اولمپک2008

ترتیب وپیشکش: ادارہ

کھیل کے شائقین کو دو ارب ڈالر سے بھی زیادہ خرچ سے بیجنگ میں منعقد ہونے والے اولمپک کھیل گزشتہ ماہ اختتام کو پہنچ گئے اور چین نے یادوں کے رنگ برنگے گلدستوں کے ساتھ مہمانوں کو وداع کیا۔ یہاں کئی خواب حقیقت میں بدلے اور کتنے ہی دھول میں مل گئے۔ بیجنگ نے ان میں سے ہر ایک کو قاعدے سے چن کر اگلے میز بان لندن کے حوالے کردیا۔ ان کھیلوں کی ہر سانس میں چین ہی بسا تھا۔ جس ملک نے اولمپک میں اپنا پہلا گولڈ میڈل دودہائی پہلے ہی جیتا ہو اس کے لیے میڈل جیتنے والوں کی فہرست میں چوٹی پر رہنا ایوریسٹ کو چومنے کی طرح تھا۔ بیشک امریکہ کے مائیکل فیلیس نے واٹر کیوب اور جمیکہ کے یوسین بولڈ نے برڈس فلسٹ میں ہلچل مچادی لیکن ان کے فولادی ارادوں کو کامیابی کی زبان چین کی سرزمین نے ہی دی۔ میزبان ٹیم ۵۱ طلائی تمغوں کے ساتھ سرفہرست رہی۔ امریکہ دوسرے اور روس تیسرے نمبر پر رہا۔ بیجنگ کے اولمپک ولیج میں ۱۶ دن تک ہوئے ۳۸ مقابلوں میں ۲۰۵ ممالک کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ کل ۳۰۲ گولڈ میڈیلز کے حصول کے لیے میزبان چین نے کھیلوں کے آغاز میں ہی برتری حاصل کرلی جو کھیل کے اختتام تک برقرار رہی۔ چین نے ۵۱ طلائی، ۲۱ نقرئی اور ۲۸ کانسے کے تمغوں کے ساتھ کل ۱۰۰ تمغے حاصل کیے۔ امریکہ نے ۳۶ طلائی تمغوں کے ساتھ دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ۳۶ طلائی، ۳۸ نقرئی اور ۳۶ کانسوں کے تمغوں کی کل تعداد ۱۰۰ رہی۔ روس نے ۲۳ طلائی، ۲۱ نقرئی اور ۲۸ کانسے کے تمغوں کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کی۔ انگلینڈ نے ۱۹ طلائی، ۳۱ نقرئی، اور ۱۵ کانسوں کے تمغوں کے ساتھ چوتھی پوزیشن حاصل کی یہ اس کا سو سال میں اب تک سب سے بہتر مظاہرہ رہا ۔ ہندوستان نے بیجنگ اولمپک میں اب تک کی سب سے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طلائی اور دو کانسے کے تمغے حاصل کیے۔
۱۶ دن تک جاری رہنے والے بیجنگ اولمپکس میں میزبان چین نے ان کھیلوں پر عرصہ سے قائم امریکی برتری کا خاتمہ کرتے ہوئے پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔ ۲۰۰۸ء کے اولمپک مقابلوں کے آغاز سے پہلے ان کے انعقاد کے حوالے سے شکوک وہ شبہات کا اظہار کیا گیا تھا تاہم اب کہا جارہا ہے کہ یہ اولمپک کی جدید تاریخ کا سب سے بہتر مقابلہ ثابت ہوا۔ بیجنگ اولمپکس کئی اعتبار سے یادگار رہے گا۔ ایک جانب تو امریکہ کے تیراک مائیکل فلپس نے ان کھیلوں میں آٹھ طلائی تمغے جیت کر اپنے ہم وطن تیراک مارک سپٹنر کا ایک اولمپک مقابلے میں سب سے زیادہ میڈل جیتنے کا چھتیس سال پرانا ریکارڈ توڑ اس کے ساتھ ہی کل چودہ میڈل حاصل کرکے تاریخ کے سب سے کامیاب اولمپین بھی بن گئے۔
بیجنگ اولمپک میں ۱۱۱۹۶ ؍افراد نے شرکت کی جس میں ۴۷۴۶ خاتون کھلاڑی شامل تھیں۔ اختتامی تقریبات میں ۶۵ ملکوںکے پرچم کو خاتون کھلاڑیوں نے اٹھایا۔ یہ سب اولمپک کی تاریخ میں پہلی بار ہوا۔ اس سے قبل ۲۰۰۰ء کے سڈنی اولمپک کھیلوں میں کھلاڑیوں کی کل تعداد ۱۰۶۵۱ تھی۔ جبکہ خاتون کھلاڑیوں کی سب سے بڑی تعداد چار سال قبل ہوئے ایتھینس میں تھی اس میں ۴۳۲۹ خواتین نے شرکت کی۔
اس مرتبہ ۲۰۵ ملکوں کے کھلاڑیوں نے شرکت کی جو نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل یہ ریکارڈ ۲۰۱ تھا۔ بیجنگ میں ۸۷ ممالک کے کھلاڑی کوئی نہ کوئی تمغہ لے کر واپس لوٹے۔ ان میں ۷۱ ممالک کے کھلاڑی کم از ایک طلائی تمغہ جیتنے میں کامیاب رہے۔ ایتھینس میں ہوئے اولمپک کھیلوں میں ۷۵ ممالک کے کھلاڑی کوئی نہ کوئی تمغہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔
۸؍اگست سے ۲۳؍ اگست تک چلے بیجنگ اولمپک ۲۰۰۸ء کو ۴؍ارب ۴۰ کروڑ ناظرین نے دیکھا جو دنیا کی آبادی کا تقریباً دو تہائی ہے۔ ایک مشہور مارکیٹ ریسرچ فرم کے مطابق تاریخ میں یہ سب سے زیادہ دیکھا جانے والا اولمپک کھیل رہا۔ نلسن کمپنی نے میزبان چین ،امریکہ، جنوبی افریقہ، اٹلی اور آسٹریلیا سمیت قریب ۳۸ ممالک اور خطوں کے ٹی وی ناظرین سے یہ اعداد و شمار لیے۔
بہرحال ہر خوبصورت منظر کی ایک حد ہوتی ہے اس لیے بیجنگ اولمپک کو بھی ختم ہونا ہی تھا لیکن اس اولمپک میں چین نے جو کچھ کردکھایا ہے اس کی برابری کے لیے انگلینڈ کو لندن میں اونچی پرواز بھرنی ہوگی۔
اولمپک کھیلوں کی تاریخ
روایات کے مطابق زیوس (ZEUS) کے بیٹے ہرکلس (Heracles) نے اس کھیل کی بنیاد ڈالی اور پہلا اولمپک گیم ۷۷۶ ق م ہوا تھا۔ اس اولمپک گیم میں کوروبس (Crorebus) نے پہلی مرتبہ تاریخ میں دوڑ کے مقابلے میں جیت کا سہرا اپنے سر باندھا تھا۔ پرانا اولمپک گیم تقریباً ۱۲۰۰ سال تک ہر چار سال میں منعقد ہوتا رہا۔ لیکن ۳۹۳ء میں رومن بادشاہ تھیوڈوسس -I جو کہ ایک عیسائی مذہب کا ماننے والا تھا، اس نے اس کھیل کو ختم کردیا۔ پھر تقریباً ۱۵۰۰ سال بعد ایک فرنچ شخص Pierre de Coubertins نے اس کو روح بخشی۔ یہ شخص اب Le Renavalew کے نام سے جانا جاتا ہے۔ Coubetin’s کی یہ کوشش تھی کہ فرانس کے لوگ اسپورٹس میں دلچسپی لیں لیکن اس کو اس کوشش میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی۔ پھر بھی وہ اپنے موقف پر جما رہا۔ ۱۸۹۰ء میں اس نے ایک اسپورٹس آرگنائزیشن قائم کی جس کا نام Union des Societys Francaises de Sport Atheltiques (USFSA) تھا۔ ۲۵؍نومبر ۱۸۹۲ء کو پیرس میں USFSAکی میٹنگ میں Coubertinنے اولمپک کے فروغ دینے اور اس سے ہونے والے فائدہ پر گفتگو کی لیکن اس کی اس گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ تاہم اس نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ اور دو سالوں کے بعد ـCoubertin نے ایک میٹنگ کا انعقاد کیا۔ جس میں ۹ ممالک کے ۷۹ نمائندے تھے، اس میں اس نے اولمپک کے احیاء کے سلسلے میں پرزور انداز میں بات کی حیرت انگیز طور پر اس بار اس نے لوگوں کے اندر کی دلچسپی کو جگادیا۔ تمام نمائندوں نے ایک آواز ہوکر اولمپک گیم کے لیے ووٹ دئیے۔ نمائندوں نے یہ بھی طے کیا کہ گیم کو آرگنائز کرنے کے لیے Coubertin بین الاقوامی کمیٹی بنائے پھر یہی کمیٹی International Olympic Committee(IOC) بن گئی۔ یونان کے Demetrious Vikeles اس کے پہلے صدر منتخب کیے گئے۔ اور پہلا موڈرن اولمپک ایتھینس میں ۱۸۹۶ء میں ہوا۔
قدیم زمانے میں اولمپک کے کھیل دیکھنے والے تماشائیوں کے لیے نشستوں کا بھی کوئی انتظام نہ تھا۔ امراء اور معزز لوگوں کے لیے سنگ مرمر کے کچھ اسٹول کھڑے کردیے گئے تھے مگر چالیس ہزار تک عام تماشائی کھڑے کھڑے کھیلوں کا نظارہ کرتے تھے۔ باہر سے آنے والوں کے لیے آج کی طرح کوئی انتظام نہیں کیا جاتا تھا۔ اس قدیم عہد میں جیتنے والوں کے لیے سونے یا چاندی اور کانسے کے تمغے نہیں ہوتے تھے فقط زیتون کی کونپلوں سے بنا ہوا حلقہ ہوتا تھا۔ تاہم جن لوگوں کو یہ حلقہ بطور انعام حاصل ہوتا تھا وہ لوگ بڑی توقیر اور عزت کے حقدار سمجھے جاتے تھے۔ انہیں مقامی اسمبلیوں کے لیے منتخب کرلیا جاتا تھا اور وہ ریاست کے لاڈلے سپوتوں کی سی زندگی گزارتے تھے۔
اولمپک کھیلوں میں حصہ لینے والے ممالک کی تعداد قدیم زمبان میں ناقابلِ تصور تھی۔ یہ کھیل اصلاً یونانی تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں یونانی تہذیب کی حامل ریاست مقدونیہ کو صرف اس وقت ان کھیلوں میں شرکت کی اجازت دی گئی جب اس کے حکمراں نے ایک شجرہ نسب گھڑ کر پیش کردیا جو یونانی نیم دیوتا ہرکلس سے جاملتا تھا۔ پھر ان مقابلوں میں صرف مرد حصہ لیتے تھے اور عملاً ان کھیلوں میں صرف ایک عورت نے شرکت کی تھی اور وہ تھی دیوی دیمیتر کی راہبہ جو اپنے پر اسرار کرتبوں سے تماشائیوں کے دل موہ لیتی تھی۔
شروع میں اولمپک مقابلہ صرف یونانی نسل کے نوجوان شرفاء کے لیے مخصوص تھا بعد میں کم عمر لڑکے بھی شامل کیے جانے لگے۔ یونان کے زیر تسلط ریاستوں کے کھلاڑیوں کو بھی شرکت کی اجازت دے دی گئی۔ یونان کی مختلف ریاستیں آپس میں لڑتی رہتی تھیں۔ لیکن اولمپک کھیلوں کا وقت صلح کا دور متصور ہوتا تھا۔ اس عرصہ کے لیے جھگڑے ختم کردیے جاتے تھے۔ پانچویں صدی قبل مسیح اولمپک کھیلوں کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا۔ اس کے بعد یونانی سلطنت ٹوٹ کا شکار ہوگئی اور ان کھیلوں کا بھی زوال ہوگیا۔
۱۹ویں صدی میں پھر اس کی طرف رجحان بڑھا۔ اس کا مقصد دنیا بھر کے کھلاڑیوں میں صحت مندانہ مقابلہ کا جذبہ پیدا کرنا اور عالمی بھائی چارے کو فروغ دینا ہوتا ہے۔
قدیم اولمپک جھنڈا سفید کپڑے کا ہوتا ہے جس کے بیچ میں پانچ رنگین دائرے ہوتے ہیں، جھنڈے کی سلاخ طرف نیلا، زرد، سیاہ، سبز اور سرخ دائرے پانچوں براعظموں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ جھنڈا پہلے پہل ۱۹۲۰ء میں استعمال ہوا تھا۔ ساٹن کا بنا ہوا یہ اصل جھنڈا ہر دفعہ اولمپک کھیلوں کے موقع پر ایک میزبان شہر سے دوسرے میزبان شہر کو پہنچایا جاتا ہے۔ قدیم یونان میں اولمپک کھیلوں کے مقابلے چار سال کے وقفے سے منعقد ہوتے تھے۔ جدید اولمپک کھیل بھی چار سال کے وقفے سے ہوتے ہیں اگرچہ ۱۹۱۶ء ، ۱۹۴۰، اور ۱۹۴۴ میں عالمی جنگ کی وجہ سے یہ نہیں ہوسکے تھے۔
اولمپک مشعل
قدیم اولمپک کھیلوں میں جشن کا ایک اہم جزو یونانیوں کی مذہبی تقریب تھی۔ ان میں سے بعض تقریبات جدید اولمپک کھیلوں کے موقع پر بھی رسمی طور پر منائی جاتی ہیں۔ سب سے پہلے اولمپک مشعل روشن کی جاتی ہے۔ قدیم اولمپک کھیلوں کے جائے وقوع اولمپیا میں زیوس دیوتا کے مندر کے کھنڈرات میں سورج کی شعاعیں آتشی شیشے میں گزار کر ایک مشعل روشن کی جاتی ہے۔ یہ مشعل ایک نوجوان یونانی عورت کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو قدیم دیویوں کے سے لباس میں ملبوس ہوتی ہے۔ نوجوان یونانی عورت مشعل کو ایک نوجوان کے ہاتھ میں تھما دیتی ہے جو اسے لے کر دوڑنا شروع کرتا ہے۔ ایک مقررہ فاصلے تک دوڑنے کے بعد یہ مشعل دوسرے آدمی کو تھما دی جاتی ہے۔ اس مشعل کو ہر وقت روشن رکھا جاتا ہے اور حسب مواقع اسے بحری یا ہوائی جہاز کے ذریعہ منزل مقصود کے قریب پہنچایا جاتا ہے۔ یہاں سے پھر اسے لے کر دوڑنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے یہاں تک کہ آخری آدمی اسے لے کر عین افتتاحی تقریب کے موقع پر اسٹیڈیم میں داخل ہوتا ہے۔
جھلکیاں
٭ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ انڈیا ہاکی میں اولمپک کے لیے کوالیفائی نہیں کرپائی۔
٭ کیوبائی مکے باز ۴۰ سال میں پہلی بار گولڈ میڈل نہیں جیت پائے۔
٭ ۴۵ عالمی ریکارڈ اور ۱۲۶ اولمپک ریکارڈ بنے۔
٭ انڈیا کی طرف سے ابھنو بنڈا نے ۱۰ میٹر ائیر رائفل مقابلہ میں گولڈ میڈل جیتا اور ایسا ۲۸ سالوں بعد ہوا۔
٭ کشتی میں ۱۹۵۲ء ہیلسنکی اولمپک کے بعد انڈیا کے سشیل کمار نے بیجنگ اولمپک میں کانسہ میڈل جیتا۔
٭ بھوانی کے وجیندر نے مکے بازی میں کانسہ کا میڈل جیتا۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146