اُلٹا تیر

محمد طارق، کولہاپور

وہ بھیس بدل کر جنتا کی چنتا میں اپنے کالے دھن سے تعمیر کیے ہوئے سفید بنگلے سے نکلے ۔
حسبِ معمول ہر پانچ سال بعد جب الیکشن کا موسم آتا وہ بھیس بدل کر ہی نکلا کرتے تھے، نت نئے مکھوٹے چہرے پر سجاتے تھے۔ نہ جانے انھوںنے کتنے بھیس بدلے تھے۔ کتنے مکھوٹے لگائے تھے۔ ان کی دھرم پتنی جو اُن کی زندگی کی رفیق تھی، وہ بھی ان کے سوانگ اور ان کے مکھوٹوں سے پوری طرح واقف نہیں تھی۔ پھر بے چاری جنتا انھیں نت نئے بھیس میں کیسے پہچانتی؟
ہاں —! الیکشن کے موسم میں انھیں جنتا کی چنتا ستانے لگتی اور وہ ان کی جھگی جھونپڑیوں تک پیدل جاتے تھے۔ غریب، ننگ دھڑنگ ووٹروں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر ایسا کھڑے رہتے جیسے کوئی پجاری بھگوان کی پوجا کرتے وقت بھگوان کی مورتی کے سامنے کھڑا رہتا ہے۔
جنتا ہر پانچ سال میں ایک بار ان کے لیے بھگوان بن جاتی تھی اور وہ اس کے لیے پجاری اور پھر چناؤ کے بعد وہ جنتا کے ایسے بھگوان بنے رہتے کہ جنتا ان کے درشن کے لیے ترس جایا کرتی تھی۔
دیش کی آزادی کے بعد سے وہ بھیس بدلنے میں اتنے آزاد ہوگئے تھے کہ اب کوئی بھیس ایسا نہیں رہا تھا جسے بدل کر شایدجنتا کو دھوکا دے سکتے۔ اب کیا کیا جائے کہ جنتا دھوکا کھاجائے؟ یہ فکر انہیں اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی۔
اپنی فطرت سے مجبور، وہ بھیس بدل کر الیکشن میں کھڑے تو ہوگئے تھے لیکن جنتا کو اپنا ہمدرد بنانے کی کوئی ترکیب ان کے ذہن میں نہیں آرہی تھی۔ ’’بھاشن میں کہوں تو اب کیا کہوں، جب سے دیش آزاد ہوا مجھ جیسے لوگ کہتے ہی تو آرہے ہیں، میںاب کون سے وعدے کروں، کون سے خواب دکھاؤں۔ جنتا کے ذہنوں میں اب کیسے سپنے سجاؤں کہ اس کا ذہن اب تو سپنوں کا قبرستان بن چکا ہے۔‘‘
اسی ادھیڑ بن میں نیتا جی اسٹیج پر پہنچے۔ یہ ان کی مجبوری بھی تھی۔ حسبِ روایت جنتا اسٹیج کے نیچے تھی اور نئے بھیس میں اپنے پیارے نیارے نیتا کو دیکھ رہی تھی۔
’’بھیس میں تو جنتا نے شاید مجھے نہیں پہچانا، مگر آواز سے ضرور پہچان لے گی!‘‘ ایک خوف نیتا جی کے دل میں گھر کرگیا۔
منصوبے کے تحت نیتاجی کی شان میں ان کے کچھ حمایتی بھاشن دے چکے تھے۔ پلان کے مطابق نیتاجی کے پالتو لوگ مجمع کو گھیرے ہوئے تھے۔ وہ ہر بھاشن پر تالیاں بجارہے تھے اور نعرے لگا رہے تھے۔
جب نیتاجی بھاشن دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو فلک شگاف نعروں سے میدان گونج اٹھا۔ وہ نعرے جو برسوں سے لگائے جارہے ہیں۔ پرانے گھسے پٹے نعرے، جسے سن سن کر کان پک چکے ہیں۔
بہرحال نیتاجی بھاشن دینے کے لیے کھڑے ہوئے، انھوںنے مائیکرو فون کو ٹیڑھی انگلی سے ٹھونک کر ٹیسٹ کیا۔ جنتا پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور نہایت پُرسوز آواز میں گویا ہوئے۔ ’’میرے ہم وطنو، بھائیو اور بہنو!‘‘ اور پھر یکلخت نیتاجی اپنے سینے کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر ٹوٹے پتے کی طرح اسٹیج پر گرگئے …
مجمع میں کھلبلی مچ گئی …
نیتا جی کے حمایتی منتشر مجمع کو چیرتے ہوئے اسٹیج پر پہنچ گئے۔ فوراً نیتا جی کے لحیم شحیم، بے حس و حرکت بدن کو ہاتھوں میں اٹھا کر اُ ن کی چمکیلی کار تک لے آئے اور کار کی پچھلی سیٹ پر نیتاجی کے بدن کو اس طرح احتیاط سے رکھا جیسے قبر میں میت رکھی جاتی ہے۔
کار اسپتال کی سمت دوڑنے لگی، کار کے پیچھے بھاگتی ہوئی شہر کی جنتا، جنتا کے ہمراہ نیتا جی کے پالتو ہمدرد، کچھ کاروں میں، کچھ اسکوٹروں پر، کچھ سائیکلوں پر سوار، دوڑتی، بھاگتی، حیران، پریشان جنتا کا حصہ بن گئے تھے۔
شہر کے سب سے بڑے اسپتال میں جہاں رئیسوں کا علاج ہوتا ہے، مالداروں کی زندگیاں بچانے کی کوشش کی جاتی ہے ایسے عالیشان اسپتال میں نیتاجی کی کار داخل ہوگئی۔
جنتا کی بے چین بھیڑ کو اسپتال کے گیٹ پر ہی روک دیا گیا۔ آناً فاناً پولیس کا پہرہ گیٹ پر لگادیا گیا۔ کسی طرح نیتا جی کے کچھ خاص گنے چنے ہمدرد، اخباروں کے نمائندے، سٹی چینل کے رپورٹروں کو اسپتال میں داخلے کی اجازت مل سکی اور جنتا گیٹ پر پالتو کتے کی طرح کھڑی رہ گئی۔ … کچھ دیر بعد ایک سفید رنگ کی ماروتی کار، ہارن بجاتی مجمع کوچیرتی ہوئی اسپتال کے گیٹ کی طرف بڑھنے لگی۔
مجمع میں نیتا کی پوشاک پہنے ہوئے کچھ لوگوں نے کار میں نیتا جی کی بیگم اور اُن کے فرزندو دختر کو دیکھا تو فوراً سے پیشتر والنٹیئر بن گئے۔
’’ہٹو … راستہ چھوڑو… ہٹو… ہٹو… راستہ دو…‘‘
کار ہارن بجاتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔
کچھ لوگوں نے نیتا جی کی بیگم پر نظر پڑتے ہی نیتاجی کی شان میں نعرے لگائے، ’’نیتاجی… زندہ باد… زندہ باد…. نیتاجی کی جئے…‘‘
نیتا جی، ہم آپ کے ساتھ ہیں، نیتا جی سلامت رہیں ہزار برس…. بھگوان آپ کو سلامت رکھے … نیتا جی کی جئے … نیتاجی زندہ باد ….‘‘
نعروں کی گونج میں کار اسپتال کے گیٹ میں داخل ہوگئی۔ گیٹ پھر بند ہوگیا اور نعرے لگانے والے بھی خاموش ہوگئے۔
جنتا گیٹ کے باہر چہ میگوئیاں کرنے لگی …
کچھ دیر بعد نیتا جی کا ایک حمایتی اسپتال سے نکلا۔ اس کے ہمراہ اخبار کے کچھ رپورٹر بھی تھے۔
نیتاجی کا حمایتی بلند آواز میں جنتا سے مخاطب ہوا ’’میرے پیارے بھائیو! نتیاجی کی فکر جتنی آپ لوگوں کو ہے اس سے کئی زیادہ فکر نیتا جی کو اپنی ہر دل عزیز جنتا کی ہے … انہیں غریب جنتا کے دکھ درد کا اتنا احساس ہوا کہ اُن کا دل اس احساس کو سہ نہ سکا اور انہیں دل کا دورہ پڑگیا … ڈاکٹر ہمارے سب کے چہیتے نیتا کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں آپ لوگ بھی ان کی زندگی کے لیے پرارتھنا کیجیے۔ بھگوان کے سامنے روئیے … خدا کے سامنے گڑگرائیے… دیش میں ایسے نیتا بار بار پیدا نہیں ہوتے، جن کا دل غریب کے لیے دھڑکتا ہے روتاہے … سسکتا ہے… آپ لوگوں کو اس کی خبر نہیں کہ نیتا جی کا دل غریب جنتا کا دکھ، درد سہتے سہتے اب اتنا کمزور ہوچکا ہے کہ اگر اب انہیں ذرا بھی دکھ ملا تو وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہوجائیں گے اور ہمارا دیش ایک مہاپُرش سے … ایک عظیم نیتا سے محروم ہوجائے گا۔ وہ سلامت رہیں ہزار برس نہیں، کروڑ برس …‘‘ نیتا جی کا حمایتی جذباتی تقریر کرتے کرتے روپڑا۔ مجمع پر اداسی کے بادل چھا گئے۔
دوسرے دن اخباروں میں نیتاجی کی تصویر چھپی، اُن کے مرض کا خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ ڈاکٹروں کا بیان بھی اخباروں میں بطور خاص شائع کیا گیا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اب اگر نیتا جی کو ذرا بھی دکھ ملا تو وہ مرجائیں گے۔ ان کا دل صدمہ برداشت نہیں کرسکتا۔ بے حد کمزور ہوگیا ہے۔
الیکشن تک نیتا جی اسپتال میں ہی رہے۔ جب الیکشن ختم ہوگیا، نیتا جی اپنے عالیشان بنگلے میں آگئے۔
اب نیتاجی کو الیکشن کے ساتھ نتیجے کی فکر تھی۔ ویسے تو ان کے ورکروں اور دوستوں نے انہیں قبل از وقت کامیابی کی مبارکباد دے دی تھی پھر بھی پیش گوئی پر آنکھ بند کرکے یقین نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے نیتاجی کو بھی الیکشن کے نتیجے کا انتظار تھا۔ یوں تو انہیں بھی امید تھی کہ وہ الیکشن جیتا جائیں گے، کیوں کہ ان کے مرض کا ڈھنڈورا سلیقے سے پیٹا گیا تھا۔
آج الیکشن کے نتائج سرکاری ذرائع سے نشر ہونے والے تھے۔ نیتا جی اپنے ڈرائنگ روم میں آرام دہ کرسی پر براجمان تھے۔ بغل میں صوفے پر ان کی دھرم پتنی بیٹھی تھیں اور نیچے بیش قیمت قالین پر ان کے قریبی رشتے دار تشریف فرما تھے، سب کی نظریں سامنے ٹی وی اسکرین پر جمی ہوئی تھیں، ٹی وی سے الیکشن کے نتائج بتائے جارہے تھے۔
جب نیتاجی نے سنا کہ وہ اپنے حریف امیدوار سے دوہزار ووٹوں سے جیت گئے، تب وہ بے اختیار کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر یکلخت انھوںنے اپنے دونوں ہاتھوں سے سینے کو پکڑا اور دبیز قالین پر گر پڑے۔
اُن کی دھرم پتنی گھبرائی نہیں، صوفے سے اٹھی بھی نہیں صرف پہلو بدلا اور مسکراتے ہوئے بولیں: ’’اب ہارٹ اٹیک کی یہ اداکاری کس لیے، یہاں جنتا نہیں، سب اپنے رشتے دار ہیں، اٹھو، اداکاری ختم کرو، الیکشن جیت گئے ہو!‘‘مگر نیتا جی اب ہارٹ اٹیک کی اداکاری نہیں کررہے تھے۔ سچ مچ اُن کا ہارٹ ہمیشہ کے لیےفیل ہوچکا تھا۔l

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں