ہم سب مسلمان ہیں اور اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ دنیا ہمیشہ نہیں رہے گی اور قیامت ہوگی، اس دن سارے انسانوں سے ان کی پوری زندگی کا حساب لیا جائے گا ، ان کے خیالات و احساسات کا، ان کے جذبات وخواہشات کا، ان کی نیت و ارادوں کا، ان کے اخلاق و معاملات کا اور ان کے فکر وعمل کی تمام تر کوششوں کا حساب کتاب ہوگا اور حساب لینے والی وہ ذات ہوگی جس کے علم اور گرفت سے کوئی انسان بھی باہر نہیں ہے۔یہ دنیا کی زندگی کیا ہے خود اللہ رب العالمین نے اس کی وضاحت فرمادی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ماہذہ الدنیا الا لہو و لعب وان الدار الآخرۃ لہی الحیوان۔
(العنکبوت)
’’یہ دنیا کچھ نہیں ہے مگر لہو و لعب اور اصلی زندگی کا گھر آخرت ہی ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا:
قل متاع الدنیا قلیل والآخرۃ خیر لمن اتقیٰ۔ (النساء)
’’کہہ دو اے محمد! کہ متاعِ دنیا تھوڑی سی ہے اور آخرت اس کے لیے بہتر ہے جو پرہیزگاری کے ساتھ زندگی بسر کرے۔‘‘
سورئہ الاعلیٰ میں ارشاد ہوتا ہے:’’تم حیاتِ دنیا کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت زیادہ بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘ اور سورئہ آل عمران میں یوں فرمایا گیا: ’’ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تم کو اپنی اس زندگی کے پورے پورے بدلے قیامت کے دن ملنے والے ہیں۔ اس روز جو شخص آگ کے عذاب سے بچ گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہی اصل میں کامیاب ہوا۔ رہی اس دنیا کی زندگی تو یہ محض دھوکے کا سامان ہے۔‘‘
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دنیا اس کا گھر ہے جس کا (آخرت میں) کوئی گھر نہیں! اور اس کا مال ہے جس کا (آخرت میں) کوئی مال نہیں۔ اور اسے وہی جمع کرتا ہے جس کے پاس عقل نہیں۔‘‘ (احمد، بیہقی)
مسور بن شدادؒکہتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ سے سنا، آپؐ فرماتے تھے: ’’خدا کی قسم دنیا کی مثال آخرت کے مقابلے میں بس ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی ایک انگلی سمندر میں ڈال کر نکال لے اورپھر دیکھے کہ اس پر کتنا پانی لگا رہ گیا۔‘‘ (مسلم)
مطلب یہ ہے کہ دنیا، آخرت کے مقابلے میں اتنی ہی بے حقیقت ہے جتنا سمندر کے مقابلے میں انگلی میں لگا ہوا پانی۔
دنیا کی فانی اور ناپائیدار زندگی ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ آدمی اس پر مرمٹے لیکن اس کا یہ پہلو کس قدر اہم اور کس قدر لائق توجہ ہے کہ یہی فانی زندگی اس حیات جاوداں کو جنم دینے والی ہے جسے ہم عالمِ آخرت کہتے ہیں۔ اسی زندگی کے شب و روز میں ہم اپنی کوششوں سے اس زندگی کو تعمیر کرتے ہیں جس کا عیش بھی جاوداں اور جس کے دکھ بھی ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ جو یا تو انتہائی کامیاب انتہائی حسین و دل کش ہوگی یا پھر ہولناک، انتہائی لرزہ خیز اور انتہائی تکلیف دہ ہوگی۔ یہ جیسی کچھ بھی ہوگی مگر اس کی تعمیر ہمارے ہی ہاتھوں میں ہے اور اسی حیاتِ فانی کے شب وروز اور صبح و شام میں ہے۔ ہم اسے اپنے فکر و عمل کی مسلسل اور انتھک کوششوں و کاوشوں سے جنت بھی بناسکتے ہیں جس کی زندگی اور نعمتیں لازوال ہوں گی۔ اور ہم اپنی پیہم نافرمانی سے اور بغاوتوں سے اسے جہنم بھی بناسکتے ہیں جس کے تصور ہی سے کلیجے منہ کو آتے ہیں اور دم گھٹنے لگتا ہے۔
خدائے رحمان و رحیم کا کتنا زبردست و عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں فانی سے باقی بنانے کا موقع عطا کیا ہے، اس فانی زندگی کو اللہ کی اطاعت میں بسر کرکے ہم ہمیشہ رہنے والی زندگی کی لازوال نعمتیں حاصل کرسکتے ہیں، کتنی نادانی ہوگی اگر ہم اس زریں موقع کو کھودیں جو صرف اور صرف ایک بار ہی ملتا ہے اور پھر کسی قیمت پر نہ مل سکے گا پھر ہم پچھتاتو سکتے ہیں لیکن پچھتانے کا حاصل کچھ نہ ہوگا۔ کیا سچی بات کہی ہے اللہ کے سچے رسول ﷺ نے ’’دانا وہ شخص ہے جو اپنے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اور نادان شخص وہ ہے جو اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی اختیار کرے اور اللہ سے غلط آرزوئیں وابستہ رکھے۔‘‘ (ترمذی ، ابنِ ماجہ)
دوسری ایک حدیث ابوموسیٰ ؓ سے روایت ہے کہ رحمتِ عالم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنی دنیا کو عزیز رکھا، اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے اپنی آخرت کو عزیز رکھا اس نے اپنی دنیا کو نقصان پہنچایا تو تم باقی رہنے والی چیز کو اس پر ترجیح دو جو فنا ہونے والی ہے۔‘‘ (احمد)
جب یہ حقیقت ہے کہ موت ضرور آنی ہے اور اس سے ہرگز مفر نہیں ہے تو دانش مندی کی بات یہی ہے کہ آخرت کی زندگی کو انسان عزیز رکھے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور اپنی ساری زندگی کو پیارے نبی ﷺ کی پیروی کرتے ہوئے احکامِ خداوندی کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کرتا رہے تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ ہماری لغزشوں سے درگزر فرمائے گا اور آخرت میں لازوال کامیابی عطا فرمائے گا۔