آخرت کی فکر

کے۔فاخرہ، وانمباڑی

انسان کی زندگی میں ایسے واقعات بھی پیش آتے ہیں جہاں وہ موت کو بہت قریب سے دیکھتا ہے۔ جیسے طویل بیماری یا اچانک پیش آنے والے حادثات کے وقت یہ شدید احساس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں وقت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اور زندگی کے ان لمحات پر جو اطاعت و عبادت کے بغیر گزرے آدمی ندامت محسوس کرتا ہے۔ پھر ان حالات و کیفیات میں جب وہ موت سے بچ جاتا ہے تو چند روز اسی کیفیت میں رہتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے زندگی کی فریب کاریوں میں کھونے لگ جاتا ہے۔

موت سے غفلت اور آخرت کے تصور کو زندگی میں بڑا دخل ہے۔ اگر انسان ان دونوں چیزوں کو سامنے رکھے تو اس کی زندگی مختلف ہوگی اور وہ برائیوں سے اجتناب کرتے ہوئے نیکیوں کی زندگی گزارے گا۔ لیکن یہ بھی سماج میں پھیلی حقیقت ہے کہ ہم نے موت کو بالکل بھلادیا ہے۔

ہم روزانہ مرنے والوں کو اپنے سامنے گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں مگر کبھی یہ تصور نہیں آتا کہ ایک دن ہم بھی مرجائیں گے۔ نمازِ جنازہ میں شریک ہوتے ہیں تب بھی دنیا کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ ہرشخص کچھ اس انداز میں سوچتا ہے کہ باقی سب مرجائیں گے اور وہ خود نہیں مرے گا۔ حالاںکہ انسان خوب جانتا ہے کہ ایک نہ ایک دن اسے بھی مرنا ہے۔

کیا یہ بات ہم اچھی طرح نہیں جانتے کہ جو لوگ سو سال زندہ رہے وہ بھی مرگئے۔ پھر جب موت اتنی ہی اٹل ہے کہ اس سے کوئی نہیں بچ سکتا تو پھر ہم موت کے بارے میں کیوں فکر مند نہیں ہوتے؟ اور اس کے لیے تیاری کیوں نہیں کرتے؟

اگر کسی شخص کو کوئی اہم سفر درپیش ہو جس پر روانہ ہونے کا وقت اسے معلوم نہ ہو تو کیا وہ اس کے لیے ہر وقت تیار نہیں رہے گا۔ کہ روانگی کی اطلاع ملتے ہی چل پڑے؟

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسان عارضی طور پر آیا ہے اور ہر انسان یہاں ایک خاص مدت گزار کر چلا جانے والا ہے۔ اپنی زندگی میں ہم کچھ دیکھیں یا نہ دیکھیں لوگوں کو پیدا ہوتے اور مرتے ضرور دیکھتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہدایت فرمائی تھی: کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل۔ (دنیا میں اس طرح زندگی گزارو گویا کہ تم اجنبی یا کوئی مسافر ہو۔) ایک اور جگہ اللہ کے رسولؐ نے انسانوں کو آگاہ کیا: ’’میری مثال ایک سوار مسافر کی ہے جس نے تھوڑی دیر ایک پیڑ کے نیچے سایہ دیکھ کر آرام کیا اور پھر چل پڑا۔

دنیا کی زندگی کسی سایہ دار درخت کے نیچے ایک چلتے مسافر کے آرام کی مدت کی طرح ہے۔ جس طرح وہ سایہ دار درخت کی محبت میں گرفتار نہیں ہوتا اسی طرح ہمیں بھی اس دنیا کی محبت میں گرفتار نہیں ہونا چاہیے۔ اس سے زیادہ بدقسمت مسافر کون ہوگا جو اپنی منزل کے لیے نکلا ہو مگر کسی ٹھنڈی چھاؤں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرلے کہ اب مجھے کہیں نہیں جانا بس اس درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں ہی باقی زندگی گزارلینی ہے۔

اللہ کے رسول اور اسلام کی تعلیمات بھی ہمارے سامنے ہیں اور روزانہ مرتے اور پیدا ہوتے لوگوں کو بھی ہم دیکھتے ہیں مگر اس بات پر کبھی ہمیں غوروفکر کرنے کا موقع نہیں ملتا کہ آخر کار ایک روز ہمیں بھی اس دنیا اور یہاں کے تمام مال و اسباب اور آل اولاد کو چھوڑ کر چلے جانا ہے۔ اللہ کے رسول نے کیا قیمتی بات ارشاد فرمائی تھی: اپنی دنیا بنانے کی کوشش کرو جیسے تمہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور آخرت بنانے کی فکر ایسے کرو جیسے تم ابھی مرجاؤ گے۔‘‘

زندگی گزارنے کا اس سے زیادہ متوازن اور شاندار طریقہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ کاش ہم اس پر غور کرتے!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں