اس کے افسانے شائع ہوکر ہر خاص و عام سے خراج تحسین لے رہے تھے۔ اس کے افسانوں کا مجموعہ ’’دل کے ٹکڑے‘‘ بازار میں آیا تو دھوم مچ گئی۔
’’دل کے ٹکڑے‘‘ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ باوجود کثیر تعداد میں کتاب چھپوانے کے پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ ختم ہوگیا اور اب دوسرا بھی ختم ہونے کے قریب تھا۔ مگر مانگ تھی کہ برابر جاری تھی۔
نوشابہ نے اس قلیل مدت اور کم عمری میں جو شہرت حاصل کی تھی وہ قابل تعریف تھی بلکہ اس عمر میں کوئی اس قدر شہرت کا خیال بھی اپنے دل میں نہیں لاسکتا تھا۔ تمام مشہور ومعروف رسائل میں اس کے افسانے شائع ہونے لگے۔ اب وہ بہت زیادہ لکھنے لگی تھی پھر بھی تمام فرمائشوں کو پورا کرنا مشکل تھا۔
والدین نوشابہ کی شہرت اور شاندار کامیابی دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے کہ ان کی بیٹی نے کم عمری ہی میں شہرت کی بلندیوں کا سفر شروع کردیا ہے اور وہ بھی خوش تھے کہ اس کے افسانے مقبول ہورہے ہیں۔
نوشابہ کے والدین اس کے لیے اسی جیسے شریک زندگی کی تلاش میں تھے۔ بہت سے رشتے آئے بھی مگر ان میں انتخاب مسٹر جاوید کا ہوا جو محکمہ جنگلات میں افسر تھے۔ امیر اور وجیہ شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ شریف اور باعزت خاندان سے ان کا تعلق تھا۔ بظاہر وہ نوشابہ کے لیے موزوں ترین شوہر ہوسکتے تھے۔
چنانچہ گفت و شنید کے بعد تاریخ نکاح مقرر ہوئی اور ملک کی یہ نوعمر افسانہ نگار نوشابہؔ مسز جاوید کہلانے لگیں۔
جاوید ایک آزاد خیال انسان تھا۔ سوسائٹی میں وہ عورتوں اور مردوں کے تعلقات کو برا نہیں سمجھتاتھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ نہ معلوم کیوں نوشابہؔ کی افسانہ نگاری کو اچھی نظر سے نہ دیکھتا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ اس مشرقی فضا میں سانس لے رہا تھا جہاں کا مرد اپنی عورتوں کے احساسات اور جذبات تک پر اپنا تسلط جمانے کو اپنی مردانگی خیال کرتے ہیں۔
نوشابہ کے افسانوں میں رومان کی ایک ایسی جھلک محسوس کرتا تھا جس نے اسے نوشابہ کی جانب سے مشکوک کردیا۔ لیکن اس بات کا اس کے پاس کوئی جواز نہ تھا کہ نوشابہ کی افسانہ نگاری کسی رومانی واقعہ کی رہین منت ہے۔ یہ تو بس مرد کی حاکمانہ فطرت کا رد عمل تھا جس نے اس کے ذہن میں ایک خلش پیدا کردی تھی اور وہ اس کی افسانہ نگاری کو اپنی توہین تصور کرنے لگا تھا۔
ایک دن جاوید نوشابہ کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ لکھنے میں محو تھی ’’کیا ہورہا ہے؟‘‘ جاوید نے ذرا ترش ہوکر پوچھا۔
’’افسانہ‘‘ نوشابہ نے عالم محویت سے چونک کر جواب دیا۔
یہ سنتے ہی جاوید کی پیشانی پر بل پڑگئے اور وہ اپنے جذبات پو قابو کھو بیٹھا۔ اس نے غصے سے پھٹتے ہوئے بڑے ترش انداز میں کہا:’’آج میں تم سے صاف صاف کہے دیتا ہوں کہ آئندہ سے افسانے لکھنا ترک کردو۔ کیونکہ میں اسے ذرا بھی پسند نہیں کرتا کہ غیر مردوں کے خطوط تمہارے پاس آئیں۔ امید ہے کہ تم میری مرضی کا خیال کرتے ہوئے یہ سلسلہ بند کردوگی۔‘‘ اور غصہ میں باہر چلا گیا۔ نوشابہ بیچاری سکتے کے عالم میں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔
اس نے جاوید کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی کہ وہ اپنے خیالات کو بدل دے اور اس کو افسانے لکھنے سے نہ روکے جو اس کا دلچسپ مشغلہ اور شخصی حق ہے۔ مگر جاوید نے نوشابہ کی بات پر کوئی توجہ نہ کی بلکہ اپنے بیان کی تکمیل کے لیے اور زیادہ سخت ہوگیا۔
نوشابہ کو جاوید کی جانب سے اس قسم کی ہر گز امید نہ تھی۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ اب کچھ کہنا سننا فضول ہے تو جبراً و قہراً اس نے افسانہ نویسی بند کردی۔ اس کے نازک دل کو کس قدر صدمہ ہوا اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ لیکن پھر بھی ایک وفادار بیوی کی حیثیت سے اس نے اپنے اوپر شوہر کی اطاعت لازم کرلی۔
