آخری مسرت

جوزاس بالتوسس ترجمہ: ضیاء الحسن

وہ خاصی عمر رسیدہ خاتون تھی جو آرام کرسی پر بیٹھی تھی۔ اس کے بازو کرسی کے بازوؤں پر رکھے ہوئے تھے۔ اس نے مجھ سے نرمی سے پوچھا: ’’میں آپ کے لیے کیا کرسکتی ہوں؟‘‘
میں نے اسے بتایا کہ میں ایک طویل عرصے سے سخت بیمار ہوں، مجھے صحت کی کوئی امید نہیں رہی۔ اور یہ کہ میں نے اس کے بارے میں اتنا کچھ سنا ہے اس لیے میں اس سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔
’’کیا آپ نہیں جانتے کہ میں اب پریکٹس نہیں کرتی؟‘‘
’’مجھے علم تھا ڈاکٹر! لیکن میں مرنا نہیں چاہتا۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ مجھے علم ہو کہ کوئی شخص میری مدد کرسکتا ہے۔ چاہے وہ پنشن یافتہ ہی کیوں نہ ہو اور پریکٹس چھوڑ چکا ہو۔‘‘
وہ مسکرائی — لیکن سنجیدہ لہجہ اختیار کیے ہوئے کہا:’’اب جبکہ یہاں بہت سارے ہسپتال، کلینک اور ڈسپنسریاں ہیں آپ میرے پاس کیوں آئے ہیں؟‘‘
میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے کیا جواب دوں۔ وہ خود بھی خاموش تھی اس کے بازو آرام کرسی کے بازوؤں پر تھے۔ اس کی فراخ پیشانی، برف سے سفید بال اور روشن نیلی آنکھیں اس کی شخصیت کے وقار میں اضافہ کررہے تھے، ایسا وقار جسے تکبر سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے بڑی مشکل سے خود کو دروازے کی جانب جانے پر آمادہ کیا۔
’’ٹھہرو — مجھے بتاؤ کہ تمہاری تشخیص کیا کی گئی ہے؟‘‘
’’لاعلاج حد تک عارضۂ ضعفِ قلب۔‘‘
’’لاعلاج —!‘‘
’’ہاں—!‘‘
وہ زیرِ لب مسکرائی— ‘‘ کتنی حیرانی کی بات ہے کہ لوگ آج کل طب میں کتنے ماہر ہوتے جارہے ہیں۔ مجھے ذرا میری چھڑی تو دینا۔‘‘
چھڑی کونے میں رکھی تھی۔ یہ بھاری اور خمدار چھڑی سیب کی لکڑی کی بنی ہوئی تھی۔ وہ چھڑی پر زور دے کر جھکی اور مجھے دیکھا۔ ’’مہربانی کرکے اپنی قمیض اتاردو۔‘‘
اس نے چھڑی کے سہارے چلتے ہوئے میرا معائنہ شروع کیا۔ میرے دل کی دھڑکن سنی میرے سینے اور پشت کو تھپتھپایا، میری نبض دیکھی، مجھے اٹھایا، بٹھایا، لٹایا، دوبارہ اس طرح اٹھایا کہ اپنے وزن پر کھڑا رہوں۔
’’اب تم اپنی قمیض پہن لو۔‘‘
اپنی چھڑی سے کھٹ کھٹ کرتی وہ ایک ملحقہ کمرے میں غائب ہوگئی۔ جہاں اس نے اپنے ہاتھ دھوئے اور کچھ برتنوں کو ادھر ادھر کیا۔ وہ لوٹی تو ویسی ہی بے پرواہ لگ رہی تھی جیسی ابتدا میں تھی۔
’’ڈاکٹر میں نہیں مروں گا نا؟‘‘ میں نے اپنی آواز کو پرسکون رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا : ’’کیا میں مرجاؤںگا؟‘‘
’’ہاں تم مرجاؤگے۔‘‘
مجھے یوں لگا جیسے اگلے ہی لمحے مجھ پر دورہ پڑے گا۔ ویسے ہی شدید دوروں جیسا جو مجھے موت کے کنارے لے آئے تھے۔ اس لمحے میرے دل میں اس عورت کے لیے شدید غصے کے جذبات ابھرے۔ کیا یہ تجربہ کارڈاکٹر یہ تک نہیں جانتی کہ مریضوں سے تلخ سچائیاں چھپائی جاتی ہیں۔ کیا ہوا جو میں مایوس کن حد تک بیمار ہوں اور موت میرے پیچھے اپنے پنجے تیز کررہی ہے۔ ایک ڈاکٹر کو ہمیشہ یہی کہنا چاہیے کہ میں روز بروز بہتر ہورہا ہوں اور جلد ہی بالکل ٹھیک ہوجاؤں گا۔ بہرحال زندگی کے آخری لمحے تک زندگی کا یقین رکھتے ہوئے مرنا زیادہ آسان ہے۔ کیا یہ سب کچھ یہ نہیں جانتی؟‘‘
