عورت ایک ماں بھی ہے، بیٹی بھی اور بیوی بھی۔ ماں کی حیثیت سے وہ ایک عظیم اور بے انتہا شفیق ہستی ہے۔ بیٹی کے روپ میں اطاعت گزار اور فرمانبردار اور بیوی کے روپ میں فرمانبردار اور وفادار۔ مغرب فخریہ کہہ سکتا ہے کہ اس کی تہذیب نے بہترین خواتین سائنس دان، خواتین پولیس، خواتین اسٹینو گرافرس و وکیل، خواتین ایگزیکٹیوز پیدا کی ہیں۔ لیکن مغربی تہذیب شفیق مائیں، اطاعت گزار بیٹیاں اور وفادار بیویاں نہیں پیدا کرسکی۔
یہ طرہ امتیاز تو صرف اسلام کو حاصل ہے۔ اسلام مرد و عورت کو مساوی حقوق دیتا ہے لیکن جہاں تک فرائض کا تعلق ہے وہ حدودِ کار مقرر کرتا ہے۔ چونکہ مرد کی جسمانی ساخت مضبوط ہوتی ہے، اس لیے اس کو گھر کے باہر کے کاموں کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ محنت و مشقت، دوڑ دھوپ، بیوی بچوں کے اخراجات کی ذمہ داری مرد پر فرض کی گئی ہے۔ عورت کو نازک اندام، نہایت شفیق، صابرہ اور ایثار و قربانی کا مجسمہ بناکر گھریلو کام کاج، بچوں کی نگہداشت و تربیت، شوہر کی خدمت و اطاعت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ عورت گھر کی ملکہ ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے لباس ہیں اور نصف بہتر بھی، ایک نیک اور پاکیزہ بیوی مرد کا بیش بہا سرمایہ قرار دی گئی ہے۔
ہر دور میں اور دنیا کے ہر مذہب میں جب تک عورت گھر کی چار دیواری میں رہ کر اپنے فرائض بخوبی انجام دیتی رہی معاشرے میں سکون ہی سکون رہا۔ مرد گھر کی ساری ذمہ داریوں کو عورت کے سپرد کرکے اطمینان کے ساتھ باہر کی دنیا میں کامیابی و کامرانی سے ہم کنار ہوتا رہا اور ترقی اس کے قدم چومتی رہی۔ ماں کی شفیق گود میں پروان چڑھ کر بچہ اپنے وطن کا جانباز سپاہی، اپنی قوم کا خادم اور اپنے دین و دھرم کا علمبردار و مجاہد بنا رہا۔ صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین، بزرگانِ دین، مجاہدِ اسلام وغیرہ کی مائیں گھر کی چہار دیواری میں رہ کر ہی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کرتیں۔ مولانا محمد علی کی امی جان کی نصیحت تا قیامت ہر دور میں گونجتی رہے گی۔ ’’بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘ چودہ سو سال پہلے جب حضرت عبداللہ ؓ بن زببیر نے سفاک حجاج بن یوسف کے خلاف تلوار اٹھائی اور اپنی بوڑھی نابینا ماں حضرت اسماءؓ بنت ابوبکر سے رخصت لینے گئے تو سوسالہ نابینا ماں نے بدن کو چھوا اور پچہتر سالہ عبداللہؓ کے بدن پر زرہ کو محسوس کیا تو فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد پر جارہے ہو تو تمہارے بدن پر زرہ زیب نہیں دیتی۔ اس کو اتاردو اور جاؤ اللہ کی راہ میں شہید ہوجاؤ۔‘‘ یہ تھیں کل کی مائیں، کل کی عظیم فردوسی عورتیں!
