اِسلام توازن اوراِعتدال کا دین ہے۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں شدت پسندی، اِنتہا پسندی اور حدسے زیادہ تجاوز کوپسند نہیںکرتا۔ جس طرح یہ مذکورہ چیزوں کوپسند نہیںکرتااُسی طرح بزدِلی، بخل، کمزوری یا پیچھے رہنے کوبھی ناپسندکرتاہے۔ یہاں افراط وتفریط کے بجائے اِعتدال اورمیانہ روی مطلوب اور مقصود ہے۔یہ بات قرآن کی آیت سے واضح طورپرسامنے آتی ہے۔ مثلاً:
(۱) اور اسی طرح ہم نے تمہیں ’امتِ وسط‘ درمیانی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ (البقرۃ:۱۴۳)
(۲) کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (اعراف:۳۱)
(۳) اپنے ہاتھ گردن سے مت باندھے رکھو اور نہ انہیں اس طرح کھلا چھوڑ دو کہ بعد تنگ دست اور ملامت زدہ ہوکر رہ جاؤ۔ (اسراء: ۲۹)
(۴) اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو اور اپنی آواز کو نیچا رکھو۔ بے شک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔ (لقمان:۱۹)
یہ اوراس طرح کی بہت ساری آیات ہمیںبتاتی ہیں کہ اِسلام کا مزاج اعتدال پسندانہ اور میانہ روی کا ہے اوریہ خوبی کسی ایک معاملہ میںنہیں بلکہ زندگی کے ہرمرحلے،ہرمیدان اورہرمقام پر مطلوب ہے۔ہر مقام پر مطلوب ہونے کا مطلب ہے کہ اِنسانی زِندگی کا خاصہ اورسوچ کا بنیادی عنصر ایسابن جائے کہ کوئی بھی قدم غیرمتوازن اورغیرمعتدل نہ اُٹھے۔سماج ومعاشرے میں بہت ساری بیماریاں، کمزوریاں اورمسائل محض اِس وجہ سے پیداہوتے ہیں کہ لوگ اِعتدال اورمیانہ روی کا دامن چھوڑدیتے ہیں۔اس عدم توازن اور غیراِعتدال پسندی کا نقصان کبھی فرد بھی اُٹھاتاہے اور کبھی سماج اورکبھی دونوں مل کر اُٹھاتے ہیں۔
سماج مردوخواتین سے مل کر بنتاہے اس لحاظ سے دونوں کے فرائض واختیارات،ذمہ داریاں اورحدود اگر واضح اورمتعین نہ ہوں تو جانے یا ان جانے میںٹکرائو کا اندیشہ اوراِمکان ہوتاہے اوراگر ان حدود وفرائض اورذمہ داریوں کو واضح طورپر متعین کردیاجائے تو ہر قسم کے تصادم اورٹکرائو سے محفوظ رہا جاسکتاہے۔ اس میں بھی اعتدال اور میانہ روی کی ضرورت ہے اوراہمیت بھی۔اگر غیرمعتدل اور میانہ روی سے ہٹ کر کوئی راہ متعین کی جائے گی تو اس کے نتائج اچھے نہ ہوںگے۔
اس وقت دُنیاکے تمام ہی معاشرے اپنی عملی زندگی میںعدم اِعتدال اورافراط وتفریط کا شکارہیں اوران کا افراط وتفریط اورعدم اعتدال کا شکارہونا کوئی باعث حیرت وتعجب نہیں۔اِس لیے کہ اُن کے پاس کوئی ایساخدائی حکم نامہ موجودنہیں جو اُنھیںاِس بیماری سے بچنے کی راہ سجھاتاہو یا اُنھیں کم ازکم اس اہم بیماری کے اسباب وعلامات سے آگاہ کرتاہو۔مگر اُمت مسلمہ کے افرادکا اس بیماری سے دوچار ہوناافسوس ناک بھی ہے اورحیرت انگیز بھی اِس لیے کہ یہ اُمت خدا کے پیغام کی حامل اوراُس کی تعلیمات کی علم بردار ہے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے اعتدال ومیانہ روی کا فارمولا واضح کردیاتھا اورتعلیم دی تھی کہ وہ ہر معاملہ میں ’وسط‘یا اِعتدال کو اپنائیںگے۔ مگر اُمت اس سے ناواقف ہو گئی۔
معاملہ سماج میں مردوعورت کے باہمی تعلق اورآزادی کا ہوتوایک طرف توعورت کی آزادی کا وہ تصورپیش کیا جاتاہے جو مغرب میںآج ماڈل کے طورپر چل رہاہے۔جہاں عورت ہر قسم کی سماجی،اخلاقی اوراِنسانی حدود سے آزاد ہے۔رہا مذہبی حدود کا معاملہ تواُن کے یہاں وہ پہلے ہی منہدم ہوچکیں۔ دوسری طرف مشرق کا وہ معاشرہ ہے جس میںخواتین کو بہ حیثیت اِنسان ملی آزادی کو بھی استعمال کرنے کا حق نہیںہے۔ یہاں تک کہ اپنی ذات سے متعلق بنیادی فیصلے بھی اس پر تھوپے جاتے ہیں۔اسے معاشی،سیاسی اورخاندانی معاملات تک میں اِنسانی آزادی میسرنہیں۔اوربعض معاشروں میں تواسے سیاسی حق رائے دہی تک نہیںدیاجاتا۔یہ عدم توازن کی ایک کیفیت ہے۔ اس کیفیت میںمشرق کا پوراسماج شامل ہے۔ گویاایک طرف مطلق اوربلاحدود آزادی ہے تودوسری طرف ہر قسم کی پابندی جسے بعض لوگ قید بھی قرار دیتے ہیں۔
اس کیفیت سے مسلم سماج بھی بعید نہیں ہے۔ مسلم سماج میںبھی یہ دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں۔ یہاں بھی تعلیم یافتہ خواتین کا ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو مغربی طرز کی آزادی کا قائل ہی نہیںبلکہ مبلغ بھی ہے۔ ان خواتین کے نزدیک اللہ ورسول کی ہدایات کوئی معنی نہیںرکھتیں۔ خواتین کی گھریلو ذمہ داریاں اور بچوں کی پرورِش وپرداخت ان کے لیے وہ بیڑیاں ہیں جوان کے خیال میں مذہبی ٹھیکے داروں نے ان کے لیے تیارکی ہیں۔ان کے نزدیک لباس کی کوئی حدود وقیود نہیں،پردہ اورمردوں سے اختلاط کی بے قید ممانعت تصورآزادی کے خلاف ہیں۔اس کے برعکس ایک طبقہ وہ ہے جو اسلام کے ماننے والا تصور کیاجاتاہے۔ اُن کے یہاں آزادی وپابندیوں کا تصورایساخلط ملط ہوگیا ہے کہ وہ بہت ساری دینی تعلیمات کو مادہ پرستی کی دین یادین میں نئے’مجتہدین‘کا اِجتہاد تصورکرتے ہیں یا صاف طور پراسے مغرب سے مرعوبیت کا لبادہ اُڑھادیتے ہیں۔
ایک طرف اسلام اوراس کی تعلیمات سے ناواقفیت ہے تودوسری طرف ناواقفیت پر مبنی محتاط ’’تدابیر‘‘ ہیں۔ جب کہ رسولؐ اورآپ کے صحابہ کی زندگیوں کے نمونے ہمارے سامنے ہیں مگر ہم اپنے سماجی، معاشرتی اورخاندانی روایات وتصورات پر اُنھیں ترجیح کے قابل نہیں سمجھتے۔یہ ایک تشویشناک صورت حال ہے اورکیوںکہ بعض لوگ اسے دین سے جوڑکر پیش کرتے ہیں اس لیے یہ الزام اِسلام پر عاید کیا جاتاہے کہ وہ عورتوں کو قید میںرکھتاہے۔ حالانکہ اِسلام کی تعلیمات اپنے معنی ومطالب میں بالکل واضح اور عملی ہیں۔ان کو متعین کرنے والی اتھارٹی وہ ہے جو اِنسانوں کی ضروریات اوران کے مزاج سے سب سے زیادہ واقف ہے کیوںکہ وہی ان کی تخلیق کرنے والی ہے اور اس نے اپنی تخلیق کے عین مطابق وہ ہدایات جاری کی ہیں۔
بعثت نبوی کے وقت خواتین کی جو حالت زارجزیرۂ عرب میں تھی اس کو بکثرت بیان کیاجاتاہے اور پھر رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی ہدایات کے مطابق ان کے مقام ومرتبے کو جس قدربلند کیااہل اِسلام اس کو بھی خوب بیان کرتے ہیں۔مگرحقیقت میںاس کی جھلک آج کے مسلم معاشرے میںکم ہی نظرآتی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ کیاہے اس پر مسلم سماج کے علماودانشوروں کو غوروفکر کرناچاہیے۔ ہمارے خیال میںاللہ کے رسولؐ نے خواتین کو آزادی وتکریم ہی عطا نہیں کی تھی بلکہ اُن کے فکر وفہم کو اِتنابلند کردیاتھاکہ وہ اپنی قدرومنزلت کو سمجھنے اوراپنی آزادی کو برتنے اوراِستعمال کرنے کے قابل ہوگئی تھیں۔اس لیے کہ آزادی سے زیادہ اہم بات آزادی کو برتنے اوراس کا فائدہ اُٹھانے کا سلیقہ اورشعورہے اوراگریہ سلیقہ اورشعورنہ ہو تو یا توتصادم اورٹکرائو پیدا ہوتا ہے یا پھر آزادی کا استعمال اوراس سے اِستفادہ ممکن نہیں ہو پاتا۔ہمارے خیال میں اس وقت مشرق ومغرب دونوں کا مسئلہ یہی ہے کہ دونوں ہی قسم کی خواتین آزادی کو برتنے اوراس کے مناسب استعمال کے شعورو سلیقہ سے ناواقف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت مغربی سماج میںمردوعورت کے درمیان ٹکرائو اورتصادم کی کیفیت ہے اوراس کیفیت نے سماج کو توڑپھوڑدیاہے۔
مسلم سماج کو اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اورعہدرسالت کی طرف لوٹ کر یہ دیکھناچاہیے کہ وہاںکی خواتین کس طرح اپنی آزادی اوراپنے حقوق واختیارات کو احسن طریقے سے برتنے کے قابل ہوگئیں تھیں کہ وہاں مردوں اورعورتوں کے درمیان کوئی ٹکرائو نہیںہوا،کوئی تصادم نہیںہوا اورسماج نہ صرف یہ کہ کسی ٹوٹ پھوٹ کا شکارنہیںہوابلکہ اِنتہائی مضبوط اورمستحکم ہوگیا۔
اس پہلوسے عہدرسالت میںخواتین کے ذہن وفکر کے اِرتقا کا مطالعہ مسلم خواتین کو بھی کرنا چاہیے اورعلماودانشوروں کوبھی۔ یہ موجودہ مغربی سماج کے ٹکرائو کے تناظرمیں بھی ضروری ہے تاکہ اس کے سامنے ٹکرائو کے مقابلہ میں اِستحکام کا فارمولاپیش کیاجاسکے اورخودمسلم سماج کو بھی اس کے فوائد سے بہرہ مند ہونے کا موقع حاصل کرنے کے لیے بھی۔
شمشاد حسین فلاحی