’’یہ مسجد اہل سنت وجمات کی ہے، اس میں تبلیغی،وہابی،دیوبندی اور دیگر غیرفرقہ کے لوگوںکا داخلہ سخت ممنوع ہے۔‘‘گجرات کے شہر راج کوٹ کی غریب نواز مسجد کے دروازے پر آویزاں یہ بورڈ ہر اس مسلمان کو کرب و اذیت میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہے جس کے ذہن میں امت واحدہ کا تصور ہے اور جو مسجد کو خدا کا گھر جان کر وہاں سجدہ ریز ہوتا ہے۔ یہ محض کوئی نمائشی بورڈ نہیں ہے بلکہ اس پر عمل بھی ہورہا ہے اور اگر کوئی دیگر عقیدے کا مسلمان ایسی مسجد میں داخل ہوجاتا ہے تو اسے نماز کی ادائیگی کے بغیر ہی وہاں سے واپس ہونا پڑتا ہے۔ اس قسم کی پابندیاں کسی ایک مسجد تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ دیگر مسجدوں میں بھی یہی عمل ہورہا ہے اور اس کا تلخ تجربہ گزشتہ دنوں اسپیشل ریزروپولیس کے مسلمان کمانڈر کو اس وقت ہوا جب وہ راج کوٹ سے ۳۰ کلومیٹر دور گونڈل علاقے کی ایک بریلوی مسجد میں نماز ادا کرنے گئے۔ مسجد کے متعلقین کو جب یہ معلوم ہوا کہ کمانڈنٹ دیوبندی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں تو انہیں وہاں نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ قبل ازیں اسی شہر کی ایک دوسری مسجد میں ایک مسلمان سب انسپکٹر اور ایک جج کو انہی بنیادوں پر نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا تھا۔
یہ خبر اگر گجرات کے علاوہ کسی اور صوبے سے آتی تو شاید ہمیں اتنی تکلیف نہیں ہوتی کیونکہ مسلمانوں میں مسلکی اختلافات کوئی نئی بات نہیں۔ انگریزوں کے دور میں مسلط کیا گیا یہ عذاب اب ہندوستانی مسلمانوں کے اتحاد اور وحدانیت کو پارہ پارہ کررہا ہے۔ گجرات سے موصول ہونے والی اس خبر پر زیادہ تکلیف اس لیے پہنچی ہے کہ یہ وہی گجرات ہے جواب سے تقریباً پانچ سال قبل خاک و خون سے گزرچکا ہے۔ اور جہا ںمسلمانوں کی بدترین نسل کشی ہوئی ہے۔ انسانوں کے بھیس میں چھپے ہوئی وحشی درندوں نے گودھرا سانحہ کے بعد جب مسلم بستیوں کو اپنی وحشت و بربربیت کا نشانہ بنایا تھا تو اس قسم کا کوئی ایک واقعہ بھی نقل نہیں کیا گیا کہ انھوں نے کسی مسلمان پر حملہ آور ہوتے وقت اس کا مسلک یا عقیدہ دریافت کیا ہو۔ نہ ہی کسی مظلوم عورت کی اجتماعی آبرو ریزی کے وقت اس کے دیوبندی، بریلوی ہونے کی تصدیق کی گئی تھی بلکہ حملہ آوروں کو تو مسلمانوں کا قتل عام کرنا تھا اور انہیں بے آبرو کرنا تھا جو کہ انھوں نے بے دریغ کیا۔ یہی نہیں گجرات میں فسطائی درندوں نے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی بربادی کے علاوہ بڑی تعداد میں مسجدوں اور مزاروں کو بھی اپنی درندگی کا نشانہ بنایا تھا۔
قتل و غارت گری اور نسل کشی کے دور سے گزرنے والے وہ مسلمان جنھیں سر جوڑ کر اپنے زخموں کا مداوا کرنا چاہیے وہ خود کو بریلوی اور دیوبندی کے خانوں میں شدت کے ساتھ تقسیم کررہے ہیں کہ انھوں نے غیر عقیدے کے لوگوںکے مسجد میں داخلے تک پر پابندی عائد کردی ہے۔ کیا یہی اسلام کا پیغام ہے؟ اور کیا یہی خدا کی عبادت کا طریقہ ہے؟ اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے؟ اور یہ کہ اس کے تمام ماننے والے ملت واحدہ کہلاتے ہیں؟ لیکن تنگ نظری، انتہا پسندی اور شدت پسندی نے ایسے برے دن دکھائے ہیں کہ ایک خدا، ایک نبی اور ایک قرآن کو ماننے والے مسلک کی باریک وادیوں میں بھٹک کر اس درجہ گمراہ ہوچکے ہیں کہ آج دنیا میں ان کی کوئی وقعت نہیں۔ فکر و عقیدہ کی سیاہی نے ایسی گمراہیاں پھیلائی ہیں کہ ہم اسلام کے پیروکار ہونے کے باوجود اسلامی تعلیمات کے خلاف عمل پیرا ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمارے ذہنوں میں کشادگی اور دلوں میں وسعت کے بجائے تاریکی اور تنگی نے کیوں گھر کرلیا ہے۔ کیا واقعی ہم مسلمان کہلانے کے حقدار ہیں؟
انگریزی روزنامہ ’انڈین ایکسپریس‘ نے اپنی ۷؍اگست ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں صفحۂ اول پر اپنے نامہ نگار سید خلیق احمد کی ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس میں اس سائن بورڈ کا فوٹو بھی شائع کیا ہے جس میں بریلوی مسلک کی مسجد میں دیوبندیوں کے داخلے کی سخت ممانعت کی عبارت آویزاں ہے۔ خبر کی سرخی ہے’پرانے تفرقے میں نیا موڑ: گجرات کی بریلوی مسجد میں دیوبندیوں کا داخلہ ممنوع‘ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ۲۰۰۲ء کے ہولناک فسادات کے بعد گجرات میں مختلف نظریات اور عقیدوں کے مسلمانوں نے مل جل کر اپنی زندگی کی تعمیر نو شروع کی تھی۔ انھوں نے اپنے اختلافات کو بھلا کر تباہ حال زندگیوں، کھنڈر نما مکانوں اور مسجدوں کو دوبارہ آباد کرنا شروع کیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی دیوبندیوں اور بریلویوں کے اختلافات ایک بار پھر ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔ سوراشٹر اور کچھ علاقوں میں بریلوی مسلک کی مسجدوں کے باہر بورڈ آویزاں کردیے گئے ہیں کہ یہاں دیوبندیوں کا داخلہ سخت ممنوع ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان دونوں مسلکوں کے ماننے والوں کے درمیان اختلافات پرانے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ برس قبل گودھرا سے ۳۰؍کلومیٹر دور واقع ہلول اور کلول نامی قصبوں میں دونوں طبقوں کے درمیان معمولی بات پر خونریز تصادم ہوا تھا۔ ایک دیگر واقعہ میں ایک سال قبل گودھرا سے ۴۰؍کلومیٹر دور لوروگاؤں میں دونوں مسلکوں کے لوگ آپس میں لڑ پڑے تھے اور ان میں کئی شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ۲۰۰۲ء کے خوفناک فسادات اور مسلم کشی کے بعد دیوبندی اور بریلوی مسلک کے مصیبت زدہ لوگوں نے ایک ہی چھت کے نیچے پناہ لی تھی اور ان کے اختلافات اس حد تک دور ہوگئے تھے کہ انھوں نے فسادیوں کے ذریعہ تباہ کی گئی ایک دوسرے کی مسجد کی تعمیر نو میں دل کھول کر حصہ لیا تھا۔ فساد سے بدترین طور پر متاثر پنج محل کے علاقوں لوانت، سنت، سکھودا وغیرہ علاقوں میں غیر بریلوی مسلک کے لوگوں نے بریلوی مسلک کے لوگوں کی مسجدوں کی تعمیر میں مدد کی تھی، لیکن آج یہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ یکسر مفقود ہوگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گجرات کے ۵۰؍لاکھ مسلمانوں کی آبادی میں ۸۰-۷۰؍فیصد بریلوی دیہی علاقوں میں، ۶۰ فیصد شہری علاقوں میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی مسجدوں پر اپنا کنٹرول رکھتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بریلوی مسلک کے لوگوں نے غیر بریلوی علماء کے قرآنی تراجم کو اپنی مسجدوں سے باہر کردیا اور جن غیر بریلوی مسلمانوں نے ان مسجدوں کی تعمیر نو میں مالی مدد کی تھی ان سے بھی کہا گیا کہ وہ مسجدوں سے دور رہیں۔ احمد آباد کے پرانے شہر کی ایک بریلوی مسجد کو جس کا کنٹرول دیوبندیوں کے ہاتھوں میں تھا، بریلوی طبقے کے لوگوں نے ان سے چھین لیا ہے۔
احمد آباد کی جامع مسجد کے امام اور بریلویوں کے رہنما مولاناشبیر احمد صدیقی، دیوبندیوں کے خلاف بریلویوں کے اس رویے کو حق بجانب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’دونوں عقیدوں میں اتنا گہرا اختلاف ہے کہ بریلوی اپنی مسجدوں میں دیوبندیوں کو نماز ادا کرنے کی اجازت دے ہی نہیں سکتے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اگر دیوبندی ہمارے عقائد اور نظریات سے اتفاق نہیں کرتے تو انہیں ہماری مسجدوں میں بھی نہیں آنا چاہیے۔‘‘ جبکہ دارالقضاء کے انچارچ مفتی عبدالقیوم جو دیوبندی مسلک سے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمیں وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ہر مسلک کے مسلمان کو ایک دوسرے کی مسجد میں نماز کی ادائیگی کی اجازت دینی چاہیے کیونکہ ہم سب خدا کی وحدانیت کے قائل ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم اپنی مسجدوں میں سب کا استقبال کرتے ہیں خواہ وہ بریلوی ہو یا اہلِ حدیث، تبلیغی جماعت ہو یا شیعہ فرقے کے لوگ، مسجد ہماری ذاتی جائیداد نہیں بلکہ خدا کا گھر ہے۔‘‘
اس تنازعہ پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے میڈیا انچارج جمال پاتی والا نے کہا کہ ’’مسلک کے اختلاف کی بنیاد پر کسی مسلمان کو مسجد میں نماز کی ادائیگی سے روکنا نہایت مذموم عمل ہے۔‘‘
اس خبر کی تفصیلات یقینی طور پر پریشان کن ہیں اور ایسے لوگوں کے لیے جن کا قلم گجرات کے مظلوموں کی کہانیاں بیان کرتے نہیں تھکتا، اتنی اذیت ناک ہے کہ اس کو پڑھ کر اتنی ہی تکلیف پہنچتی ہے جتنی کہ گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ فسطائی اور فرقہ پرست عناصر کے ظلم و ستم کی داستانیں بیان کرتے ہوئے۔
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ مسلکوں کا یہ اختلاف آخر ہمیں تباہی اور بربادی کے کس غار میں لے جائے گا۔ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردینے کی جو کارروائیاں قدم قدم پر سامنے آتی ہیں، کیا ان کی موجودگی میں اس قسم کی تنگ نظری، انتہا پسندی اور مسلک کی جنگ ہمیں زیب دیتی ہے؟ ابھی پچھلے سال ہی ایک تنگ نظر ’’مفتی صاحب‘‘ نے مرادآباد کے ایک گاؤں میں نماز جنازہ پر ایسا تنازعہ کھڑا کردیا تھا کہ پورے علاقے کے مسلمانوں میں زبردست کشیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ معاملہ صرف اتنا تھا کہ ایک مکتب فکر کے ماننے والے شخص کی نماز جنازہ ایک دوسرے مکتب فکر کے عالم نے پڑھا دی تو مفتی صاحب نے یہ فتویٰ دے ڈالا کہ نمازِ جنازہ میں شریک تمام لوگوں کو نہ صرف دوبارہ کلمہ پڑھنا چاہیے بلکہ ان کے نکاح بھی فاسد ہوگئے اور انہیں دوبارہ اپنی بیویوں کو اپنے نکاح میں لینا چاہیے۔
ذرا غور کیجیے کہ اس درجے کی تنگ نظری اور انتہا پسندی جس پر اسلام کاری ضرب لگاتا ہے کیا ہمیں رسوا نہیں کررہی ہے؟ یقینی طور پر اس قسم کے تنازعات کھڑے کرنے والے لوگ اسلام دشمن طاقتوں کے آلۂ کار ہیں جو مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے انہیں ایک منتشر اور مجہول قوم میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں۔ گجرات میں نریندر مودی کے اقتدار میں رہتے ہوئے اگر ایک مسلمان نے دوسرے مسلمان کی مسجد میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی ہے تو اس کا مفہوم بآسانی سمجھا جاسکتا ہے یعنی وہ مسلمان جو انصاف کی طلب اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے مطالبہ پر متحد و متفق ہیں ان میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کا اس سے بہتر وسیلہ اور کون سا ہوسکتا ہے؟ انگریزوں نے ہندوستان پر حکومت کرنے کے لیے جس فارمولہ کو ایجاد کیا تھا، نریندر مودی اور ان کے ہم نوا اسی پر عمل کررہے ہیں۔ جب مظلومیت کی دیوی ظہیرہ شیخ ظالموں کی ہم نوا بن سکتی ہے تو حلوے مانڈے کی طلب میں چند نام نہاد عالموں کو مسلک کی بنیاد پر انتشار اور افتراق پیدا کرنے کے لیے خریدنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ (ماخوذ)
عیدالاضحی – عہدومیثاق کی یاددہانی