اولاد پر والدین کے حقوق

مولانا محمد اسرار الحق قاسمی

اسلام نے والدین کو اولاد کے لیے اہم قرار دیا ہے کیونکہ اولاد کی پیدائش و تربیت میں والدین جو رول ادا کرتے ہیں اور جس طرح کے حالات کا سامنا کرتے ہیں، ان کے پیشِ نظر والدین کی اہمیت و عظمت خود بخود واضح ہوجاتی ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ جب بچہ رحمِ مادر میں ہوتا ہے تو ماں کس طرح اس کو نو ماہ تک اٹھائے پھرتی ہے اور جب بچہ کی ولادت کا وقت قریب ہوتا ہے تو ماں کو سخت قسم کے درد و تکلیف کو سہنا پڑتا ہے، جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ولادت کے بعد بھی ماں باپ کی اپنی اولاد کے تئیں قربانیو ںکا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ماں دو سال تک بچے کو دودھ پلاتی ہے پھر جب بچہ بولنے لگتا ہے تو والدین اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرتے ہیں۔ بچہ کی بلوغت کے بعد والدین کو اس کے نکاح کی بھی فکر لاحق ہوجاتی ہے، ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے اچھا رشتہ تلاش کریں۔ گویا والدین کی قربانیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔

والدین کی اپنی اولاد کے تئیں بے شمار قربانیوں کا تقاضا ہے کہ اولاد بھی بڑی ہوکر اپنے والدین کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے، ان کا خیال رکھے اور ان کے تمام حقوق کی رعایت کرے۔ اس لیے ارشاد باری ہے: ’’اور ہم نے انسان کو یہ تاکید کی ہے کہ وہ اپنے والدین کا حق پہچانے۔‘‘ (لقمان: ۱۴) والدین کے اولاد پر کیا حقوق ہیں؟ اسلام نے ان کی بھی وضاحت کی ہے تاکہ اولاد والدین کے تمام حقوق ادا کرسکے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۲۳) بھلائی میں خیر خواہی اور نیک سلوک شامل ہے یعنی ہر حال میں اولاد پر واجب ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھے انداز سے پیش آئے اور عمدہ سلوک کرے۔ حسن سلوک میں ماں کی زیادہ رعایت کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سلسلہ میں ایک تفصیلی حدیث موجود ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے معلوم کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ اس جواب کو سن کر سائل نے پھر پوچھا : پھر کون؟ حضور ﷺ نے فرمایا: پھر تیری ماں۔ اس کے بعد پھر سائل نے تیسری بار وہی سوال دہرایا:پھر کون؟ آپ نے تیسری بار بھی وہی فرمایا: پھر تیری ماں۔ سائل نے چوتھی بار آپ ﷺ سے وہی معلوم کیا پھر کون؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تمہارے والد، پھر تمہارے رشتے دار۔

مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن سلوک میں ماں کو پہلے تین درجات حاصل ہیں۔ اس کے بعد والد کا درجہ ہے۔ دراصل اگر اولاد کے سلسلہ میں والد اور والدہ دونوں کی قربانیوں پر نظر ڈالی جائے تو تین بڑی قربانیاں ایسی ہیں جو والدہ کو دینی پڑتی ہیں۔ (۱) بچہ کو نو ماہ تک پیٹ میں اٹھائے رکھنا (۲) ولادت کے وقت کی سخت تکلیف کو برداشت کرنا (۳) دودھ پلانا۔ اس کے علاوہ والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی زبردست تاکید اس لیے بھی کی گئی ہے کہ والدہ نرم دل اور زیادہ حساس ہوتی ہے، اپنی اولاد کی طرف سے کوئی معمولی بات بھی اس کے لیے پریشان کن ہوسکتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ والد کو نظر انداز کردیا جائے بلکہ والد کے ساتھ بھی حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے گا اور ان کے حقوق کی بھی رعایت کی جائے گی۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ سبحانہ و تعالی نے دونوں کے ساتھ ہر لحاظ سے اچھی طرح پیش آنے کا حکم فرمایا ہے۔

والدین کے حقوق کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرمایا گیا: ’’اور ان سے ادب و احترام کی بات کہو۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۲۳) یعنی گفتگو کے دوران اس بات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ والدین کے ساتھ ہمیشہ ادب و احترام پر مبنی بات کہی جائے۔ ہرگز ہرگز ایسی بات نہ کی جائے،جس سے ادب و احترام پر ضرب لگتی ہو، کیوںکہ والدین کے ساتھ اونچی آواز میں بات چیت یا بے مروتانہ گفتگو ان کے لیے تکلیف کا باعث ہوسکتی ہے، صحابی رسول حضرت ابوہریرہؓ نے ایک بار دو لوگوں کو دیکھا۔ دونوں میں سے ایک سے معلوم کیا کہ یہ دوسرے تمہارے کون ہیں؟ اس نے کہا: یہ میرے والد ہیں، آپ نے فرمایا: دیکھو، نہ ان کا نام لینا، نہ کبھی ان سے آگے چلنا اور نہ کبھی ان سے پہلے بیٹھنا، یہاں تک کہ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے: ’’ان دونوں کو اُف بھی نہ کہو۔‘‘

