اونچے قد کا آدمی

بشریٰ رحمن

جھن جھن … جھناک… ٹرالی پر سے برتن گرے اور ٹوٹ گئے۔ فاخرہ نے جلدی سے آکر دیکھا، ارسلان ڈرائنگ روم سے ٹرالی گھسیٹ کر لانے کی کوشش کررہا تھا۔ ٹرالی کا پہیہ قالین میں پھنسا اور ارسلان میاں ٹرالی سمیت فرش پر آرہے۔ اس نے ارسلان کو بے تحاشا پیٹ ڈالا اور بولی:
’’کمینے! میں نے تجھے کتنی مرتبہ کہا ہے کہ بڑوں والے کام مت کیا کر… اور یہ برتن توڑنے والی بے ہودگی تو میں برداشت ہی نہیں کرسکتی۔ پیشتر اس کے کہ تجھے اس قسم کی کوئی عادت پڑے میں تیرے ہاتھ توڑ دوں گی۔‘‘
اس نے ننھے ارسلان کا کان مروڑا اور نظر اٹھا کر دیکھا تو اس کا شوہر، فیضان بڑے مزے سے صوفے پر بیٹھا سگریٹ پی رہاہ تھا۔ وہ سوچنے لگی: ’’اگر یہ چاہتے تو بچے کو ٹرالی گھسیٹنے سے منع کرکے نوکر کو آواز دے سکتے تھے یا مجھے بلا سکتے تھے… مگر یہ تو مزے سے بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ان کا اپنا ہی مشغلہ ہے… انہیںکیا جو نیا ٹی سیٹ تباہ ہوگیا یا بچے کو بے بھاؤ کی پڑگئیں۔‘‘
’’یہ توڑ پھوڑ کے جراثیم میں تیرے خون سے نکال دوں گی، سمجھے۔‘‘… فاخرہ پھر بیٹے کی طرف متوجہ ہوئی۔
یہ دیکھ کر کہ اس کی تقریر طویل ہورہی ہے، فیضان بیزاری سے اٹھا، سگریٹ کو راکھ دانی میں بجھایا اور کار کی چابیاں اٹھا کر بے نیازی سے باہر نکل گیا۔ اس کے اس طرح اٹھ کر چلے جانے سے فاخرہ کو طیش آگیا مگر اس میں کہاں جرأت تھی کہ پوچھ لیتی کہاں جارہے ہو؟
وہ کبھی مارے محبت کے پوچھ بیٹھتی تو وہ یوں غرا کر جواب دیتا جیسے انسانی خون کا رسیا ہو۔ اسے تو اس دن بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی جب شادی ہوئے تیسرا دن تھا اور فاخرہ نے حسبِ معمول ڈرتے ڈرتے چائے بناکر اس کے پاس رکھ دی تھی۔ ایک گھونٹ حلق سے اتارتے ہی وہ رات کی ساری باتیں بھول گیا اور لات مار کر ٹرالی دھرے سارے برتن گرادیے۔ گھبرائی ہوئی فاخرہ غسل خانے سے باہر نکل آئی۔
’’کیا ہوا…؟‘‘ وہ سخت خوفزدہ تھی۔
’’یہ ناز نخرے یہاں نہیں چلیں گے بیگم صاحبہ۔‘‘ وہ انتہائی خوفناک چہرہ بناکر بولا۔
’’مگر ہوا کیا…؟‘‘
’’ایسی بدمزہ چائے میں نے آج تک نہیں پی۔ کچے پانی میں پتی ملا کر دینا آپ ہی کے خاندان کا دستور ہوگا۔ اب بھول جائیے کہ آپ چیف انجینئر صاحب کی اکلوتی صاحب زادی ہیں اور جہیز میں بہت کچھ لے کر آئی ہیں، یہاں تو گھر کا سارا کام کرنا پڑے گا۔ میں ان مردوں میں سے نہیں ہوں جو خالی ڈگریوں سے بہل جاتے ہیں۔‘‘
وہ جھپاک سے غسل خانے میں گھس گئی۔ آنکھوں میں موجزن آنسو وہ اسے دکھانا نہیں چاہتی تھی اور اس صدمے کو چھپانا بھی چاہتی تھی۔ اس نے تو کبھی نہیں سنا تھا کہ نئی نویلی دلہنوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں اوردلہن بھی ایسی کہ اگر اس پر نگاہ پڑ جائے تو دل دھڑکنا بھول جائے۔
مگر صحیح معنوں میں گربہ گشتن روز اول تو اس سے دو روز پہلے ہوا تھا جب شب عروسی گزار کر وہ صبح صبح لجائی شرماتی بستر پر بیٹھی تھی تو اس نے آکر کہا: ’’کس انتظار میں بیٹھی ہو۔ یہاں کوئی چائے بناکر نہیں لائے گا۔ نوکر امی کو چھوڑنے گاؤں چلا گیا ہے۔ شاید وہ ان کے پاس ہی ٹک جائے، کیونکہ ان کی طبیعت خراب رہتی ہے۔ آج سے تم اس گھر کی مالکن ہو۔ اٹھو ناشتا بناؤ، خود بھی کھاؤ اور مجھے بھی دو… ہاں ایک بات یاد رکھنا : میں صبح چھ بجے چائے پینے کا عادی ہوں۔‘‘
وہ اس کی شکل دیکھتی رہ گئی، اتنے میں وہ باہر سے اخبار اٹھا لایا اور مزے سے منہ موڑ کر پڑھنے میں مگن ہوگیا۔
پھر بات بات پر برتن ٹوٹنے لگے… اگر سالن بدمزہ ہوتا… قمیص میں بٹن ٹکا ہوا نہ ہوتا… ریزر دھلا ہوا نہ ہوتا… بنیانیں صاف نہ ہوتیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان سارے کاموں کی عادت رفتہ رفتہ پڑتی ہے، پھر فاخرہ کے گھر میں اس کا کوئی بھائی تھا نہ بہن، پاپا کے ایسے کام کون کرتا ہے، اس نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا۔ جانے ممی کب کردیتی تھیں یا کروادیتی تھیں لیکن یہاں بات بات پر سرزنش ہورہی تھی اور مزے کی بات یہ تھی کہ پاپا نے خود ان صاحب کو سرفراز فرمایا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ایسے لڑکے مستقبل میں بہت ترقی کرتے ہیں۔یوں خاندان کے بہت سارے لڑکے ٹھکرا کر انھوں نے فاخرہ کی شادی اپنے ایک جونیئر افسر سے کردی تھی۔
لیکن یہ جونیئر افسر تو اس کے لیے جابر حکمراں بن بیٹھا تھا۔ کبھی کبھی محبت کروانے کو نہیں، کرنے کو جی چاہتا ہے۔ کسی کو چاہنے کو… اپنانے کو … اپنا تن من اس پر وارنے کو … اپنی ہستی اس پر نچھاور کرنے کو اور عورت تو ازل سے ہی لٹانے کو، وارنے کو اور مٹ جانے کو بنی ہے۔
لیکن وہ ظالم اس کی بھی کہاں مہلت دیتا تھا جیسے اسے نہ کچھ لینا ہے اور نہ کچھ دینا۔ گھر میں ایک ننھے مہمان کی آمد کے آثار پیدا ہوئے تو فاخرہ کی زندگی پہلے سے بوجھل اور سوگوار ہوگئی۔ ایک عجیب سی قنوطیت، سستی اور یاسیت اس کے وجود پر طاری رہتی۔ وہ جانتی تھی ان دنوں میں ایسا ہوتا ہی ہے مگر ایسے ہی وقت دل دہی اور دل داری کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ صرف لعل و جواہر ہی سے جی نہیں بہلتا، بعض اوقات تسلی کے دو میٹھے بول بھی پل صراط پر سے گزرجانے کا حوصلہ بخشتے ہیں۔ اسے یوں چپکے چپکے روتا دیکھ کر کبھی وہ ذرا رکتا اور پھر کہتا ’’تم پڑھی لکھی ہو، سمجھدار ہو، آج کل کتابیں خرید کر پڑھا کرو۔ اس سے تمہارا علم بھی وسیع ہوگا اور وقت بھی گزرجائے گا۔ اب تم ایک ذمے دار ماں بننے والی ہو۔‘‘
