سات سالہ گلابی مائل، سرخ و سفید رنگ کا شہزاد دادی کی گود میں لیٹا پورے دن کی روداد سنا رہا تھا۔ دادی پوتے میں اتنی چاہت تھی کہ جب تک شہزاد دادی کو اپنے دل کی ایک ایک بات نہ بتادیتا اس کو چین ہی نہ ملتا۔ خود دادی بھی اس کو لمحہ بھر کے لیے بھی اپنے آپ سے جدا کرنا نہ چاہتی تھیں۔ اسکول کی تو مجبوری تھی ورنہ وہ رات کو دادی کے سینے میں گھس کر جب تک گہری نیند نہ سوجاتا، اس وقت تک دادی کی سانسوں میں ہی بسا رہتا۔ صبح جانے سے پہلے دادی سے اپنے اوپر دَم کرانا نہ بھولتا۔ پھر اسکول جانے تک کئی فرمائشیں دادی سے کرجاتا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ دادی چلنے پھرنے سے معذور ہیں۔ محبتوں کی اپنی خوشبو اور مہک ہوتی ہے، خواہ ماں بیٹی کی ہو یا باپ بیٹے کی۔ اور پھر اولاد کی اولاد تو یوں بھی بہت پیاری ہوتی ہے۔ شہزاد تو تھا بھی اتنا پیارا بچہ کہ راہ چلتے لوگ اسے پیار کرتے۔ سرخ و سفید رنگ، اپنی عمر سے زیادہ سنجیدہ، بردبار، لمبا قد اور اس پر اس کی معلومات افزاء گفتگو، جوہر ایک کو اپنی طرف کھینچ لیتی۔ اس کی معلومات میں اضافے کا باعث کمپیوٹراور دادی دونوں ہی تھے۔ دادی قرآن میں بیان کردہ نبیوں کے قصے، جنت دوزخ کا حال، اچھے لوگوں کی صفات کے بارے میں سناتی رہتیں۔ وہ جب اسکول جاتا دادی، اس وقت تک قرآنی سورتیں پڑھ کر فارغ ہوچکی ہوتی تھیں۔ اس کے اوپر دَم کرکے پیار کرکے رخصت کرتیں اور اُس وقت تک کھڑکی کی جالیوں سے جھانکتی رہتیں جب تک کہ وہ گلی کے نکڑ تک پہنچ کر پلٹ کر دادی کو ہاتھ ہلاکر خدا حافظ نہ کہہ دیتا۔ شہزاد کے اور بھی چار بہن بھائی تھے مگر دادی کی ساری توجہ، محبت اور لگاؤ شہزاد پر نثار تھے۔ اسکول سے آنے کے بعد دادی کے ہاتھ سے کھانا کھاکر ان کے پاس سوجاتا اور پھر قاری صاحب سے سپارہ پڑھ کر ٹیوشن پڑھنے چلا جاتا۔ واپس آکر پھر دادی کے پاس لیٹ کر اپنے اسکول میں گزرے ہوئے ایک ایک لمحے کا حال جب تک سنا نہ لیتا اُسے نیند نہ آتی۔ ہمارا ملک ہی نہیں پوری مشرقی دنیا گزشتہ چند دہائیوں سے مغرب کے زیر اثر آگئی ہے، جس کی وجہ سے زندگی کا ہر لمحہ متاثر ہوگیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سب سے نچلی سطح پر غربت کے مارے لوگ بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔
گزشتہ کئی دن سے شہزاد کچھ چپ چاپ سا تھا۔ اس کی شوخی، اس کی گفتگو میں روانی، دادی سے والہانہ پیار ختم سا ہوگیا تھا۔ بہن بھائیوں سے تو اسے پہلے بھی زیادہ دلچسپی نہیں تھی مگر کئی دن سے اس نے سب سے بات چیت بھی بند کر رکھی تھی۔
دادی نے پریشان ہوکر بہو کی توجہ اس طرف دلائی تو وہ ہنس کر ٹال گئیں۔ دادی کے دل کو قرار نہیں آرہا تھا۔
’’میرے لال کو نظر لگ گئی ہے۔‘‘ وہ بار بار چاروں قل پڑھ کر اس پر دَم کرتیں، مگر شہزاد تو کچھ عجیب سا ہوگیا تھا۔ اب وہ کمپیوٹر پر گیم کھیلنے کے لیے بھی نہ بیٹھتا۔ ٹی وی پر کارٹون دیکھنا بھی ختم ہوگیا تھا۔ دادی کے تکیہ میں رکھے ہوئے کئی نوٹ بھی غائب ہورہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ ایک دن انھوں نے بہو سے کہا: ’’بیٹا ذرا جاکر شہزاد کے اسکول میں معلوم تو کرو، اس کی کسی سے لڑائی ہوئی ہے یا کوئی ایسا واقعہ ہوا ہے جو بچہ دہل کر رہ گیا ہے۔‘‘
بہو ہنس کر بولیں: ’’امی آپ کو وہم ہوگیا ہے، وہ بالکل ٹھیک ہے، اسے کچھ نہیں ہوا۔‘‘ ’’بیٹا تم کیسی ماں ہوکہ تمہیں بچے کی ذرا بھی فکر نہیں ہے۔‘‘ وہ برامان کر بولیں۔ بہو نے لاپروائی سے ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا اور ٹی وی آن کردیا۔ عجیب بے ہودہ سا منظر تھا۔ سرخ لباس میں لڑکی اور سرخ قمیص اور کالی پتلون میں لڑکا اظہار محبت کررہے تھے۔ دادی لاحول پڑھ کر کمرے سے نکل آئیں۔ فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی ٹی وی کے ہر چینل پر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے اشتہار آنے شروع ہوگئے۔ شہزاد اب دادی کے پاس کم آتا، وہ زیادہ تر ماں کے ساتھ ٹی وی دیکھتا رہتا۔ دادی تو جیسے بالکل تنہا اور خالی ہوگئیں۔ ان کا دل، ان کی روح جیسے نکل گئی۔
نوجوان لڑکوں، لڑکیوں میں فحاشی اور بے حیائی کی تشہیر کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ پھولوں کی دکانوں سے سرخ گلاب غائب ہوگئے، ہزار ہا روپے کے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کارڈ بکنے لگے اور گلاب کی ایک ٹہنی کی قیمت سو روپئے ہوگئی۔ دادی کو تو اُس وقت سکتہ ہوگیا جب انھوں نے شہزاد کے ہاتھ میں اپنے گلابوں کے گملے سے ٹوٹا ہوا سرخ گلاب اس کی اپنی سگی بہن کو دیتے اور اس کے گالوں پر پیار کرتے دیکھا۔ وہ بڑے پیارے سے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے کہہ رہا تھا:
’’آئی لو یو ویری مچ ہنی، آئی وِل میری یو۔‘‘
دادی کے منھ سے نکلا: ’’اُف ف فوہ‘‘ اور وہ بے ہوش کر گرگئیں۔
——