اور آج کی عورت کیا گل کھلا رہی ہے؟ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید میں اپنے اعلیٰ اور ارفع فرائض کو بھول چکی ہے۔ مردوں کی برابری کے چکر میں اپنی بربادی کی طرف رواں دواں ہے، اس پر عائد کی گئی ذمہ داریاں ہی کافی تھیں لیکن نادان عورت باہر کی دنیا میں قدم رکھ کر اپنے بوجھ کو بڑھا رہی ہے۔ مرد کے شانہ بشانہ چلنے کے چکر میں مرد کا کماؤ ہاتھ بن کر اور اس کی ہوس بھری نظروں کا نشانہ بن کر اپنے آپ کو ذلیل کررہی ہے۔ گھر میں پورے عزت و وقار، سرور و سکون کے ساتھ رانی بن کر بیٹھنے کے بجائے مرد کے ہاتھوں کٹھ پتلی و کھلونا بن کر سوسائٹی کی تتلی بنی ہوئی ہے۔ مرد بہت خوش ہے کہ عورت نے مرد کی ذمہ داریوں کاآدھا بوجھ اپنے سر لے لیا ہے۔ حالانکہ عورت کے بنیادی فرائض میں وہ حصہ دار نہیں بنتا۔
کماؤ عورت کی حالت دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہے۔ لیکن افسوس اس کو ہوش نہیں۔ اس کی کمائی سے معیارِ زندگی ضرور بڑھ گیا ہے، گھر عیش و عشرت کے ساماں سے بھر رہا ہے۔ لیکن فیملی لائف اور ازدواجی زندگی منتشر ہورہی ہے۔ بچے نوکروں اور بے بی سٹروں کے حوالے ہورہے ہیں اور ماؤں کی لمس، لاڈ اور لوریوں سے محروم ہورہے ہیں اور محرومی اور پژمردگی کا شکار ہیں۔ ماؤں کی غیر حاضری میں درسی کتابوں کی پڑھائی کم اور ٹی وی زیادہ دیکھتے ہیں۔ اس طرح بچے تعلیم میں دلچسپی کھو رہے ہیں اور ٹی وی کے تباہ کن اثرات کا شکار ہورہے ہیں۔ نوعمر بچوں پر اس کے زیادہ برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
ایک تھکی ہوئی کماؤ بیوی شوہر کے جائز حقوق بھی پورے نہیں کرپاتی۔ اس لیے شوہر شاکی اور اپنی ازدواجی زندگی سے غیر مطمئن رہتا ہے۔ اپنی پریشانی اور جھنجھلاہٹ کو سگریٹ و شراب میں ڈبو دیتا ہے۔ بیوی سے جنسی آسودگی نہ ملنے کے نتیجے میں ذہنی عیاشی اور بدکاری میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ زندگی میں تلخیاں بڑھنے لگتی ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے پر الزام تراشنے لگتے ہیں۔ چونکہ عورت کماؤ ہوتی ہے شوہر کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ انا پرستی کے چکر میں یا تو طلاق کی نوبت آجاتی ہے یا مرد زنا کاری یا دوسری بیوی کے چکر میں پڑ جاتا ہے۔ ان جھگڑوںمیں معصوم بچوں کی زندگیاں تباہ ہوجاتی ہیں۔
یہ ہے اس ترقی یافتہ مغربی سماج کی صورتِ حال جو اب بتدریج دنیا کے ہر گوشے میں فروغ پارہی ہے اور خود ہمارے ہندوستانی سماج میں بھی اسی کو ترقی و تہذیب کی علامت تصور کیا جارہا ہے اور بے چاری آج کی عورت اسی تہذیب کے پیچھے بگ ٹٹ بھاگی جارہی ہے۔ اس عریان تہذیب کے پھول پھل اور نتائج دیکھنے کے بعد بھی کیا ہماری خواتین کی آنکھیں نہیں کھلیں گی۔ اگر اب بھی انھوں نے اس کھلی حقیقت کا مشاہدہ کرکے خود کو اور اپنے سماج کو اس کی بربادیوں سے بچانے کی فکر نہ کی تو ہمارے سماج کا بھی وہی حال ہوگا جو یوروپ اور امریکہ کے سماج کا ہوچکا ہے۔ اس لیے مسلم خواتین کو چاہیے کہ وہ اس خطرے اور تباہی کو محسوس کریں اور اس سیلابِ بلا کے سامنے بند باندھنے کے لیے اٹھ کھڑی ہوں۔
——