اور وہ مسلمان ہوگئے

محمد رضی الاسلام ندوی

وہ ’’ڈی ایم‘‘ کے آفس میں ہیڈ کلرک تھا، تنخواہ معقول تھی۔ زندگی بڑے اطمینان و سکون سے گزر رہی تھی کہ اچانک اس کے گھر پر مصیبتوں کا سایہ پڑگیا۔ اس کی بیوی بیمار رہنے لگی۔ مسلسل کھانسی اور بخار نے اسے نیم جان کردیا۔ علاج کرانے پر جو انکشاف ہوا، اس نے اس کی جان ہی تو لے لی تھی۔ ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اسے ٹی بی ہوگئی ہے۔ یہ ایک لفظ اس کے دل و دماغ پر ہتھوڑے برسا گیا۔ ٹی بی راج روگ … منحوس بیماری، ہائے بھگوان وہ کیا کرے۔ وہ اس لیے پریشان نہیں تھا کہ اس کے پاس علاج کے لیے پیسے نہیں تھے، اس کے بینک اکاؤنٹس میں اتنی رقم تھی کہ وہ بغیر کسی فکر کے اپنی بیوی کا معیاری علاج کراسکتا تھا۔ اسے فکر تھی تو اس بات کی کہ ہندو سماج میں ٹی بی کو تو بہت منحوس بیماری خیال کیا جاتا ہے۔ اسے راج روگ کہا جاتا ہے۔ لوگ اس بیماری کو منحوس سمجھتے ہوئے دور بھاگتے ہیں۔

اور یہی ہوا، پڑوسیوں نے منھ موڑ لیا۔ رشتہ داروں نے آنا جانا چھوڑ دیا، ہرا بھرا گھر ویران معلوم ہونے لگا۔ وہ پریشان ہو اٹھا تھا۔ اسے دکھ اس بات کا تھا کہ وہ جو کچھ دنوں قبل تک سماج میں ایک حیثیت رکھتا تھا، اب اچھوت بن کر رہ گیا ہے۔ رشتہ داروں اور پڑوسیوں نے گھر آنا چھوڑ دیا ہے۔ دوست و احباب جن کی اس کے گھر پر روزانہ بیٹھک ہوتی تھی اب بھول کر بھی نہیں آتے۔

شام تک آفس میں سر کھپانے کے بعد وہ گھر آتا تو وہاں بیوی کی دلجوئی کی کوشش کرتا، اس کا غم بٹانے کے لیے ادھر ادھر کی باتیں کرتا اور اسے دلاسا دیتا کہ وہ بہت جلد ٹھیک ہوجائے گی۔ ایک دن وہ گھر میں اکیلی تھی کہ کچھ عورتیں اس سے ملنے آئیں۔

بہن ہمیں پتہ چلا ہے کہ تم بیمار ہو، اس لیے تمہارا حال چال معلوم کرنے آئے ہیں۔ کہو اب کیسی ہو؟ انھوں نے کہا۔

آپ لوگ کون ہیں؟ اور کہاں سے آئی ہیں؟ اس نے پہچاننے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

ارے بہن ہمیں پہچانا نہیں، ہم اسی محلہ میں رہتے ہیں۔ وہ آگے چل کر جو نکّڑ پر مکان ہے نا، اسی میں کرایہ دار ہیں۔

کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ عورتیں چلی گئیں۔ شام کو جب اس کا شوہر آیا تو اس نے کہا: آج کچھ مسلمان عورتیں آئی تھیں جو گلی کے نکّڑ والے مکان میں کرایہ پر رہتی ہیں۔ بہت دیر تک بیٹھی مجھ سے باتیں کرتی رہیں۔ میں نے پوچھا کوئی کام ہے؟ تو کہنے لگیں کہ کوئی کام نہیں، بس سنا تھا کہ تم بیمار ہو، اس لیے خیریت معلوم کرنے چلی آئیں۔

یہ سن کر اس کے شوہر کے چہرے پر فکر و تشویش کے آثار پیدا ہوگئے۔ وہ سوچنے لگا کہ شاید ان عورتوں کو معلوم نہیں کہ میری بیوی کو ٹی بی کی بیماری ہے۔ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ کسی بری نیت سے آئی ہوں۔

دیکھو ان سے ہوشیار رہنا۔ پتہ نہیں کس نیت سے آئی تھیں، ہوسکتا ہے جاسوسی کرنے آئی ہوں۔ اس نے بیوی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ تیسرے دن یہ عورتیں پھر آئیں۔ اس نے جب ان کے سامنے بیماری اور پریشانی کا اظہار کیا تو کہنے لگیں: دیکھو بہن! تندرستی اور بیماری سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے تندرستی کی دعا مانگو اور پابندی سے علاج کراؤ۔ ٹی بی کا علاج لمبا ہوتا ہے، اس لیے گھبرانا نہیں۔اس کی سمجھ میں کچھ آیا،کچھ نہیں آیا۔

ان میں سے ایک عورت نے کہا: بہن تم بہت دنوں سے بیمار ہو۔ گھر میں اور کوئی نہیں۔ اگر کہو تو ہم آکر جھاڑو دے دیا کریں۔ گندے برتن صاف کردیا کریں اور جو دوسرے کام ہوں کردیا کریں۔

شام کو جب اس کا شوہر آیا تو اس نے تفصیل سے ان عورتوں کی باتیں بتلائیں اس کا شوہر سوچنے لگا کر آخر یہ مسلمان عورتیںکیوں آتی ہیں؟ جبکہ پاس پڑوس کی ہندو عورتوں میں سے کوئی نہیں آتا۔ یہ عورتیں خود سے گھر کے کام کاج کرنے کو بھی کہہ رہی ہیں۔ ضرور کوئی خطرے کی بات ہے یا یہ کسی فائدے کی لالچ میں آتی ہیں۔ تیسری مرتبہ عورتیں آئیں تو وہ بھی گھر میں موجود تھا۔ عورتیں اس کی بیوی کے پاس کمرے میں چلی گئیں اور اس کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں۔ وہ موقع کی تلاش میں تھا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے عورتوں کے پا س جاکر کہا: جب سے میری بیوی بیمار ہوئی ہے لوگوں نے آنا جانا چھوڑ دیا ہے۔ محلہ کی ہندو عورتیں بھی اس سے قریب نہیں ہوتیں، پھر تم لوگ کیوں آتی ہو؟

ایک عورت بولی: بھائی صاحب! ہمارے رسول حضرت محمد ﷺ نے بیمار کی مزاج پرسی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی مدد کرنے اور اس کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کو فرمایا ہے۔ اسی لیے ہم لوگ آتے ہیں۔ ہمارے رسولؐ نے بتلایا ہے کہ بیمار کی خیریت معلوم کرنے کے لیے اس کے پاس آنے اور جانے میں جتنے قدم اٹھائے جاتے ہیں،ان کا ثواب ملتا ہے۔جتنی دیر بیمار کے پاس بیٹھا جاتا ہے، اس کا ثواب ملتا ہے۔ مرنے کے بعد جب ہم دوسری دنیا میں اٹھائے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا ثواب دے گا۔یہ سن کر دونوں کے دلوں کے بند دروازے کھل گئے۔ اسلام، حضرت محمدؐ، ثواب اور اس جیسے الفاظ اگرچہ کبھی کبھی ان کے کانوں میں پڑتے تھے لیکن ان کے بارے میں سوچنے کی نوبت کبھی نہ آئی تھی۔ اب اسلام سے دل چسپی بڑھی تو انہی عورتوں کے ذریعے انھوں نے اسلام پر ہندی کتابیں منگانی شروع کیں اور پھر چند ہی دن گزرے تھے کہ میاں بیوی دونوں نے اسلام قبول کرلیا۔(سچا واقعہ)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں