتے رہتے ہیں۔ کوئی ایسا بھی خط آئے جس میں کسی کام کے بارے میں نہ لکھا ہو، ایسا کبھی نہیں ہوا۔ خط پاکر کسی کو خوشی ہوتی ہوگی، تو ہوگی، مجھے تو کبھی نہیں ہوئی۔ میں نے لفافہ چاک کیا۔ خط امی جان کا تھا۔ وہی پرانی کہانی۔ گھر کی پریشانی اور ابا جان کی بیماری کے بارے میں لکھا ہے کچھ روپئے بھیج دو۔ لیکن کہاں سے بھیج دوں، اسکالرشپ ملتy ہے لیکن اس سے تو اپنا خرچ بھی پورا نہیں ہوتا۔ میں نے خط میز پر رکھا اور کمرے سے باہر نکل پڑا۔ سڑک پر آکر رکشا پکڑی۔

’’کہاں جانا ہے مالک!‘‘

’’اسٹیشن‘‘

’’آئیے حضور! کون سی گاڑی پکڑنی ہے۔‘‘

’’مجھے کہیں باہر نہیں جانا ہے۔‘‘

میں رکشا والے کو یہ بتانا نہیں چاہتا تھا کہ میں اسٹیشن سے قریب کے سینما ہال میں فلم دیکھنے جارہا ہوں۔ یہ رکشا والے بھی عجیب ہیں۔ اسٹیشن تک کا کرایہ ایک روپیہ لیتے ہیں لیکن اس سے متصل سینما ہال ہے۔ اس کا ڈیڑھ روپیہ نہ جانے ان کے دماغ میں یہ بات کس بیوقوف نے ڈال دی ہے کہ سینما دیکھنے والوں کے پاس حرام کے پیسے ہوتے ہیں، اس لیے ایک کی جگہ دس خرچ کرسکتے ہیں اور یہی بات تھی کہ میں نے اسے نہیں بتایا کہ میں فلم دیکھنے جارہا ہوں۔ اسٹیشن سے اتر کر چہل قدمی کرتا ہوا سینما ہال تک چلا جاؤں گا۔ دس ہی قدم کے فاصلے پر تو ہے۔

جب میں اسٹیشن پہنچا تو دو بج کر پچیس منٹ ہوئے تھے۔ میں تیز قدم بڑھاتا ہوا سینما ہال کی طرف جانے لگا، اچانک ایک آدمی میرا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔

’’بابو دو دن کا بھوکا ہوں، صرف چار آنے پیسے دے دیجیے۔‘‘ میں جانتا تھا کہ اس طرح کے جھوٹ بول کر بھیک مانگنے والے اسٹیشن پر بہت ملتے ہیں، اس لیے اس کی بات پر دھیان دئے بغیر میں آگے بڑھ گیا۔ آگے ایک نئی مصیبت کھڑی تھی۔ ’’حضور! میری جوان بیٹی مرگئی ہے اسے دفن کرنے کے لیے …‘‘

’’ہٹ کمبخت روز تمہارا کوئی نہ کوئی رشتہ دار مرجاتا ہے۔ کسی دن تم خود کیوں نہیں مرجاتے۔‘‘ میں نے جلد ہی اس سے پیچھا چھڑایا اور آگے چل پڑا۔ اشوک سینما ہال سے پہلے جنرل پوسٹ آفس کی عمارت ہے ابھی شو شروع ہونے میں تقریباً آدھا گھنٹہ باقی ہے۔ کیوں نہ میںایک دو خط کے جواب لکھ ڈالوں، اس خیال سے میں ڈاک خانہ کی طرف بڑھا۔گیٹ پر ایک بوڑھی عورت راستہ روک کر کھڑی ہوگئی۔ ’’بابو! میرے لعل! بس ایک۔‘‘

میں جھنجھلا گیا۔ اس کی پوری بات سنے بغیر میں نے کہا: ’معاف کرو، میرے پاس ایک روپیہ نہیں ہے۔‘ اور تیزی سے قدم بڑھادیا۔ وہ میرے پیچھے لپکی لیکن میں اتنا تیز چل رہا تھا کہ وہ مجھے دوبارہ نہ روک سکی۔ ’’اف میرے اللہ! جدھر دیکھو بھیک منگے ہی بھیک منگے ہیں۔‘‘ میں نے دل میں کہا اور کاؤنٹر پر جاکر دو لفافے خریدے اور خط لکھنے کے لیے مناسب جگہ تلاش کرنے لگا۔ اتفاق سے ایک میز خالی مل گئی۔ میں نے کرسی پر بیٹھ کر جیسے ہی خط لکھنے کے لیے قلم نکالا وہ عورت کمرے میں داخل ہوئی، اف! کمبخت، یہاں بھی پہنچ گئی میں نے دل میں سوچا اور اس کی طرف توجہ دئیے بغیر خط لکھنے گا۔

’’بابو! آپ اردو جانتے ہیں نا؟‘‘

’’ہاں ہاں جانتا ہوں، کیا بات ہے؟‘‘

’’ذرا ایک خط لکھ دیجیے اردو میں۔‘‘ میں نے اس کے ہاتھ سے انتر دیشی پتر لے لیا۔ سب سے پہلے میں نے اس سے پتہ پوچھا۔ خط کسی مشتاق احمد کے نام بھیجا جارہا تھا جو کلکتہ میں رہتا تھا۔ پتہ لکھنے کے بعد القاب لکھنے کے لیے میں نے پوچھا ’’مشتاق احمد کون ہے؟‘‘

’’داماد ہے بابو۔‘‘میں نے مناسب القاب لکھنے کے بعد اس سے کہا’’جو ضروری باتیں ہیں انھیں پہلے لکھا دو۔ بعد میں جگہ بچے گی تو ادھر ادھر کی باتیں لکھوانا۔‘‘

’’بس ایک ہی بات لکھنی ہے میرے لعل۔ مجھ کو ادھر ادھر کی بات کوئی بات نہیں لکھوانی ہے۔‘‘

’’تو پھر ایسا کرو کہ تم بولتی جاؤ اور میں لکھتا جاتا ہوں۔ لیکن اتنا خیال رکھنا کہ لفافہ میں جگہ ختم ہونے سے پہلے تمہاری بات ختم ہوجانی چاہیے۔‘‘

اس نے خط کا مضمون کہنا شروع کیا اور میں تیزی سے اس کے الفاظ کو کاغذ پرمنتقل کرنے لگا۔

’’تمہیں کلکتہ گئے ہوئے، ایک سال سے زیادہ ہورہا ہے لیکن اس عرصہ میں تم نے نہ روپئے بھیجے اور نہ خط۔ نصیبن سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہے، دن رات بیٹھی روتی رہتی ہے۔ کیا تم نے اسی دن کے لیے اس کا ہاتھ پکڑا تھا، اس سے پہلے تمہیں دس خطوط بھیجے جاچکے ہیں۔ لیکن تم نے کسی کا جواب نہیں دیا۔ نہ میرے خط کا اور نہ نصیبن کے خط کا، منی برابر بیمار رہتی ہے، تمہیں اس ننھی سی جان کا بھی خیال نہیں۔ میرا حال تم کو معلوم ہے میرے پاس جو کچھ تھا تمہیں اپنا بیٹا سمجھ کر دے چکی۔ نصیبن کے ابا کی دی ہوئی وہ آخری نشانی بھی جسے بیچ کر تم کلکتہ گئے تھے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھراگئی۔ آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ میں نے پوچھا:’’تمہاری بیٹی کی شادی کو کتنے دن ہوئے؟‘‘

’’چار سال‘’

’’مشتاق کلکتہ میں کیا کرتا ہے؟‘‘

’’جوٹ مل میں کام کرتا ہے۔‘‘

’’کیا وہ شروع ہی سے ایسا تھا؟‘‘

’’نہیں شروع میں تو وہ برابر خرچ دیتا رہا۔ ادھر دو سال سے اس نے بڑا پریشان کررکھا ہے۔ نصیبن کے جتنے زیورات تھے سب بیچ ڈالے ۔ میرے پاس جو روپیہ تھا اسے بھی ختم کردیا اور اب یہ حال ہے کہ نہ روپیہ بھیجتا ہے اور نہ خط۔‘‘

’’مگر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ بیمار ہو یا کسی حادثہ کا شکار ہوگیا ہو۔‘‘

’’نہیں بیٹا! ایسی بات نہیں ہے۔ ہمارے محلے کے کئی آدمی کلکتہ میں رہتے ہیں انھوں نے بتایا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے، روزانہ سینما دیکھتا ہے، جو کماتا ہے ، دوست احباب میں اڑا دیتا ہے۔ اسے اپنی ذات کے علاوہ کسی کی پرواہ نہیں۔ دوسروں کی مجبوری کو تو وہ سمجھتا ہی نہیں۔‘‘

اس کی یہ باتیں نشتر کی طرح میری دکھتی رگوں پر پڑ رہی تھیں۔ مجھے اپنی ماں یاد آئی جو چار سو کلومیٹر کی دوری پر میرے خطوط کا انتظار کررہی تھی۔ کتنا دکھ اٹھا رہی ہوگی وہ۔ اور میں یہاں کتنی فضول خرچی اور عیش کررہا ہوں۔

میں نے اس کا خط مکمل کرنے کے بعد جیب میں ہاتھ ڈالا۔ میں نے سوچ لیا تھا کہ آج سے فلم نہیں دیکھوں گا۔ فلم کے پیسے اس غریب عورت کو دے دوں گا میں نے جیب سے دس کا نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھایا۔

’’لو اسے رکھ لو۔‘‘

’’نہیں‘‘ اس نے ہاتھ کھینچ لیا۔ ’’میں بھیک نہیں مانگتی بیٹا۔ تم نے غلط سمجھا۔ میں تمہیں خط لکھنے کے لیے روک رہی تھی۔ تمہارے چہرے پر داڑھی ہے نا۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ تم مسلمان ہو اور تم اردو ضرور جانتے ہوگے۔‘‘

میں نے روپیہ لے لینے کے لیے بہت اصرار کیا لیکن اس نے اسے قبول نہیں کیا۔وہ چلی گئی اور میں اسے دور تک جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اور پھر میں نے کبھی فلم نہ دیکھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146