خود غرض، خود پسند، سنکی یا مینٹل کہے جانے والے لوگوں سے کبھی آپ کا واسطہ پڑا ہے؟ اگر پڑا ہو تو کبھی تجزیہ کیجیے۔ ماہرین نفسیات کے خیال میں ان افراد کو اگر قریب سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ یہ اندرونی طور پر تنہائی کا شکار، معاشرے سے دور اور دوسروں سے لاتعلق رہنے والے اور اپنی ذات کے خول میں بند رہنے والے ہوتے ہیں۔ لوگ ان کے منہ پر کچھ کہیں یا نہ کہیں لیکن ان کے پیچھے انہیں اسی قسم کے نہ جانے کتنے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ ان میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ لوگ عام افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ خود غرض واقع ہوتے ہیں۔ خود کو بے مثال اور دوسروں سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا اپنے قرب و جوار کے لوگوں کے ساتھ رویہ بھی اکثر و بیشتر خراب ہی رہتا ہے۔ ان کی ذات میں تعاون، ہمدردی اور خلوص جیسی چیزوں کا انتہائی فقدان ہوتا ہے۔ جب لوگ ان کے بارے میں جان جاتے ہیں تو لازمی سی بات ہے کہ یا تو وہ ان کے کھلے مخالف ہوجاتے ہیں یا انہیں قطعی طور پر نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔ بالآخر ان کی حیثیت سماج سے کٹے ہوئے یا سنکی کی سی ہوجاتی ہے، جن سے لوگ دیکھتے ہی کترانے لگتے ہیں۔
ماہرین نفسیات ایسے کئی لوگوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے کے بعد اسی نتیجے پر پہنچے ہیںکہ ان کے اس طرزِ عمل کے پیچھے ان کی زندگی کی دائمی نامرادیاں، تلخیاں اور ناکامیاں ہوتی ہیں۔ خواہ وہ بظاہر کتنے ہی بڑے کاروباری دولت مند یا اعلیٰ عہدے پر فائز کیوں نہ ہوں؟
آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ بالکل سچ ہے کہ جب ایک اچھے خاصے کامیاب کاروباری اور قدرے سنکی شخص سے پوچھا گیا کہ ’’وہ اپنی اولاد کو اتنی بے دردی سے کیوں پیٹتا ہے؟ جبکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اسی مارکٹائی کی وجہ سے اس کا ایک بیٹا کسی حد تک ذہنی معذور ہوچکا ہے؟‘‘ تو اس کا کہنا تھا کہ ’’میرے باپ نے بھی مجھے بہت پیٹا تھا۔ یہاں تک کہ میں نے تیرہ سال کی عمر ہی سے گھر چھوڑ دیا۔‘‘ اور شاید یہ درست ہو کہ وہ اب اپنی اولا دسے انتقام لے رہا ہو۔
اسی طرح اکثر خواتین کو شادی کے بعد سسرال میں اور خاص طور پر ساس کی جانب سے اچھا سلوک نہیں مل پاتا تو وہ اپنی بہوؤں سے نہ صرف بدلہ لیتی ہے بلکہ انہیںبیٹے کے ہمراہ علیحدہ بھی نہیں رہنے دیتی۔
دو بہوئیں اگر آپس میں ہنس کھیل کر بات کرلیں تو اس مزاج کی ساس فوراً کہتی ہے کہ ضرور میرے خلاف کوئی بات ہورہی ہے۔ جو دونوں اتنی خوش ہیں۔ ایسی بہت سی شادیوں کا انجام عموماً طلاق پر ہی ہوتا ہے۔ ان افراد کی شخصیت میں عجلت پسندی، بے صبرا پن، عداوت، بغض، جنگ جوئی، مقابلہ بازی اور شک و شبہ جیسی خصوصیات بہت نمایاں ہوتی ہیں۔ تاہم ضروری نہیں کہ ایسے مردوں یا عورتوں میں یہ تمام چیزیں ایک ساتھ موجود ہوں۔ بعض میں خودپسندی، کچھ میں جلدبازی اور بعض میں لاتعلقی اور شک و شبہ وغیرہ کا عنصر زیادہ نمایاں ہوتا ہے۔