ماں باپ پر خرچ کرنا بھی ماں باپ کا بنیادی حق ہے۔ یعنی ان کے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، علاج و معالجہ اور ان کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے سے متعلق جو اخراجات ہوسکتے ہیں ان کی تکمیل بھی ضروری ہے۔ یہ کسی بھی صورت جائز نہیں کہ اولاد کمانے کے لائق ہوجائے اور والدین بوڑھے ہوجائے کہ کچھ کما نہ سکیں تو اس حال میں اولاد ان پر خرچ نہ کرے، بلکہ ایسے حالات میں تو خاص طور سے والدین کے اخراجات کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ ان سے کہہ دیجیے کہ تم جو مال بھی خرچ کرو، اس کے پہلے مستحق والدین ہیں۔‘‘ (البقرہ: ۲۱۵)

دعا کرنا بھی والدین کا حق ہے۔ یعنی اولاد پر لازم ہے کہ وہ اپنے والدین کے لیے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم و کرم فرمائے، ان کو شفا اور سلامتی عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور دعا کرو کہ پروردگار ان دونوں کے حال پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے بچپن میں میری پرورش فرمائی تھی۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۲۴)

غور کرنے کا مقام ہے کہ اسلام نے والدین کے تئیں اولاد پر جو حقوق متعین کیے ہیں، کیا موجودہ معاشرہ میں ان کو پورا کیا جارہا ہے؟ اس سے انکار ممکن نہیں کہ روئے زمین پر کتنے ہی اللہ کے نیک بندے ہیں، جو اپنے والدین کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ان کے حقوق کی رعایت کرتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں بڑے پیمانہ پر والدین کی ناقدری کی جارہی ہے۔ اگر والدین اور اولاد کے تعلق کو مغربی معاشرہ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو یہ تعلق انتہائی کمزور نظر آتا ہے، مغربی معاشرہ میں لوگوں کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ اپنے ماں باپ کو وقت دے سکیں۔ نحیف و کمزور والدین کے لیے مغربی ممالک میں ایسی جگہیں بنادی گئی ہیں جہاں انھیں تنِ تنہا زندگی گزارنی پڑتی ہے، انھیں اپنی اولاد کو دیکھے ہوئے، ان سے بات کیے ہوئے کئی کئی ہفتے، بلکہ کبھی کبھی کئی ماہ اور سال گزر جاتے ہیں۔ اولاد کو اس بات کی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنے بوڑھے والدین سے ملنے کے لیے چلے جائیں۔ ذرا غور کیجیے کہ والدین کے لیے یہ وقت کتنا کرب ناک ہوگا کہ اولاد ان کو ذرا وقت نہ دے سکے، ان سے بات نہ کرسکے، یہاں تک کہ ان کو اپنا دیدار تک نہ کراسکے۔ جب کہ اولاد والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں والدین کی خدمت کا رجحان بھی روز بروز کم ہوتا جارہا ہے، بلکہ وقت کے ساتھ اولاد اور والدین کے درمیان دوریاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ کتنے ہی لوگ اپنے والدین کو کھلانے پلانے میں لاپرواہی سے کام لیتے ہیں۔ کتنی ہی اولاد ایسی ہے جو سیدھے منہ اپنے والدین سے بات تک نہیں کرتی۔ بعض جدیدیت زدہ افراد والدین کی باتوں کو مسلسل نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور ان کی باتوں کو پرانے زمانے کی باتیں کہتے ہیں۔ یہ طرز تکلم یقینا والدین کے لیے باعثِ تکلیف ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے لوگوں کو والدین کے حقوق کی اہمیت سے روشناس کرایا جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ والدین اور اولاد کے درمیان قربت ہو، اولاد اپنے والدین کی فرماں بردار ہو اور ان کی باتوں پر چلنے والی ہو، اس میں اولاد کا بھلاہے کیونکہ یہ بات مسلم ہے کہ والدین تجربہ کار ہوتے ہیں اور انھوں نے دنیا کو بہت قریب سے دیکھا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی اولادکو بہتر ہی مشورہ دیں گے، پھر والدین کو راضی رکھنے میں اللہ بھی راضی ہوتا ہے اور والدین کو ناراض کرنے پر اللہ بھی ناراض ہوجاتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں