اس کا نام— ؟!
نہیں … نہیں، میں اس کا نام نہیں بتاؤںگا۔ کیونکہ اس دیش میں نام پر فسادات ہوتے ہیں، نام دیکھ کر گھروں کو ہی نہیں انسانوں کو بھی زندہ جلادیا جاتا ہے اور عورتوں کی عزتیں لوٹ لی جاتی ہیں۔ نام ہی سرِ عام زندگیاں سنوارنے اور اجاڑنے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس دیش میں اب صرف اور صرف نام کی اہمیت رہ گئی ہے۔ اسی لیے نام بدلو ابھیان شروع ہوچکا ہے — بدلو نام شہروں کے، چوراہوں کے، اسٹیڈیم کے، محلوں کے، گلیوں کے، چھوڑ دو دیش کے سارے ترقیاتی کام۔
اس کا حلیہ— ؟!
نہیں… نہیں، میں آپ کو اس کا حلیہ بھی نہیں بتاؤں گا کیوں کہ حلیہ دیکھ کر محبت اور نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ دشمنی اور دوستی کی جاتی ہے۔ حلیہ دیکھ کر ہی کردار پر لیبل چسپاں کیا جاتا ہے، وطن پرست اور غدارِ وطن کا لیبل، اچھے اور برے انسان کا لیبل، آتنک وادی کا لیبل ،کہیں ایسا تو نہیں ہمارے سماج میں صرف انسان کا حلیہ ہی رہ گیا ہے۔ حلیہ کے اندر کا انسان نہیں۔ کہیںانسان مرتو نہیںگیا؟!
میں اسے آدمی کہوں گا۔
وہ آدمی: میری اور آپ کی طرح اس دیس کا رہنے والا آدمی ہے۔ برسوں سے اس کے آباءو اجداد بھی یہیں رہتے تھے۔ میرے آپ کے آباءو اجداد کی طرح …
ازراہِ کرم آپ یہ نہ پوچھئے گا کہ اس کے آباء واجداد کی قومیت کا سرٹیفیکٹ اس کے پاس ہے؟! کیا آپ کے پاس سیکڑوں سال قدیم اپنے آباء و اجداد کا کوئی ایسا سرٹیفکٹ ہے جو یہ ثابت کرسکے کہ وہ اس دیش کے رہنے والے تھے؟ دیش کے ایسے ماحول میں جب زندگی کے لیے جینا ایک دقت طلب کام بن گیا ہے، بے روزگاری، مہنگائی، دہشت، خوف و ہراس کا وکاس، ایسے ماحول میں باپ دادا کی قومیت کا سرٹیفیکٹ کا سوال کتنا بے تکا لگتا ہے نا؟! خیر میں کہہ رہا تھا کہ وہ آدمی میری اور آپ کی طرح اس طرح دیش کا رہنے والا آدمی تھا۔
اس کا بھی ایک گھر تھا… میر ی اور آپ کی طرح گھر۔ گھر میں ماں باپ، بھائی بہن، بیوی بچے سب تھے۔ جس گھر میں وہ پیدا ہوا تھا وہ پہلے مٹی کی دیواروں اور کویلوں کی چھت کا گھر تھا۔ چھوٹا سا گھر، فیملی کے لیے ناکافی گھر … باپ نے اپنی محنت کی کمائی سے اس گھر کو دومنزلہ بنادیا تھا جو اس کی پوری فیملی کے لیے کافی ہوگیا تھا۔ اس گھر میں وہ اپنے ماں، بھائی بہنوں اور بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔
اس کا کوئی نمبر دو کا دھندا نہیں تھا۔ نہ اس کے باپ کی ہی نمبر دو کی کمائی تھی۔ باپ فروٹ کا کاروبار کرتا تھا اور وہ کپڑوں کی تجارت۔ دو نمبری دھندے کیسے کیے جاتے ہیں یہ تو اس کے خاندان میں کوئی نہیںجانتاتھا۔ محنت کی کمائی کھانا اور شرافت سے رہنا، نہ کسی سے گالی گلوج، نہ جھگڑا۔ وہ ساری خوبیاں اسے وراثت میں ملی تھیں جو ایک اچھے شہری اور نیک انسان میں ہوتی ہیں۔ وہ سب اچھی باتیں جو اخلاقی کتابوں میں درج ہیں اور جنھیں آج کل دیمک چاٹ رہی ہے، اس میں موجود تھیں اور وہ عہد نامہ جو اسکول کی نصابی کتابوں میں ہے جسے وہ زمانۂ طالب علم میں پڑھا کرتا تھا، وہ عہد میں نے اپنے زمانۂ طالب علمی تک ہی یاد نہیں رکھا بلکہ وہ اس عہد پر اپنی عملی زندگی میںبھی گامزن رہا …. دیش کے آئین پر عمل کرتا رہا …
پھر وہ سب کچھ کیوں ہوگیا جس کا اسے کبھی گماں بھی نہیں ہوا تھا۔ وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ کاروبار کے سلسلے میں وہ گاؤں سے ایک ہفتے کے لیے باہر گیا تھا۔ جب وہ گاؤں سے نکلا تھا تب تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ وہ گھر سے حسبِ معمول سب سے مل کر نکلا تھا۔ بیوی نے اس کے لیے ٹفن تیار کیا تھا اور اس کی بیٹی نے اس کے لباس استری کرکے سوٹ کیس میں رکھے تھے۔ بہن نے اس سے چوڑیاں لانے کی فرمائش کی تھی۔ بیوی نے ساڑی، بیٹی نے شلوار فراک کا سوٹ اور بھائی پتلون اور قمیص کے کپڑے۔ وہ سب کی فرمائش کی فہرست اپنی قمیص کی جیب میں رکھ کر گھر سے نکلا تھا۔
گھر کے باہر کا ماحول بھی اس وقت خوشگوار اور پرامن تھا۔ شناسا لوگوں سے آداب، نمسکار، السلام علیکم کرتے ہوئے وہ گاؤں سے روانہ ہواتھا۔ اسے شہر میں پتہ چلا تھا کہ اس کے گاؤں میں بلوا ہوگیا …. کیوں ہوا؟ وہ نہیں جانتا تھا۔ اس کا گاؤں پرامن تھا۔ گاؤں والے امن پسند تھے۔ پھر گاؤں میں بلوا کیسے ہوگیا۔ کسی بھی اخبار میں اس کے گاؤں میں دنگا بھڑکنے کی معقول وجہ شائع نہیں ہوئی تھی۔ ہاں یہ لکھا تھا کہ پڑوس کے شہر میں کچھ شر پسند عناصر کی وجہ سے دنگابھڑکا اور اس کا اثر آس پاس کے دیہاتوں پر ہوا جیسے دنگا کوئی شعلہ ہو یا سوکھے جنگل کی آگ ہو۔ ایسا تو نہیں کہ اب ہمارا سارا سماج مہذب اور تعلیم یافتہ سماج نہیں رہا بلکہ جاہل گنوار، وحشی درندہ صفت انسانوں کا گروہ بن گیا ۔ یا کچرا … کوڑا کرکٹ کا ایک ڈھیر جسے کوئی بھی جب چاہے سلگادے…!
خبر پڑھ کر اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کے امن پسند گاؤں میں بھی دنگا ہوسکتا ہے۔ جو بھائی چارگی کی ایک مثال تھا۔ جہاں عید ہندوؤںکے لیے پیغامِ نشاط اور دیوالی مسلمانوں کے لیے رونق ہوتی تھی۔ مسلمان اپنے ہندو ہم سایوں اور ہند واپنے مسلمان پڑوسیوں کو ان کے بین خاندانی تعلقات کے لحاظ سے بھائی ، چاچا، دادا، ماموں، کاکا، ماما، انکل ، آنٹی وغیرہ کہہ کر پکارتے تھے۔ خوشی، غم، تقریبوں اور تہواروں میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک رہتے تھے۔ قومی یک جہتی کی مثال تھا اس کا گاؤں!
جب وہ اپنے گاؤں پہنچا تو اسے لگا کہ جیسے وہ بھٹک کر اپنے گاؤں میں نہیں، کسی انجان اور اجاڑ بستی میں پہنچ گیا ہو۔ تباہ شدہ بستی میں۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے زلزلہ سے تباہ گاؤں دیکھا تھا۔ ایسی تباہی تو زلزلہ سے بھی نہیں آئی تھی جو انسانوں نے اس کے گاؤں میں مچائی تھی۔ انسان اتنا ظالم، اتنا جابر، اتنا سفاک درندہ بن سکتا ہے یہ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا۔
گاؤں کی تباہی دیکھ کر وہ سوچنے لگا کاش! وہ اس دیش میں انسان بن کر نہیں جانور بن کر آتا تو یہاں کے کچھ ’’دیش بھکت‘‘ کہلانے والے، کچھ ’’سماج سیوک‘‘ سمجھے جانے والے، لیڈر، نیتا اس کی بقا کے لیے آندولن کرتے … مورچے نکالتے، دھرنے دیتے۔ قوانین بناتے، اس کی حفاظت کے لیے سر دھڑ کر بازی لگادیتے۔ اس ’’وشو گرو‘‘ کے دعویدار دیش میں جانور کتنا قیمتی اور مقدس بن گیا ہے اور انسان فرقوں، دھرموں، ذاتوں کے نام پر آوارہ سانڈ کی طرح لڑ رہا ہے۔ کاش! وہ اس دیش میں انسان کے روپ میں پیدا نہ ہوتا۔
آج پہلی بار اسے لگا کہ اس کی روح ایک ایسے جسم میں جی رہی ہے جو ذات، دھرم اور قوم کے لیبل سے بے حیثیت بن چکا ہے۔ بے اختیار اس کا جی چاہا کہ وہ اپنے بے حیثیت جسم سے کہیں نکل بھاگے۔ کاش! جسم سے نکل بھاگنا اس کے اختیار میں ہوتا!
اپنی اس ناکام چاہت کے احساس سے اس کے شریانوں میں لہو سنسنانے لگا۔ دل و دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں، مگر آندھیوں میں بھی امید کی ایک شمع روشن تھی، اسے یقین تھا کہ جس محلے میں وہ رہتا ہے اس محلے کے ہر چھوٹے بڑے شخص کے ساتھ اس کے اور اس کے آباء واجداد کے برسوں پرانے رشتے تھے۔ من اور خاندانی تعلقات کے لحاظ سے بھائی بہن، انکل آنٹی، چاچا چاچی، دادا دادی، ماموں ممانی، کاکا ، کاکی وغیرہ کے رشتے۔
میرا گھر اور میرے اہل و عیال سلامت ہوں گے، کیوں کہ میرے پڑوسی، میری ذات و دھرم کے نہ ہونے کے باوجود، وہ سب میرے ہیں میرے انکل، میرے ماما، میرے کاکا، چاچا … وہ میرے اہل وعیال کے محافظ بن گئے ہوں گے۔
اس اعتماد کے ساتھ وہ تقریباً دوڑتے ہوئے اپنے محلے میں پہنچا… اس کے دھرم والوں کے سارے مکانات تباہ ہوچکے تھے اور اس کا گھر — ! محنت اور ایمانداری کی کمائی سے بنائی ہوئی اس کی دو منزلہ عمارت تقریباً ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی … جھلسی ہوئی اینٹوں اور پتھروں کا ایک انبار اس کا گھر ….
اپنی تباہ شدہ عمارت دیکھ کر اس کا جی چاہا کہ وہ چہرے سے اپنی آنکھیں نوچ کر پھینک دے۔ اس کی آنکھیں دہشت سے کنپٹیوں تک پھٹ گئی تھیں۔ کچھ دیر کے لیے وہ سکتے کے عالم میں کھڑا رہا۔ اپنے پڑوسیوں کے مکانات دیکھے… شیشے کی کھڑکیوں اور دروازوں والے مکانات صحیح سلامت تھے۔ ایک شیشہ بھی ٹوٹا نہیں تھا۔ جیسے دنگا منظم طریقے سے کرایا گیا ہو پلاننگ کے ساتھ چن چن کر مکانات اور زندگیوں کو تباہ و برباد کیا گیاہو۔
اس نے اپنے پڑوسی’انکل‘ کے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ کھلا۔ اسّی سال کے عمر رسیدہ انکل اس کے سامنے کھڑے تھے۔ جھریوں زدہ چہرہ، بدن، اتنا کمزور اور نحیف جس پر سفید ململ کی قمیص ایسی لگ رہی تھی جیسے پہنا ہوا نہ ہو کندھوں کے ہینگر نما ہڈیوں میں لٹکا ہوا ہو۔
انکل نے دیکھتے ہی فوراً اسے بانہہ پکڑ کر گھر میں اس طرح کھینچا جیسے باہر اس کی جان کو خطرہ ہو اور پھر فوراً سے پیشتر دروازہ اندر سے بند کرلیا۔
انکل بغیر پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہے تھے۔ اُن کا سارا بدن لرزہ کے مریض کی طرح کانپ رہا تھا۔ آنٹی اور اُن کی دونوں بیٹیاں اسے دیکھ کر کمرے سے نکل آئی تھیں۔ ان کے چہرے دہشت زدہ تھے۔ وہ چہرے جو اسے دیکھ کر پھول کی طرح کھل اٹھتے تھے، آج خوف زدہ تھے۔
انکل نے بے اختیار اسے اپنی بوڑھی بانہوں میں بھینچ لیا، اس شدت سے جیسے وہ اسے اپنے سینے میں بھرلینا چاہتے ہوں اور پھر انکل پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ وہ بھی سسک رہا تھا۔ آنٹی اور ان کی دونوں بیٹیوں کی آنکھوں سے بھی آنسو کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔
انکل رو رو کر کہنے لگے : ’’بیٹا!— میں مجبور تھا۔ میں بوڑھا، کمزور کچھ نہ کرسکا۔ میرا کوئی جوان بیٹا بھی نہیں جو تمہارے گھر کی حفاظت کرسکتا… ایسا دنگا جب دیش آزاد ہوا تھا تب بھی نہیں ہوا تھا۔ ہاں تب میں جوان تھا، اسی محلے میں میں نے تمہارے خاندان والوں کو بلوائیوں سے بچایا تھا۔ تب میں جوان تھا بیٹا، طاقتور تھا، ذی حیثیت تھا۔ میرا حکم مانا جاتا تھا۔ میرے اصولوں، آدرشوں کا احترام کیا جاتا تھا۔ اب میں بوڑھا، کمزور، لاغر ہوچکا ہوں، میرے اصولوں اور آدرشوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ میں نہیں بچاپایا…!‘‘ وہ ہسٹریائی مریض کی طرح سرہلاتے ہوئے ہچکیاں لے کر کہہ رہے تھے۔ ’’میں کچھ نہیں کرسکا — کچھ نہیں کرسکا — کچھ بھی نہیں!‘‘
انکل کے الفاظ وزنی ہتھوڑے کی طرح اس کے سر پر برس رہے تھے۔
’’میری بیوی بچے، میرے ماں باپ، میرے بھائی بہن!‘‘ وہ سسک کر پوچھنےلگا۔
’’انھوں نے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑا۔ تمہارے پانچ سال کے بچے کو بھی نہیں!‘‘
’’نہیں انکل — نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا انکل! ایسا کیسے ہوسکتا ہے!‘‘ وہ ہذیانی کیفیت میں چیخ پڑا۔ ’’آپ کے ہوتے ہوئے بھی ایسا کیسے ہوا انکل— ؟!‘‘
’’میں بوڑھا، کمزور ہوچکا ہوں بیٹا۔ میری آواز نہیں سنی جاتی!‘‘ انکل کے چہرے کی جھریوں میں پشیمانی کے آنسو اتر رہے تھے۔‘‘
’’میں اب کیا کروں انکل!‘‘ اس کی آنکھوں میں جیسے خون اتر آیا تھا۔ اس کے اندر اب وہ سب دہک اٹھا تھا جو باہر ان لوگو ںنے جلادیا تھا۔ برباد کردیا تھا۔ پوری طرح نیست و نابود اس کے ماں باپ، بھائی بہن اور اس کی بیوی، وہ ننھا سا پانچ سال کا اس کا بیٹا، ان سب کی لاشیں اس کے ذہن کے تپتے ہوئے ریگستان میں بے گوروکفن پڑی تھیں۔ آتنک کے بھوکے گدھ ان لاشوں پر منڈلا رہے تھے۔
’’میں کیا کروں انکل — ! اب کس کے لیے جیئوں، کیسے جیئوں؟‘‘ دنیا جہاں کا غم، طیش اس کے لہجے میں سمایا ہوا تھا۔ گھٹے ہوئے غم و غصہ کے گرم آنسو اس کی آنکھوں سے چھلک رہے تھے۔
انکل، آنٹی اور ان کی دونوں بیٹیاں جواب میں آنسو بہا رہی تھیں — وہ سوٹ کیس، جس میں وہ اپنی ماں کے لیے ساڑی، باپ کے لیے بہترین قسم کا لباس اور بہنوں کے لیے چوڑیاں بیوی کے لیے زیور خرید کر لایا تھا، فرش پر رکھ کر باہر جانے کے لیے واپس پلٹا۔
’’باہر نہ جاؤ بیٹا— ! باہر کرفیو لگ چکا ہے۔ تمہاری جان کو خطرہ ہے۔‘‘
’’مگر کل وہ گھر میں بھی تلاشی کے لیے آسکتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’کچھ نہیں ہوگا، میں تمھیں اپنے سینے میں چھپا کر رکھ لوں گا بیٹے، تم میرے پڑوس کے خاندان کی آخری نشانی ہو، میں تمہاری حفاظت کروں گا۔‘‘ انکل سسک سسک کر کہہ رہے تھے۔
وہ لمحہ بھر کے لیے رکا، انکل کو آنسو بھری نگاہوں سے دیکھا اور بولا ’’انکل — ! کاش آپ بوڑھے اور کمزور نہ ہوتے — ‘‘ اور پھر آنسو پونچھتے ہوئے وہ گھر سے باہر نکل گیا۔