اولاد کے لیے دعا اور بَد دعا

قاری محمد فیوض الرحمن

بعض گھروں میں دعا اور بدعا کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی حالانکہ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ کے تمام کے تمام نبی اپنی اولاد کے لیے نیک دعائیں کیا کرتے تھے۔ اس کاتقاضا تو یہ تھا کہ والدین اپنی اولاد کے لیے اچھی دعائیں کرتے مگر بعض والدین اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے جگر کے ان ٹکڑوں کے لیے بددعائیں کرتے ہیں بالخصوص کچھ مائیں تو بات بات پر بدعائیں دیتی ہیں۔ وہ بھی ان ننھے منے بچوں کو جن کو ابھی نہ کوئی بنیادی شعور ہوتاہے اور نہ خود ان کی باتوں کو پورے طورپر سمجھنے کاسلیقہ۔ اور پھر بددعائیں بھی کیسی کیسی کہ پناہ ِخدا! اگر وہ اسی وقت قبول بارگاہِ الٰہی ہوجائیں اور ان پر پڑجائیں تو یہ مائیں بھی لرزہ براندام ہوجائیں جبکہ عموماً ایسا ہوتا بھی ہے کہ کبھی نہ کبھی ان بچوں کو والدین کی بددعائیں برباد کرڈالتی ہیں مگر اس کا احساس نہ والدین کو ہوتاہے نہ بچوں کو۔
حدیث شریف میں اسی بنا پر اولاد کے لیے بددعا کرنے کی ممانعت آئی ہے اور والدین کو سختی کے ساتھ روکا گیا ہے کہ وہ خود اپنے لیے بھی بددعانہ کریں اس لیے کہ خدا ناخواستہ اگر وہ قبولیت دعا کا وقت ہوا تو پھر پوری زندگی تباہ ہوکر رہ جائے گی۔
صحیح حدیث میں بنی اسرائیل کے جریحکا واقعہ نقل کیاگیا ہے کہ وہ ایک زبردست عابد تھے۔ انھوںنے الگ تھلگ اپنی عبادت گاہ بنا رکھی تھی ۔ جس میں دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ ایک دن ان کی والدہ ایسے وقت پہونچیں جب یہ بے چارے نوافل میںمشغول تھے۔ ماں نے نام لے کر آواز دی یہ آواز ان کے کان سے ٹکرائی بھی اور انھوںنے جان بھی لیاکہ یہ میری والدہ محترمہ کی آواز ہے مگر عبادت کی مشغولیت کی وجہ سے جواب نہ دے سکے۔ ان کی والدہ نے دستور کے مطابق تین مرتبہ پکارا جب جواب نہ ملا تو ان کی ماں کو غصہ آگیا اور اسی حالت میں یہ کلمات زبان سے نکل گئے۔
اللہم لا تمتہُ حتیٰ ینظر الی وجوہ المومسات
’’اے اللہ! اسے اس وقت تک موت نہ دے جب تک یہ زناکار عورتوں کامنہ نہ دیکھ لے۔‘‘
یہ کہا اور واپس ہوگئیں۔
عابد بیٹے پر ماں کی بددعا کااثر
خدا کا کرنا ایسا ہواکہ یہ دعا حضرت جریح پر پڑکر رہی۔ بنی اسرائیل میں ان کی عبادت کا شہرہ تھا اور وہ خود بڑے مقبول تھے۔ اس زمانہ کی مشہور حسینہ ان کی آزمائش کے درپے ہوگئی۔ اس نے ان کا پیچھا کیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کے شر سے محفوظ رکھا۔ آخرکار اس حسینہ نے ایک چرواہے سے اپنا منہ کالا کیا جو اسی گرجاگھر کے زیرسایہ رہتاتھا۔ اتفاق کی بات کہ اس فتنہ پرداز کو حمل ٹھہر گیا اور جب بچہ پیدا ہوا تو اس کم بخت نے عابد جریح کے سر الزام ڈال دیا۔ جونہی لوگوں کو اس کا علم ہوا انھوںنے بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے گرجا میں جاکر اس عابد کی اچھی خاصی مرمت کرڈالی اور گرجا کو مسمار کردیا۔
اس درویش باخدا نے گھبراکر لوگوں سے پوچھاکہ آخرماجرا کیاہے؟ تم سب پاگل بنے ہوئے ہو اور بغیر کسی قصور کے مجھے مارپیٹ رہے ہو۔ انھوںنے کہاکہ فلاں حسینہ کو بچہ پیدا ہوا ہے اور کہتی ہے کہ تمہارا ہے۔ انھوںنے کہاکہ نوزائیدہ بچہ کہاں ہے؟ اسے میرے پاس لے آئو، وہ لینے گئے۔ یہ نماز کی نیت باندھ کر خدا کے حضور کھڑے ہوگئے۔ نماز پوری کرچکے تو دیکھاکہ بچہ لایاجاچکاہے جو ابھی چند دنوں کا تھا۔ جریح نے بچہ کو مخاطب کرکے پوچھاکہ: ’’اپنے باپ کا نام بتادے‘‘ اللہ کی قدرت کہ اسے فوراً گویائی عطا ہوئی اور اس نے کہاکہ (فلاں نامی چرواہا) اس نوزائیدہ بچہ کا یہ بیان سن کر سارا مجمع سکتہ میں آگیا اور جریح کی اس کرامت سے بے حد متاثر ہوا۔ سب نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معافی چاہی اور اجازت چاہی کہ اس گرجا کو ہم سب مل کر سونے کا بنادیں۔ درویش نے کہا نہیں، جیساتھا ویسا ہی رہنے دو۔ ’’الادب المفرد‘‘ میں یہ بھی ہے کہ زانیہ کا نام سن کر جریح مسکرا اٹھے اور بعد میں لوگوں کے پوچھنے پر بتایاکہ یہ محترمہ والدہ صاحبہ کی بددعا کانتیجہ ہے، اور کچھ نہیں۔
غور فرمائیے کہ غصہ کی حالت میں ماں کی زبان سے جو بات نکل گئی تھی، وہ ایسے عبادت گزار بیٹے پر ایسی پڑکررہی اور انھوںنے محسوس کرلیاکہ ماں کی بددعا نے اسے اس مقام تک پہنچادیاہے۔
ماں باپ کی بددعا مقبول ہے
حدیث شریف میںصراحت کے ساتھ مذکور ہے:
ثلاث دعواتٍ مستجابات لہن لاشک فیہن دعوۃ المظلوم و دعوۃِ المسافر ودعوۃِ الوالدین علی والدیہ
’’تین دعائیں مقبول ہیں جن کی مقبولیت میں ذرا بھی شبہ نہیں۔ مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا اور ماں باپ کی بددعا اپنی اولاد کے لیے۔‘‘
مقام حیرت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے باوجود یہ والدین معمولی معمولی بات پر اپنی اولاد کو کوستے اور بددعا دیتے ہیں۔ اور ان کا مستقبل خود اپنے ہاتھوں سے تاریک بناکر ان کی تباہ حالی پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہیں۔
علامہ زمخشری پر ماں کی بددعا کا اثر
صاحب کشاف (مشہور عربی تفسیر کے مصنف) علامہ زمخشری کے بارے میںمنقول ہے کہ ان کا پائوں کٹا ہواتھا اور جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انھوںنے بتایاکہ ’’یہ ماں کی بددعا کا نتیجہ ہے۔‘‘
واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہاکہ میں نے بچپن میں ایک گوریا (چھوٹی سی چڑیا) پکڑی اور اس کے پائوں میں دھاگا باندھ دیا۔اس سے اس ننھی منی چڑیا کا نازک پائوں کٹ گیا۔ یہ دیکھ کر میری والدہ پر بے حد اثر ہوا، اور ان کی زبان سے نکل گیاکہ جس طرح تونے اس غریب کا پائوں کاٹا ہے تیرا بھی پائوں کاٹاجائے۔
اس طرح کے واقعات سے جاہل اور ناسمجھ والدین کو سبق لینا چاہیے اور اپنی بددعائوں سے معصوم اولاد کو محفوظ رکھنا چاہیے۔ غصہ کی حالت میں زبان پر کنٹرول کرنا چاہیے کہ وہ اولاد کے حق میں تباہ کن یا رسوا کن ثابت نہ ہو۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146