گزشتہ شمارے میں ہم نے گھریلو نظام اور معاشرت بہتربنانے کے بعض وسائل کو بیان کیا تھا جن میں سے اچھے رشتے کا انتخاب اور گھریلو پارلیمنٹ کا ذکربھی تھا۔یہاں ہم باقی وسائل بیان کریں گے۔
(۱) کھانے کے وقت کا استعمال
موجودہ تیز رفتار اور کشمکش سے بھری ہوئی زندگی میں والدین کو بالعموم تنگی وقت کا سامنا رہتا ہے۔ ان حالات میں والدین کے لئے کھانے کا وقت ایسا موقع ہے جس میں وہ اپنے بچوں پر نظر رکھ سکتے ہیں، ان سے گفتگو کرسکتے ہیں، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارسکتے ہیں اور انہیں کھانے کے آداب کے بارے میں بتاسکتے ہیں۔
(۲) گھر کے بزرگوں سے استفادہ
گھر کے بزرگ افراد یعنی دادا، دادی کو اپنی عمر کے آخری دور میں بالعموم فراغت حاصل رہتی ہے، جس کی وجہ سے ان کا وقت بے کاری اور بوریت کی حالت میں گزرتا ہے۔ ہم انہیں ان کی اہمیت اور اس عمر میں ان کے اہم کردار کا احساس دلاسکتے ہیں۔ بچے فطرتاً قصے اور کہانیاں سننے کا شوق رکھتے ہیں لیکن ہمارے پاس زیادہ تر ان کو کہانیاں سنانے کا وقت نہیں ہوتا۔ بزرگ دادا دادی کے تجربات اور ان کی صلاحیتیں ہمارے گھر میں موجود رہتی ہیں مگر ہم ان سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کرپاتے۔ دوسری جانب یہ بزرگ بچوں کو کہانیاں سناتے بھی ہیں تو وہ ایسی ہوتی ہیں جو تربیتی نقطۂ نظر سے بچوں پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ گھر کے بزرگ اپنی کہانیوں کا انداز بدلیں۔ وہ کتابی، تصویری یا آڈیو ویڈیو کی شکل میں تربیتی کہانیاں فراہم کریں اورا نہیں بتائیں کہ ان کو کس طرح پیش کیا جائے اور ان سے تربیتی فائدہ کیسے اٹھایا جائے۔ اسی طرح انہیں اصلاحی وتربیتی کیسٹیں سنائی جائیں۔
(۳) اسوہ
بچوں کی نگاہیں ہماری باتوں اور ہمارے کاموں پر رہتی ہے۔ اس لئے ہمارے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی اولاد کے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ پیش کریں۔ اسی اہمیت کے پیش نظر یہ کہا جاتا ہے کہ ’ایک شخص کا عمل ایک ہزار لوگوں کے حق میں اس سے زیادہ بہتر ہوتا ہے جتنا کہ ایک شخص کے بارے میں ایک ہزار لوگوں کی باتیں بہتر ہوتی ہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی مثبت سرگرمیاں اور اعمال آپ کے ارد گرد موجودہزاروں لوگوں پر جتنا زیادہ اثر انداز ہوسکتے ہیں اتنا کسی ایک شخص کے بارے میں ہزاروں لوگوں کی رائے بھی نہیں ہوسکتی۔
ایک اور پہلو سے غور کیجئے کہ آپ بعض معاملات میں منفی طرز عمل کا اظہار کرتے ہیں (مثال کے طور پر آپ سگریٹ یا تمباکو نوشی کرتے ہیں) لیکن اس معاملے میں اپنی اولاد کو مثبت یا ایجابی طرز عمل اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں (یعنی اسے یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی نہ کرے) تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ کی اولاد پر آپ کے اس حکم کا کوئی اثر ہوگا؟ واقعی باپ کا یہ طرز عمل کتنا عجیب ہوتا ہے کہ جب بیٹا ٹیلی فون پر کسی کا فون سن رہاہو تو باپ اپنے بیٹے سے کہتا ہے کہ ان سے کہہ دو کہ میں گھر پر نہیں ہوں، لیکن بعد میں اس کو سچ بولنے کی تلقین کرتا ہے۔
(۴) معاشرے کے تربیتی اداروں سے استفادہ
والدین کا اس جانب توجہ دینا کہ وہ اپنے بچوں کو حفظ قرآن جیسے اداروں میں داخل کرائیں، تربیتی سرگرمیوں اور پروگراموں میں حصہ دلائیں اولاد، خاندان، معاشرے اور بالآخر پوری امت پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے۔
(۵) خاندان کے لئے اجتماعی طور پر فلاحی کاموں کی انجام دہی
قرآن کریم ہمارے اندر بار بار احساس اور شعور کو بیدار کرتا اور انہیں پروان چڑھاتا ہے۔ موجودہ زمانہ جس کو ’’مادیت کا دور‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں لوگ شعور و احساس کے فقدان اور اس کے ماند پڑجانے کا شکوہ کرتے رہتے ہیں ۔ حالانکہ اگر ہم نے یہ ’’تربیتی ٹانک‘‘ لے لیا تو ہمیں اس کے بے شمار فوائد حاصل ہوں گے۔ کیسا رہے گا اگر آپ مثال کے طور پر عید جیسے اسلامی تہوار کو کار آمد بنائیں اور اپنی اولاد کو اس بات کے لئے آمادہ کریں کہ وہ یتیموں اور عمر رسیدہ لوگوں یا مصیبت زدہ گھرانوں اور ضرورت مندوں کے یہاں جائیں۔ پھر آپ بھی ان لوگوں سے ملنے جائیں اور اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی لے جائیں، ساتھ میں انہیں تحفے میں دینے کے لئے کچھ اشیاء بھی فراہم کریں اور انہیں یہ شعور دلائیں کہ اس کا اجر انہیں اللہ کے یہاں ملے گا۔ انہیں یہ بھی احساس دلائیں کہ یہ ثواب یتیموں اور مسکینوں کے آنسو پونچھنے پر ملتا ہے۔ آپ انہیں بتائیں کہ وہ ان کے آنسوؤں کو مسکراہٹ اور ان کی پریشانیوں کو خوشیوں میں کیسے تبدیل کریں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی اولاد کے اندر یہ رقیق القلب شعور اور پختہ احساس پر وان چڑھائیں گے۔ یہ چیز اللہ نے چاہا تو انہیں احساس کے مردہ ہونے اور شعوری جمود سے محفوظ رکھے گی۔
(۶) خود اعتمادی ، عزم اور حوصلہ
بڑے بڑے مصلحین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’اگر تمہیں یقین ہے کہ تم فلاں کام کرلو گے تو تم یقینا اسے کر گزرو گے لیکن اگر یہ سمجھتے ہو کہ تم اسے انجام نہیں دے سکتے تو اسے کبھی بھی انجام نہیں دے سکتے۔ کسی معینہ معاملے میں ہمارا دل اس طریقے کو قبول کرتا ہے جس کے ذریعہ انجام کار کے طور پر وہ نتیجہ حاصل ہوتا ہو جو ہم چاہتے ہیں۔ امت بار ہا بڑی بڑی مشکلات اور پریشانیوں سے دوچار ہوئی ہے اور ان پریشانیوں سے اس کو اللہ کے فضل وکرم سے انبیاء وصالحین عظام اور مبلغین وداعیوں کے علاوہ کوئی نجات نہیں دلاسکا اور مشکلات میں عملی طور پر گرفتار ہونے کے بعد بھی ان کو حل کرنے والے اسباب یہی قوت عزم وحوصلہ اور خود اعتمادی ہی تھے۔
جاپانی مصنفہ ’’ریکواوشیدا‘‘ کے مطابق:
’’جب میں کسی ایسے کام کو کرنے کاارادہ کرلیتی ہوں جس سے انسانیت کو فائدہ ہونے والا ہو تو میں اس کو انجام دینے کا پختہ عزم وارادہ کئے رہتی ہوں، خواہ مجھے اس سلسلے میں برسوں تک دشواریاں کیوں نہ جھیلنی پڑیں۔ میں جلد ہی اس پر کام شروع کردیتی ہوں یہاں تک کہ مجھے اس کا حل مل جاتا ہے۔ جب کبھی مجھے مایوسی ہونے لگتی ہے تو میں اپنے اس عزم و ارادے کو یاد کرتی ہوں جو میں نے کام شروع کرتے وقت کیا تھا اور جو اس کام کا نقطہ آغاز تھا۔‘‘ توہم بھی کیوں نہ اس نقش قدم پر چلیں اور مشکلات ومصائب سے پہلے ان کے مقابلے کے لئے تیار رہیں؟ کیونکہ ’’پرہیز واحتیاط کا ایک پیسہ علاج ومعالجے کے ڈھیرسے بہتر ہے۔‘‘