’’ہاں، ماں ہمیشہ ذمے دار ہوتی ہے، صابر ہوتی ہے، شاکر ہوتی ہے، درد سے بھری ہوئی ایک لے ہوتی ہے۔ تم اسے لوری کہہ لو… مدھ بھرا راگ کہہ لو… سکھ اور شانتی کی چھایا سمجھ لو کہ وہ ایک خوبصورت پڑاؤ کی امین ہوتی ہے۔‘‘ فاخرہ نے سوچا۔
ارسلان، کنعان اور مینا تینوں اوپر تلے آتے چلے گئے تو آپ ہی آپ اس کی زندگی کا ایک چلن بن گیا۔ لیکن کبھی کبھی تھک ہار کر وہ سوچا کرتی تھی ’’افوہ! یہ شادی تو محض روٹی کپڑے کے عوض ایک عمر قید ہے۔ آج بھی ہمارے ملک کی عورت کے پاس کوئی تحفظ نہیں، ورنہ یہ مرد اچھی خاصی پڑھی لکھی لڑکیوں کو گھروں میں یوں پامال نہ کریں۔ تحفظ اگر کوئی ہے تو وہ میکے میں ہے۔ امیر گھرانوں کی لڑکیاں خوب دھونس دھاندلیاں جماتی ہیں، روٹھ روٹھ کر ماں کے گھر جابیٹھتی ہیں۔ امیر باپوں نے وظیفے مقرر کررکھے ہوتے ہیں تبھی تو داماد ہاتھ باندھے غلام نظر آتا ہے اور دم دبائے ان کے پیچھے پیچھے پھرتے رہتے ہیں۔‘‘
اور یہاں … سب کچھ ہونے کے باوجود پاپا نے شادی سے پہلے کس خوبصورتی سے اسے سب کچھ جتا دیا تھا کہ اب وہ جس گھر میں جارہی ہے، وہی اس کا ’گھر‘ ہے۔
زندگی میں کئی موقعے ایسے آئے جب اس کا بے اختیار دل چاہتا تھا کہ پاپا کے پاس چلی جائے، ممی کی گود میں سما جائے مگر اس نے نہایت کرب سے گزر کر ہمیشہ اپنے جی کو روکا۔ اگر پاپا نے دھونس نہ دی ہوتی اور ممی نے کلیجے سے لگالیا ہوتا تو وہ اس ستم شعار کے پاس واپس آنے کا نام ہی نہ لیتی۔ فاخرہ کے والدین کے گھر کسی بھی شے کی کمی نہیں تھی مگر جب بھی پندرہ بیس دن بعد وہ ایک دن کے لیے وہاں جاتی، پاپا اس کی اداس آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش ہی نہ کرتے۔ بس اس کی اطلاع پاکر کھڑے کھڑے اندر آجاتے، اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے اور کہتے ’’اچھی تو ہے ہماری بیٹی!‘‘
وہ ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ سر جھکا لیتی جو پاپا کے فیصلے کے بعد خود بخود جھک گیا تھا اور ممی بھی تو جیسے اس کی آنکھوں میں جھانکنا بھول گئی تھی۔
البتہ بچوں سے دونوں نانا، نانی والہانہ پیار کرتے، بچوں کو بلا کر اپنے پاس رکھتے، دنیا جہان کی چیزیں انہیں خرید کردیتے… مگر اس کے لیے کیسے انجان تھے؟
اور پھر والدین کے بعد … سچے پیار کا منبع وہ شوہر کو سمجھتی تھی۔ اپنی تمام تر صداقت اور عظمت کے باوجود، ماں باپ کا رشتہ بیچ راہ میں ٹوٹ جاتا ہے اور پھر اٹل اور ہمیشہ رہنے والا رشتہ شوہر کا ہوتا ہے۔ اگر محبت درمیان میں ہو تو یہی رشتہ دنیاکا خوبصورت ترین ناتا بن جاتا ہے، قرب ہی اس رشتے کا تقدس ہے۔
مگر یہ کیسا قرب تھا کہ جس میں اسے فاصلے ہی فاصلے نظر آتے تھے۔ وہ اکثرسوچتی کہ فاصلے فیضان کے پیدا کردہ ہیں یا اس کی اختراع…
سوچ سوچ کر وہ اپنے آپ میں لوٹ آئی تھی۔ ویسے وہ اس کی حکم عدولی کرنا پسند نہیں کرتی تھی، نہ اسے خفا کرنے کا اس میں حوصلہ تھا۔ وہ جب آواز دیتا تو یوں جیسے اپنی باندی کو بلارہا ہو۔
’’فاخرہ…!‘‘ اس کا لہجہ کس قدر کھردرا، سپاٹ اور رعب دار ہوتا۔
کبھی کبھی اس کا جی چاہتا کہ اس کے لہجے کو پیا رکی شیرینی چھو جائے اور وہ فاخرہ سے فخری بن جائے۔ ننھی سی بچی… اس کے بازوؤں میں مچل جانے والی۔ اس کے کاندھے پر سر رکھ کر سوجانے والی… شادی کے بعد کتنی بے شمار باتوں پر صبر کرنا پڑتا ہے، تبھی گھر کی بڑی بوڑھیاں بات بات پر کہتی ہیں ’’اگلے گھر جاؤ گی تو پتہ چلے گا۔‘‘
کیا پتہ چلے گا، اس بات پر وہ اور اس کی سہیلیاں اکثر ٹھٹھے لگایا کرتی تھیں… چاہنے کو ایک شوہر ہوگا، کھانے کو بہترین کھانا، پہننے کو اعلیٰ ترین کپڑا، اپنا گھر، آزادی اور سب مزے۔
مگر بڑی بوڑھیاں حقیقت میں جوان لڑکیوں کو بددعا دیتی ہیں کیونکہ ان کی اپنی جوانی تو ڈھل چکی ہوتی ہے نا… کہ ایک پل بھی خوشی کے لیے نہ جیو … پاجامہ نہ پہنو کہ تمہارے شوہر کو اچھا نہیں لگتا… خواہ تم اس میں اپسرا لگو۔ جوڑا نہ لگاؤ کہ انھیں مصنوعی لگتا ہے۔ آئی شیڈ نہ استعمال کرو، یہ خالص ادا کاراؤں کا فیشن ہے۔ بازو اور پیٹ ننگا نہ کرو کہ انھیں غیرت آتی ہے، دوسرے مرد دیکھ نہ لیں۔ ہاں یہ خود چاہے سارا دن دوسری عورتوں کو نظر بھر بھر کے دیکھتے رہیں۔
’’آخر مردوں کو اچھا کیا لگتا ہے؟‘‘ ایک دن وہ جل کر اس سے پوچھ بیٹھی۔
’’شریف عورت!‘‘
’’میں لباس کے بارے میں پوچھ رہی ہوں۔‘‘
’’صحیح لباس ہی کو شریف عورت کہتے ہیں۔‘‘
’’صحیح لباس کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’جس میں عورت صرف عورت نظر آئے، اشتہار نہ نظر آئے۔‘‘
’’یہ جو اتنے بے شمار کپڑے میری امی نے جہیز میں دیے ہیں اور آپ بھی بری میں لائے تھے ان کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’تسلی کے لیے اپنے پاس رکھو۔‘‘
’’صرف تسلی کے لیے؟‘‘
’’اچھا پھر دوسری عورتوں کی طرح تم بھی خود نمائی کرو اور روز ایک جوڑا پہن کر بازار چلی جایا کرو۔‘‘
’’اچھا، جدید لباس پہننا خود نمائی ہے!‘‘
’’بالکل … ورنہ عورت کے لیے تو موزوں لباس وہی ہے جس میں وہ اپنے شوہر کو اچھی لگتی ہے۔‘‘
’’اچھی لگے تب نا؟… بات تو اچھی لگنے کی ہے!‘‘
مگر وہ اس کا جواب ہی نہ دیتا… رسالہ اٹھا کر منہ دوسری طرف پھیر لیتا۔
اس انداز پر وہ جل جاتی۔
کبھی کبھی جب وہ اپنی پرانی سہیلیوں سے ملتی تو پھر اس کے ادھورے سپنے جاگنے لگتے، نہ چاہتے ہوئے بھی، رات کو سوتے وقت وہ ایسی بات کہہ جاتی ’’آپ کو معلوم ہے فریحہ کے میاں کا حیدرآباد تبادلہ ہوگیا ہے۔‘‘
’’اچھا … کب جارہا ہے وہ…‘‘
’’وہ تو کہہ رہا تھا پہلے گھر کا بندوبست ہوگا پھر وہ فریحہ کو ساتھ لے کر جائے گا۔‘‘
’’کیوں … کیا وہ اپاہج ہے۔‘‘
’’خدا نہ کرے… آخر آپ کسی سے اتنا حسد کیوں محسوس کرتے ہیں۔‘‘
’’اس میں حسد کی کون سی بات ہے ۔ تم نے کہا کہ وہ فریحہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا… میں نے سمجھا ہوگی کوئی ایسی ہی مجبوری۔‘‘
’’جی ہاں… اتنے ہی تو آپ معصوم ہیں۔ آپ کو یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ وہ ایک دوسرے سے اس قدر محبت کرتے ہوں گے۔‘‘
’’محبت کرنے کے لیے تو ذرا فاصلے پر رہنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘
’’محبت کے لیے یا نفرت کے لیے …‘‘
’’دونوں کے لیے …‘‘
اور اس کی بقیہ رات روتے ہوئے گزرجاتی۔
پھر کسی دن کوئی احساس جاگ اٹھتا تو وہ کہتی ’’آپ کو معلوم ہے فائزہ کا میاں اسے اتنا چاہتا ہے کہ جب صبح دفتر جاتا ہے تو وہاں سے دل کی شکل کے شامی کباب چپراسی کے ہاتھ فائزہ کے لیے بھیجتا ہے۔‘‘
’’کیا وہ ہوٹل میں کام کرتا ہے؟‘‘
’’مجھے معلوم تھا آپ جل جائیں گے۔‘‘
’’اس میں جلنے والی کون سی بات ہے۔ میں کوئی اس کی بیوی کا کرائے کا عاشق تو نہیں ہوں۔ اگر وہ ہوٹل میں کام نہیں کرتا تو پھر اتنے اہتمام سے وہ کس سے کباب بنواتا ہے اور اسے گھر بھیجنے کی فرصت کیسے مل جاتی ہے۔‘‘
’’مجھے کیا معلوم…؟‘‘ وہ جھلا اٹھتی ’’کسی ریستوران وغیرہ سے بنوالیتا ہوگا۔‘‘
’’مگر کیوں؟… کیا اس کی بیوی کھانا نہیں پکاسکتی؟‘‘
’’جناب! یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ اسے اپنی بیوی سے اتنی محبت ہے کہ دفتر میں بھی برابر اس کا دھیان رہتا ہے۔‘‘
’’یا اس احتیاط کی خاطر کہ اس کی بیوی کو معلوم نہ ہو جائے کہ وہ دفتری اوقات میں کیا کرتا رہتا ہے۔‘‘
’’اور آپ کو تو جیسے معلوم ہے۔‘‘
فیضان اتنی زور سے ٹھٹھا لگا کے ہنستا کہ اسے اپنی سبکی محسوس ہونے لگتی۔
’’اس میں ہنسنے والی کون سی بات تھی؟‘‘
’’یہ بات تم عورتوں کی سمجھ سے بالا ہے…‘‘
اف! اس کا یہ احساس برتری … جوہر بار اس کی انا کو پاؤں تلے روند دینا تھا۔
’’جی ہاں! آپ کے پاس جب دلائل ختم ہوجائیں تو آپ عورت کو ناقص العقل ثابت کرنے ہی پر سارا زور بیان صرف کیا کرتے ہیں۔‘‘
’’اب تمہیں یہ کیسے بتاؤں … کہ … ممکن ہے یہ شامی کباب دفتر میں اس کی سہیلی بناکر لاتی ہو۔‘‘
’’کیا سہیلیاں دفتروں میں بھی آیا کرتی ہیں؟‘‘
’’جی ہاں… دفتروں میں بھی آیا کرتی ہیں۔‘‘
’’کیا ہر مرد دفتر میں سہیلیوں کا بندوبست کئے ہوتا ہے؟‘‘
’’اس کے متعلق کیا کہا جاسکتا ہے؟‘‘
وہ منہ پھیر لیتی اور جلنے اور کڑھنے کا دور شروع ہوجاتا۔ کس قدر ظالم اور سفاک تھا یہ شخص! اظہارِ محبت تو کیا تسلی کے لیے جھوٹ بھی نہیں بول سکتا تھا۔
یہی کہہ دیتا کہ بھئی ہر آدمی کی سہیلی نہیں ہوتی تو اس کا کیا جاتا! مگر وہ بیوی کو کیا سمجھتا تھا… یہی فاتر العقل قسم کی کوئی ادنیٰ سی شے… کہ جس کے ساتھ ضرورت سے زیادہ بات کرنا بھی جرم ہوتا ہے… کہاں ہیں محبت کے وہ گوناں گوں اظہار جو شوہر وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔
’’اف اللہ…‘‘ وہ سوچتی، یہ بھی کس قدر عجیب تعلق ہوتا ہے کہ ہزار نفرتوں اور ناچاقیوں کے باوجود شوہر اور بیوی کا رشتہ اپنی جگہ ویسے کا ویسا رہتا ہے۔ نہایت سنگین لڑائی ہوچکی ہو… کیسی بھی قسمیں کھائی جاچکی ہوں… ایک دوسرے کی صورت نہ دیکھنے کا عہد کرلیا ہو تو پھر بھی اندر ہی اندر ایک انجانا سا … غیر محسوس سا… مگر مضبوط سا تعلق اپنی جگہ برقرار رہتا ہے … کہیں بھی چلے جاؤ شمع کے مانند یہ تعلق روشن رہتا ہے… منہ موڑ لو تو بھی روشنی کی لکیر کہیں نہ کہیں سے در آتی ہے۔ بے نیاز بننے کی کوشش کرو تو بھی بنا نہیں جاتا… اس تعلق کو سمجھ بوجھ کر توڑنا چاہو تو کبھی بچے راہ میں آجاتے ہیں اور کبھی وہ میٹھا درد جو ایک دوسرے کے نام سے دل کے نہاں خانے میں ہوتا رہتا ہے۔‘‘
لیکن آج کا غصہ کسی اور نوعیت کا تھا۔ یوں تو عرصہ ہوا وہ اس کی کج ادائیوں کی عادی ہوچکی تھی، اپنے حالات میں ڈھل گئی تھی… اور اس کی خوشنودی کو اللہ کی رضا اور اپنا ایمان سمجھ بیٹھی تھی پھر بھی کبھی کبھی کوئی ایسی بات ہوجاتی کہ نئے سرے سے اپنا تن من جلانے کا جواز مل جاتا۔
صبح دفتر جاتے ہوئے فیضان نے کہا تھا ’’دہلی سے میرا دوست نواز آرہا ہے۔میرا بہت پرانا دوست ہے۔ شادی کے وقت باہر گیا ہوا تھا۔ پہلی مرتبہ یہاں آرہا ہے اور آکر ہمارے گھر ٹھہرے گا۔‘‘
وہ خاموش رہی۔
’’سن رہی ہونا؟پہلی مرتبہ آرہا ہے اور …‘‘
’’ہاں مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ یہی نا کہ آپ کے دوست بہت لاڈلے اور دلارے ہیں، بیوی بچوں سے پیارے ہیں، مجھے اس کے ناز نخرے اٹھانے ہوں گے اور ہر طرح کا خیال رکھنا ہوگا۔ کوئی تکلیف نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ پہلے بھی بہت دفعہ لیکچر سن چکی ہوں۔‘‘ وہ طنز سے بولی۔
’’بس یہی عورتوں میں خامی ہوتی ہے۔ خود سے نتیجہ اخذ کرلیتی ہیں پھر کہتی ہیں ہماری عقل پر بھروسا نہیں کیا جاتا۔‘‘
’’تو فرمائیے۔‘‘
’’میں کہہ رہا ہوں میرا یہ دوست ذرا اور طرح کا ہے۔ ویسے ادھر ہی رہے گا۔‘‘
’’جی …؟‘‘
اس نے جب حیران سی نظر اٹھائی تو وہ جاچکا تھا۔ یہ اور طرح کا کیا ہوتا ہے۔ کافی دیر سوچنے کے بعد اسے غصہ آنے لگا اوراگر یہ اور طرح کا ہے تو اسے گھر میں رکھنے کا فائدہ؟
لیکن فیضان نے کب اس کے بگڑے ہوئے موڈ کی پروا کی… گاڑی لے کر جو باہر گیا تو کوئی رات کے گیارہ بجے واپس آیا، اس وقت اس کا دوست نواز ساتھ تھا۔ مہمان خانہ اس نے ٹھیک کردیا تھا، وہیں پر ان کا کھانا بھجوادیا اور خود منہ لپیٹ کر سورہی۔ فیضان کب آیا اور کب سویا اسے علم نہیں۔
دوسرے دن اس نے کہا ’’میرا پلنگ بھی نواز کے کمرے میں بھجوادو۔‘‘
یہ بہت بڑا تازیانہ تھا اس کے لیے، کوئی آدمی اپنے دوست کو اس حد تک اہمیت دیتا ہے؟ فاخرہ برداشت نہ کرسکی۔ جوابی کارروائی کے طور پر اس کے دوست کے سامنے ہی نہیں گئی، نہ فیضان سے باز پرس کی۔
رات کے بارہ بجے ہوں گے، بچے سوچکے تھے۔ باہر کی سب بتیاں گل تھیں۔ وہ دونوں کھانا کھانے کے بعد گپ لگا رہے تھے کہ فاخرہ سے نہ رہا گیا، چوروں کے مانند ننگے پاؤں آہستہ آہستہ ایڑیاں اٹھا کر چلتی ہوئی دروازے کے باہر جاکر کھڑی ہوگئی۔
باتوں کی آواز صاف آرہی تھی۔
’’یار ایک ہفتے سے مجھے بور کررہے ہو۔ میں تو چھٹی لے کر ذرا تازہ دم ہونے کو یہاں آیا تھا۔‘‘ نواز کہہ رہا تھا۔
’’تمہیں تازہ دم ہونے سے کون روکتا ہے بھئی۔‘‘ فیضان کی آواز آئی۔
’’مگر پہلے کی طرح تمہارا ساتھ ہونا بھی ضروری ہے۔‘‘
’’اب نہیں…‘‘
’’کیوں نہیں، میں تو تہیہ کرکے آیا ہوں کہ تمہارا روزہ کھلوا کر ہی جاؤں گا۔‘‘
’’تمہارا خیال غلط ہے نواز!‘‘
’’میں نے تو سارا بندوبست کرلیا ہے۔ آج رات ہوٹل میں دو کمرے بک ہیں۔ ایک تمہارے لیے اور …‘‘
’’زیادہ تمہید باندھنے کی ضرورت نہیں نواز۔ میں جب نہیں کہتا ہوں تو اس کا مطلب نہیں ہو تا ہے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو۔‘‘ فیضان نے بات کاٹتے ہوئے جواب دیا۔
’’عجیب بے وقوف اور دبو قسم کے آدمی ہو تم۔ اب ایسے ہی ان بے وقوف گھریلو عورتوں سے ڈرتے رہے تو زندگی کے چار دن بھاڑ میں چلے جائیں گے… یہ چار دن جو جوانی کے ہیں۔‘‘
’’چار دن وہ تھے جو گزرگئے۔‘‘
’’مگر تب تو تم بڑے موجی آدمی تھے۔‘‘
’’ہاں شادی سے پہلے کی بات ہی اور ہوتی ہے۔‘‘
’’چھوڑو اس بے ہودہ فلسفے کو، جب ہم ان عورتوں کو گھر کی سب آسائشیں اور آرام دیتے ہیں تو انھیں ہماری نجی زندگی میں دخل اندازی کا حق نہیں پہنچتا۔‘‘
’’آرام اور آسائشیں ثانوی باتیں ہیں اور میاں بیوی کی محبت ایک الگ شے ہے۔‘‘
’’اوہو تو تم مجھے یہ بتانے کی کوشش کررہے ہو کہ تمھیں اپنی بیوی سے محبت ہے۔ بھئی محبت کسے نہیں ہوتی اپنی بیوی سے… تھوڑی بہت مجھے بھی ہے… مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنے دوسرے حقوق سے دستبردار ہوجائیں۔‘‘
’’محبت کا ایک اصول بھی ہوتا ہے۔ محبت کی ایک تقدیس بھی ہوتی ہے اور میں اپنی بیوی کا بہت احترام کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں وہ میرے لیے کیا ہے مگر کبھی اسے کہنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔‘‘
’’بھئی اسے تو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔ میرا ذمہ لے لو…‘‘ نواز بولا ’’یہ کیا کہ زندگی ایک خاتون سے آگے نہ بڑھے… کیا جوانی میں پیغمبر بننے کاارادہ ہے۔‘‘
فیضان ایک دم سے کھڑا ہوگیا۔ اس نے ایک زوردار جمائی لی اور بولا:
’’بھائی تم جاسکتے ہو۔ شاید میں تمھیں قائل نہ کرسکوں، شادی میں جب محبت شامل ہوجاتی ہے تو اس کے معنی بدل جاتے ہیں۔ پھر اس خاموش بندھن کو داغ دار نہیں کیا جاسکتا۔ اپنے اپنے احساس کی بات ہے، یہ کسبیاں تو سبھی ایک سی ہوتی ہیں، البتہ محبوبہ کی صورت ذرا مختلف نظر آتی ہے اور میں صرف گوشت پوست کا بیوپاری نہیں۔ تمہیں یہ باتیں سمجھ میں نہیں آئیں گی۔ اور ہاں وہ جو پیسے تم ادا کرچکے ہو مجھ سے لے جاؤ، میں ایک دوست کو زیر بار نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
نواز نے آگے کیا کہا… فاخرہ نے کچھ نہیں سنا، وہ تو سرپٹ اپنے بیڈروم کی طرف بھاگ گئی۔ تینوں بچے سو رہے تھے، بتی جلا کر وہ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یونہی گھبرائی ہوئی ملحقہ کمرے میں گھس گئی۔ کانپتے ہاتھوں سے بتی جلائی… جھن… جھن … جھناک… اس کے وسوسوں کے سارے خیالی بت اوندھے منہ گرگئے۔ اس کے تن من میں بھونچال سا آگیا۔
اور اس کے ساتھ آنسوؤں کی طغیانی آگئی۔
اتنی بڑی بات کو برداشت کرنے کے لیے بہت حوصلے کی ضرورت تھی۔ اور اس خوشی کو سنبھالنے کے لیے بہت بڑا دل چاہیے تھا۔
وہ دیوانہ وار قہقہے لگائے یا پھوٹ پھوٹ کر روئے … وہ فیصلہ نہیں کرسکی مگر امنڈ کر آنے والے آنسوؤں کو اس نے دعا کے مانند اپنی دونوں ہتھیلیوں پر تھام لیا۔
تھوڑی دیر بعد فیضان اس کو ڈھونڈتا ہوا ملحقہ کمرے میں آگیا۔ ’’فاخرہ … کیا کررہی ہو یہاں؟‘‘ وہ عین اس کے پیچھے آکر کھڑا ہوگیا۔
فاخرہ کچھ نہیں بولی، اس کے چہرے پر آنسو ہی آنسو تھے حتیٰ کہ آنسوؤں کی نمکین لکیروں نے اس کے ہونٹ سی رکھے تھے۔
وہ پیچھے کھڑا تھا، یوں وہ پہلے بھی اس سے زیادہ قریب ہوا کرتا تھا مگر آج فاخرہ کو یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے وہ دلہن بن کر پہلی بار اس کے گھر آئی ہے، دل کچھ ویسے ہی انداز میں دھڑک رہا تھا… زبان کچھ ویسے ہی انداز میں گنگ تھی… سارے جسم پر کچھ ویسا ہی ہیجان اور کپکپی طاری تھی… اور اس کی شخصیت کا دھیما سینک اس کے روئیں روئیں کو حدت بخش رہا تھا۔
’’فاخرہ… ‘‘ اس نے اپنے پرانے انداز میں پکارا۔ اس کی آواز تو ویسی ہی تھی جیسے وہ شروع دن سے بلا رہا تھا… غرور، غصہ، رعب، حکمرانی مگر آج اسے اس آواز میں پیار کی مٹھاس بھی محسوس ہوئی۔
یہ جان کر کہ وہ کسی بات پر رورہی ہے، فیضان نے آہستہ سے اس کی گردن کو چھوا… ان گنت جگنو جیسے اس کے انگ انگ میں جل اٹھے، تین بچوں کی ماں اس لمس کی تاب نہ لاسکی۔ وہ تڑپ کر مڑی…
سوچا تو اس نے یہ تھا کہ اس کے سینے سے یوں لگ جائے گی… سما جائے گی… فنا ہوجائے گی تاکہ جنم جنم کے گلے دھل جائیں مگر جب فاخرہ نے اپنی آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے لمحہ بھر کو اپنے مجازی خدا کے چہرے کی طرف دیکھا تو وہ اسے اتنا اونچا… اتنا مقدس … اتنا عظیم دکھائی دیا اور اپنا آپ اتنا بونا، چھوٹا اور حقیر کہ سوائے اس کے قدموں پر سر رکھ دینے کے اسے اور کچھ سجھائی نہیں دیا۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146