عرب دورِجاہلیت کی بات تودورکی ہے۔ آج کی مہذب سوسائٹی میںبھی عورت کا مقام اِنسانیت سے گراہواسمجھاجاتاہے۔کبھی کبھی کسی کسی گھر میںلڑکی کو پیداہوتے ہی گلاگھونٹ کرمار دیا جاتا ہے۔ اس سفاکی اورظلم وستم میںاہل عرب سب سے آگے تھے۔ لڑکیوں کی پیدائش کو ایک براشگون سمجھتے تھے۔ جب اِسلام کا نزول ہواتواِسلام نے عورت کو اس کے حقوق دینے کا اِعلان کیا…اس کو عزت کا مقام بخشا اور مردوں کے برابر،عورت کو حقوق عنایت فرمائے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے پامال ہوتے ہوئے حقوق کا،عورتوں کی مظلومیت اور بے بسی کا مشاہدہ کرکے تمام برائیوں اوراِنسانیت سوز اعمال کا خاتمہ کردیااورعورتوں کی بے چارگی اوربے بسی اور مظلومیت کو اِنصاف ومساوات میںبدل دیا۔وہ ذلت وگمنامی اورموت کے غارمیں پڑی ہوئی تھیں۔ لیکن ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنھیں مردوں کے برابر درجے تک پہنچادیا۔اورجو عورتوں کی بے بسی اورمجبوری سے فایدہ اُٹھاتے ہوئے ان پر ظلم کررہے تھے۔ان کی بربریت کی بنیادیں ہلاکر رکھ دیں اوراس طرح عورتوں کو سطح غلامی سے نجات دِلاکر مردوں کے پہلو بہ پہلو کھڑاکیااوران کی عزت وتکریم مردوں پر عاید کردی گئی اورپھر ایک وقت ایسابھی آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طبقہ نسواں کی حمایت کرتے ہوئے اپنے پروردِگار کا یہ حکم بھی سنایا۔ھن لباس لکم واَنتم لباس لھن۔یعنی عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اورتم اُن کے لیے لباس ہو—سورہ نساء میںاِرشاد ہواکہ ،’’اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیداکیا اورپھر اس کی جنس سے اس کی بیوی کو پیدا کیا اور پھر ان دونوں سے مرد اورعورت بناکر زمین پر پھیلا دئیے۔اس طرح عورت کی تخلیق کو مرد کی تخلیق کے تابع نہ بناکر برابر کی تخلیق اوراللہ کی نشانی بتایا اوران کے درمیان محبت ورحمت کا رشتہ پیداکیاہے۔
اِسلام نے عورت کے حقوق کا اِحترام کیا۔ اُسے عزت کے ساتھ جینے کا حق دیا۔اِسلام نے تعلیم دی کہ جب تمہاری عورتیں حایضہ ہوں توان کو اچھوت نہ سمجھوبلکہ صرف مریض سمجھو پہلے لڑکیوں کو زِندہ دفن کردیاجاتاتھا۔اِسلام نے اس قبیح فعل سے روکا اوراللہ کے عذابِ علیم سے ڈرایا۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو جامع خطبہ بیان فرمایا تھا۔ اس میںحکم دیاکہ اے لوگو!جو خود کھائو اپنی عورتوں کو بھی کھلائو اورخود جو پہنو اپنی عورتوں کو بھی پہنائو۔
آج مسلم خواتینکے بارے میں جو قومیں یہ کہتی ہیں کہ مسلم عورتیں قیدوبند کی زندگی گزار رہی ہیں اور وہ مردوں کی غلام ہیں، وہ دیکھیں کہ اِسلام نے عورتوں کو جو مقام و مرتبہ، عزت و ناموس، حریت و آزادی اور حقوق واختیارات عنایت فرتے ہیں۔کسی دوسرے مذہب میںاس کا شائبہ تک نہیں۔آزادی یہ نہیںکہ عورت معاش کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر لے کرآفس،کمپنی،فیکٹری اوراِیئرہوسٹس کی نوکری کرکے اپنی عزت وناموس پربٹالگائے،بے پردگی کے ساتھ اپنے آفس کے مردوں کے ساتھ گھومے پھرے۔ معاشی حیثیت سے عورت کو یہ مقام دیاگیا کہ اس کی یہ ذمہ داری نہیں کہ وہ اپنے اوربچوں کے لیے کماکر بھی لائے۔معاشی بوجھ مردوں پر ڈالاگیااورعورت کو کسب معاش کی ذمہ داری سے اس لیے فارغ کردیاکہ وہ گھر کے اِنتظام اوربچوں کی تربیت کی ذمہ داری کو اچھی طرح سنبھال سکیں۔
اِسلام کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ وہ ہر معاملے میںدرمیانی اوراِنصاف کی راہ اختیارکرتاہے۔چنانچہ عورت کے مقام کے بارے میں بھی یہی بات سچ ہے کہ اِسلام نے اُسے صحیح مقام دیاہے۔اوریہی دراصل اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں مقام ہے۔——