اس قسم کے اکثر افراد اگرچہ اپنی واضح منزل یا اہداف متعین کرنے میں ابہام کا شکار رہتے ہیں لیکن ان کے آگے بڑھنے اور خود کو منوانے کی خواہش شدید ترین ہوتی ہے اور اپنی اس کوشش میں بعض اوقات وہ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں لیکن اس کامیابی میں دوسروں کی شرکت گوارا نہیں کرتے۔ تنگ نظری انہیں ہر وقت گھیرے رکھتی ہے۔ ممکن ہے کہ کبھی کبھار کچھ عرصے کے لیے یہ اپنا رویہ نرم بھی کرلیں یا پیار سے بات کرلیں لیکن یاد رکھیں کہ انہیں واپس اپنی سطح تک آنے میں دیر نہیںلگتی۔
اگر یہ کسی چیز کاعلم حاصل کرلیںیا کسی فن میں ماہر ہوجائیں تو کسی دوسرے کو اپنی ذہانت، علمیت، دولت و شہرت میں حصہ لینے کی اجازت کم ہی دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی چونکہ تمام تر توجہ کا مرکز ان کی اپنی ذات ہوتی ہے، اسی لیے ان کی ہر بات کی تان ’’میں‘‘ پر آکر ٹوٹتی ہے۔ اگر آپ ان کی گفتگو کو غور سے سنیں تو اس میں ’’میرا، میں مجھے‘‘ جیسے الفاظ کثرت سے اور بار بار آئیں گے۔ یہاں تک کہ اگر ان کا تعلق لکھنے لکھانے سے ہو تو ان کی تحریر بھی اسی قسم کے الفاظ سے بھری ہوتی ہے۔
ماہرین کے خیال میں ناخوشگوار بچپن، والدین کا توجہ نہ دینا اور مختلف قسم کی نا آسودگی وغیرہ اس قسم کی شخصیات تشکیل دینے والے اہم ترین عوامل ہیں۔ ان افراد میں سے اکثر و بیشتر مظلوم اور ستائے ہوئے ہیں۔ خواہ وہ خود اس کا اعتراف کریں یا نہ کریں بعض اپنی محرومیوں کو مہنگے کپڑوں، دنیوی ترقیوں، دولت، مرتبہ، اقتدار، نام و نمود، شہرت، خوبصورتی اور ازدواجی حیثیت میں برتری سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اکثر اوقات یہ کوشش آگ کو پٹرول سے بجھانے کے مترادف ہوتی ہے۔
ماہرین نفسیات کی رائے میں اگر آپ کسی ایسے ہی شخص سے تعلق میں ہیں تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اکثر و بیشتر ان کا رویہ آپ کے لیے تکلیف اور دباؤ کا باعث بنتا ہوگا۔ اگر آپ انہیں یکسر نظر انداز کرنے یا جواب دینے کی پوزیش میں نہ ہوں تو جلنے کڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ سمجھ لیا کریں کہ یہ لوگ قابلِ رحم ہیں اور آپ کے تعاون کے محتاج بھی۔ آپ ان کا تعاون کرسکتی ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش کے ذریعے۔ مگر ان کو اگر یہ احساس ہوجائے کہ آپ ان کی اصلاح کی کوشش کررہی ہیں تو وہ آگ بگولہ ہوجائیں گی۔ اس لیے بڑی حکمت کے ساتھ ان سے بات چیت کی ضرورت ہے۔
ایسے انسانوں کی اصلاح کی کلید یہ ہے کہ انہیں محبت کرنے اور خوشیاں باٹنے پر آمادہ کرلیا جائے۔ محبت بہت ساری بیماریوں کا تریاق ہے۔ اصلاح نفس کا بنیادی حصہ ہے۔ جو لوگ اللہ سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں وہ اللہ کی مخلوق سے محبت کرنے سے کیسے خود کو الگ کرسکتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان انسانوں سے محبت کرنے لگے تو گلے شکوے، بغض و حسد اور شکوک و شبہات یکسر ختم ہوجائیں۔
آخری بات جو انتہائی ضروری ہے وہ یہ کہ اپنے رویوں پر بھی غور کریں۔ خدانخواستہ کہیں اس طرح کی علامت آپ میں بھی تو نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو فو ری ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں اور نارمل زندگی گزاریں۔ دوسروں کی زندگی اجیرن کرکے جینا بھی کوئی جینا ہے۔ خوشگوار زندگی گزارنے کا بنیادی اصول تو یہ ہونا چاہیے کہ خود بھی خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے اور خوش کرنے کی کوشش کریں۔
——