نوشابہ نے افسانے لکھنا چھوڑ دئے تو اخبارات سے اس کے پاس خطوط آنا شروع ہوگئے جن میں اس سے افسانے لکھنے کی گزارش ہوتی۔ ان خطوط نے نوشابہ کی زندگی کو اور بھی غمناک بنادیا۔ وہ مجبور تھی اور سخت مجبور۔
جاوید کو یہ بات بھی ناگوار تھی۔ چنانچہ ایک دن اس نے کہہ دیا کہ مجھے یہ قطعی پسند نہیں کہ لوگ تمہیں خطوط لکھتے رہیں۔ صاف دل نوشابہ حیران تھی کہ آخر جاوید کو ان باتوں سے نفرت کیوں ہے۔ اخبارات و رسائل کے خطوط آنے میں کیا حرج ہے۔ لیکن وہ کچھ نہ سمجھ سکی۔
آخر کار نوشابہ نے ایک دن جاوید سے کہا کہ ان خطوط کی آمد میں اس کا کیا قصور ہے وہ تو جواب تک نہیں دیتی۔
جاوید نے کہا ’’میں سب کو لکھ دوں گا کہ نوشابہ کی صحت اچھی نہیں ہے۔ اس لیے وہ آئندہ افسانہ نگاری جاری نہ رکھ سکیں گی۔‘‘ اور وہی اس نے کیا بھی۔
نوشابہ کی بیماری کی خبر بہت جلد مشہور ہوگئی جس کسی نے سنا اس نے نوشابہ کی صحت کے لیے دعا کی۔ وہ یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ اس کی عقل حیران تھی کہ جاوید کو کیا ہوگیا اور وہ کیوں شک و شبہ میں پڑا ہوا ہے؟
اب اس کے تمام تفریحی مشاغل بالکل ترک ہوگئے تھے۔ یہاں تک کہ قریبی رشتہ داروں سے بھی خط و کتابت اس نے بند کردی۔ ان ہی تفکرات اور پریشانیوں سے اس کی صحت گرنے لگی۔ اور گرتی ہی چلی گئی۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر جاوید نے وجہ دریافت بھی کی مگر نوشابہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ آخر وہ اس کو بتاتی بھی کیا؟
والدین کو جب اس کی صحت کے خراب ہونے کا علم ہوا تو وہ اپنے ہمراہ اسے اپنے گھر لے گئے۔ اور نوشابہ کا علاج شروع ہوگیا۔
مگر وہاں کوئی بیماری ہوتی تو اس کا علاج بھی ہوتا اسے تو بس ایک ہی مرض تھا اور وہ تھا اس کے محبوب مشغلہ پر قدغن۔ بالآخر اس کی بیماری میں کوئی افاقہ نہ ہوا بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
جب نوشابہ کو یہ یقین ہوگیا کہ اب وہ وقت دور نہیں جب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا کی تمام دلچسپیوں سے بے نیاز ہوجانے والی ہے تو اس میں ضبط کا یارا نہ رہا۔ اس نے ایک افسانہ ’’عورت‘‘ کے عنوان سے لکھا جس میں اس نے شروع سے آخر تک اپنی زندگی کے حالات لکھ ڈالے اور یہ افسانہ رسالہ ’’راز‘‘ میں شائع ہونے کے لیے روانہ کردیا۔ اسی کے ساتھ اس نے ایک خط اور افسانہ کی کاپی جاوید کو بھی ارسال کردی۔
جاوید نے نوشابہ کا خط اور افسانہ پڑھا اس کے حواس جاتے رہے۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس نے نوشابہ کی آرزوؤں کا خون کرکے اس کے ساتھ انتہائی ظلم کیا ہے۔ چنانچہ اسی وقت اس نے نوشابہ کے نام خط لکھا:
نوشابہ خوش رہو!
تمہارا افسانہ ’’عورت‘‘ پڑھا۔ باوجود اس کے کہ میں اس کا مخالف ہوں، داد دئے بغیر نہ رہ سکا۔ افسانہ قریب قریب تمہاری زندگی بلکہ میرا خیال ہے کہ دنیا کی ہر عورت کی زندگی کا خاکہ ہے۔ مگر انجام خدا کرے تمہارا ویسا نہ ہو جیسا کہ تم نے ’’عورت‘‘ میں دکھایا ہے۔
آج تک مجھے اس کا احساس نہ ہوا تھا کہ میں نے تمہاری زبان چھین لی، تمہاری تمناؤں بلکہ زندگی کا خون کیا ہے۔ میں اپنی غلطی پر نادم ہوں۔ امید ہے کہ تم مجھے معاف کردوگی، آئندہ سے میں تمہیں منع نہ کروں گا۔ اب تم شوق سے افسانے لکھو۔
خدا حافظ
(تمہارا خیر طلب جاویدؔ)
اگلے روز کے ’’راز‘‘ میں جب وہ افسانہ شائع ہوا تو بڑے شوق سے وہ اسے پڑھنے بیٹھ گیا۔ ابھی اس نے شروع بھی نہیں کیا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی یہ فون نوشابہ کی موت کی خبر تھی۔ جس نے اس کی زندگی کو تاریکیوں کے غار میں ڈھکیل دیا۔
ایک احساس جرم نے اس کے اندر جھرجھری پیدا کردی۔ پہلے ریسور ہاتھ سے گرا اور پھر وہ بھی دھڑام سے فرش پر ڈھیر ہوگیا۔