اس نے گویا میرے خیالات کو پڑھتے ہوئے کہا: ’’ہاں تم مرجاؤگے۔‘‘
’’لیکن ڈاکٹر—!‘‘
’’ہمیں سب کو مرنا ہے۔‘‘ وہ دوبارہ اسی انداز میں کرسی کے بازوؤں پر بازو پھیلا کر بیٹھ گئی۔ ’’کوئی اور انسان ہماری تمہاری جگہ نہیں مرے گا۔‘‘ وہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر کہا: ’’جاؤ اور ایک ہفتے بعد آنا، مجھے سوچنے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔‘‘
’’سوچنے کے لیے؟‘‘
’’ہاں! بعض اوقات ڈاکٹروں کو سوچنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ لیکن آتے وقت اپنی تمام رپورٹیں اور تجزیے لیتے آنا۔‘‘
’’لیکن ڈاکٹر! کیا تمہیں دوسرے ڈاکٹروں پر اعتماد نہیں ہے؟‘‘
’’کیا تمہیں ہے؟‘‘ وہ میری پریشانی پر مسکرائی۔ ’’شاید سقراط نے کہا تھا کہ میں جو کچھ جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا، میں سب کچھ خود دیکھنا چاہتی ہوں، ڈاکٹر بھی آخر انسان ہوتا ہے اور غلطی بھی کرسکتا ہے۔‘‘
ایک ہفتے کے بعد اُس نے میرے تمام نسخے احتیاط سے مطالعہ کیے۔ مختلف ٹیسٹوں کے نتائج کو بغور پڑھا اور آخر کار ان کا بنڈل بناکر مجھے دے دیا اورکہا: ’’تم ان سب کو گھر جاکر کوڑے کے ڈرم میں پھینک سکتے ہو۔‘‘
’’لیکن ڈاکٹر—‘‘
’’ٹھہرو! پہلے ہمیں کچھ باتیں طے کرلینی چاہئیں۔ ہمارے ڈاکٹری پیشے میں ایک مثلث بنتی ہے۔ ڈاکٹر، مریض اور اس کی بیماری۔ اگر ڈاکٹر اور مریض اپنی توانائیوں کو مجتمع کرلیں تو وہ بیماری پر قابو پاسکتے ہیں، لیکن جب مریض ڈاکٹر کی مخالفت اور بیماری کی طرف داری کرتا ہے تو ڈاکٹر تنہا رہ جاتا ہے اور اس کی تمام مہارت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ پہلے یہ طے ہونا چاہیے کہ تم کس کی طرفداری کروگے، میری یا اپنی بیماری کی؟‘‘
’’بھلا یہ کیا سوال ہوا؟ تم جو کہوگی میں کروں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، تو پہلے تو ہم ایک ایک جام پیتے ہیں۔‘‘
’’جام—؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’علاج شروع کرنے کے لیے یہ میری پہلی شرط ہے۔‘‘
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
لکڑی کی اس دو منزلہ عمارت میں دوسری منزل پر واقع اس کے اپارٹمنٹ تک جانے کے لیے سیڑھی کے بارہ قدم تھے اور مجھے دم لینے کے لیے چار بار رکنا پڑا۔
’’ڈاکٹر! کیا تم چاہتی ہو کہ میں مرجاؤں؟‘‘
’’مجھے ایسی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔‘‘ وہ اٹھی اور چھڑی سے کھٹ کھٹ کرتی دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ وہ جلد ہی دوبلوری گلاس اور ایک پلیٹ میں کچھ بسکٹ لے کر واپس آگئی۔ اس نے جھاگ اڑاتے سیال کو گلاسوں میں انڈیلا۔ ایک خود اٹھایا اور کہا: ’’اب ہم گلاس ٹکرائیں گے۔‘‘
’’ڈاکٹر کیا ایسا کرنا ٹھیک رہے گا؟‘‘
’’پی جاؤ۔‘‘
مجھے گلاسوں کی کھنکھناہٹ فضا میں تیرتی ہوئی محسوس ہوئی۔ میںنے گلاس ہونٹوں سے لگایا۔ میں ابھی تک زندہ تھا۔ مجھے اپنے بدن میں کیف و سرور کی لہریں سی ہلکورے لیتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ بعد میں فوراً ہی ماضی کے دھندلکوں میں کھوگیا۔ جب میں صحت مند تھا اور چھٹیاں اپنے دوستوں کے ساتھ مستقبل میں ایک طویل اورپرلطف زندگی کے خم لنڈھاتے ہوئے گزارا کرتا تھا، اور پھر اچانک مجھے محسو س ہوا کہ وہ دن دوبارہ بھی آسکتے ہیں۔
’’ڈاکٹر تم تو کوئی افسوں گر ہو!‘‘
’’اور اب تمہیں محبت میں گرفتار ہوجانا چاہیے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’علاج شروع کرنے کے لیے یہ میری دوسری شرط ہے۔‘‘ وہ نہایت سکون سے بولی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔ وہ مذاق نہیں کررہی تھی۔ اس کی شفاف آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ اس کی شخصیت میں کوئی ایسی بات نہ تھی کہ ان پر اعتماد نہ کیا جاسکتا ہو۔
’’لیکن ڈاکٹر میں شادی شدہ ہوں۔‘‘
’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، محبت تو بہرحال تمہیں کرنا ہی ہے۔‘‘
’’اور میرے بچے بھی ہیں ڈاکٹر! ‘‘ میں نے اپنی بات جاری رکھی ’’تین بچے۔‘‘
’’میں تم سے یہ پہلی دفعہ سن رہی ہوں کہ بچے محبت کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں۔‘‘
مجھے محسوس ہوا کہ میرے الفاظ رائیگاں ہی گئے۔ یہ عورت دوسرے ڈاکٹروں سے مختلف تھی اور اس کا طریقہ علاج بھی دوسرے ڈاکٹروں سے مختلف تھا۔ ’’اس کے علاوہ میرا دل بھی کمزور ہے۔ جذباتی انتشار میرے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘
’’تمہارا دل کمزور نہیں ہے۔‘‘
’’میرا دل کمزور نہیں؟ لیکن میں عارضۂ ضعفِ قلب کا شکار ہوں۔‘‘
ایک مسکراہٹ سی اس کے لبوں پر دوڑ گئی۔ ’’حیرانی کی بات ہے اِن دنوں کس قدر لوگ علمِ طب میں ماہر ہوگئے ہیں!‘‘
ان الفاظ پر اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکا۔ ’’ڈاکٹر ہمیں بے تکلفی سے کام لینا چاہیے۔‘‘
’’ساتھ چلنے کے لیے ہمارے پاس یہی ایک راستہ ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’فرض کرو میں تمہاری ہدایت پر عمل کروں اور محبت میں مبتلا ہوجاؤں۔‘‘
’’ہاں تمہیں ایسا ہی کرنا ہوگا۔‘‘
’’لیکن کون لڑکی مجھ سے محبت پر مائل ہوگی؟ میںکبھی بھی خوش شکل نہیں رہا۔ اور اب میں بیمار اور دبلا ہوگیا ہوں۔ میں جوان بھی نہیں رہا۔ میری عمر پچاس سے بھی اوپر ہے۔‘‘
’’میں بالکل بھی نہیں سمجھی کہ تم کس لڑکی کی بات کررہے ہو؟‘‘
’’خیر، فرض کرو میں تلاش کرلیتا ہوں… فرض کرو میں تمہاری تجویز پر عمل کرتے ہوئے کسی کو پسند کرلیتا ہوں لیکن یہ تو ضروری نہیں کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرسکے۔‘‘
’’لیکن میں نے تو کسی لڑکی کی طرف اشارہ نہیں کیا۔‘‘
’’کیا تم نے نہیں کہا…؟‘‘
’’میںنے صرف محبت کی بات کی ہے تمہیں محبت میں مبتلا ہوجانا چاہیے۔‘‘
’’لیکن کس کے ساتھ؟‘‘
’’یہ تمہارا معاملہ ہے۔‘‘
’’اوہ!‘‘
’’اور تمہاری محبت کسی چیز کے عوض نہیں ہونی چاہیے۔ چیزوں کو دیکھنے کا یہ کتنا خود غرضانہ رویہ ہے! یعنی میں تمہیں ایک چیز دوں تاکہ اس کے بدلے میں تم مجھے کوئی چیز دو۔ نہیں نہیں، یہی کافی ہے کہ تم محبت کرو۔‘‘
اور اس طرح اس نے اپنا علاج شروع کردیا۔ یہ سب کچھ حیران کن اور ناقابلِ یقین تھا۔ جتنا ہم آگے بڑھے اتنا ہی اس کا علاج تعجب خیز ہوتا چلا گیا۔ وہ میری زندگی کے طور طریقوں اور پروگراموں میں خرابی پیدا کرتی چلی گئی۔ اس نے میری پرہیزی غذا باہر پھینک دی۔ ’’جو کچھ اور جتنا چاہو کھاؤ۔‘‘ اس نے کہا کہ ’’میں ممکنہ حد تک چست ہوجاؤں۔ ورزش کیا کروں، چھ گھنٹے تازہ ہوا میں سانس لوں اور کھڑکیاں کھول کر سویا کروں۔‘‘
’’لیکن کھڑکیاں تو سردیوں کے لیے بند کردی گئی ہیں۔‘‘
’’انھیں پھر کھول لو، کیا تم صبح ورزش کرتے ہو؟‘‘
’’تم سنجیدہ نہیں ہوسکتیں؟‘‘
’’ہمارے پاس مذاق کے لیے ابھی بہت وقت ہے— فی الحال تو تم صبح کی ورزش کا آغاز کردو۔ ابتدا میں پانچ منٹ اور رفتہ رفتہ دس منٹ تک۔ میں تمہیں بتادوں گی کہ تمہیں کون سی ورزش کرنی چاہیے۔‘‘
’’لیکن ڈاکٹر! مجھے تو ہدایت کی گئی ہے کہ میں اپنے بازو کندھوں سے بھی اوپر نہ لے جاؤں۔‘‘
’’بالکل ٹھیک۔ لیکن تمہیں ان کو اس سے بھی اوپر لے جانا چاہیے۔ تم میرے زیرِ نگرانی آغاز کرو گے اور ولینیس (Vilnius) میں واقع جسمانی طریقہ علاج کی ڈسپنسری میں اسے جاری رکھو گے۔‘‘
اس نے اس انداز میں کہا جیسے اب اس بات میں شک و شبہ اور اعتراض کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ اس نے مجھے اپنے بارے میں کچھ سوچنے کا موقع دینا تو ایک طرف، دوسرے ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دواؤں کی خوراک بھی کم کردی۔
’’انسانی جسم بیماری کے مقابلے میں دماغی طریقہ کار سے اچھی طرح واقف ہے۔‘‘ اس نے کہا ’’لیکن اس کی مدد کی جانی چاہیے۔ مدد! نہ کہ چکرا دینے والی دواؤں سے اسے بے حال کردیا جائے ،جیسا کہ بعض ڈاکٹر اسے لازمی سمجھتے ہیں۔ وہ ایک عضو کا علاج کرتے ہیں اور بہت سوں کو تباہ کردیتے ہیں۔‘‘
’’یہی تو علاج بالمثل (ہومیو پیتھی) کرنے والے کہتے ہیں۔‘‘
’’آج کل لوگ ادویات کے بارے میں کافی کچھ جاننے لگ گئے ہیں۔‘‘ اس نے دخل اندازی کی۔ ’’علاج بالمثل پر تنقید میں اتنی تیزی نہ کرو۔ اس قدیم سائنس میں کچھ خوبیاں بھی ہیں۔‘‘
’’مجھے افسوس ہے۔‘‘
جب بھی میں اس کے پاس جاتا وہ اپنی چھڑی سے ٹک ٹک کرتی میرے ارد گرد گھوم کر میرا مکمل معائینہ کرتی اور چلتے وقت کہتی کہ ہفتے میں لوٹ آنا۔ اور میں ایسا ہی کرتا۔ میں ہمیشہ ایک تنہا سفید بالوں والی عورت کو خاموشی سے کرسی پر بیٹھے ہوئے پاتا جو کرسی کے بازوؤں کا سہارا لیے آرام سے دراز ہوتی۔ کمرہ سادگی سے سجایا گیا تھا۔ دیواروں کے ساتھ کتابوں کی الماریاں تھیں۔ ایک میز تھی اور ایک کافی والی میز پر اخباروں اور رسالوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ جس میں مقامی بھی تھے اور غیر ملکی بھی۔ بہت سے ڈاکٹروں کی طرح وہ مطالعے کی شوقین اور اپنی پڑھی ہوئی کتابوں کے معیار پر بحث کرنے میں مستعد تھی۔ شام کے وقت وہ ریڈیو سنتی یا ٹی وی کا کوئی پروگرام دیکھتی اور اکثر جاپانی ہاتھی دانت کے بنے ہوئے شیر کو انگلیوں سے بجاتی رہتی۔ یہ ایک عجیب و غریب تخلیق تھی۔ جسامت میں کم مگر ظاہراً ایک عظیم اور ہیبت ناک درندہ۔ اس کے تیز دانت اس کے کھلے ہوئے منھ سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ اور اس کی مضبوط دم کوڑے کی مانند پشت پر پڑی تھی۔
’’کیا اس سے تمہیں خوف محسوس ہوتا ہے؟‘‘ ایک دفعہ اس نے مجھے شیر کی جانب دیکھتا پاکر پوچھا۔
’’نہیں … بالکل نہیں۔‘‘ میں نے بوکھلا کر جواب دیا: ’’میں خوش ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔‘‘
تھوڑے وقفے کے بعد اس نے مزید کہا: ’’یہ بہت قیمتی ہے۔‘‘
’’میرا بھی یہی خیال ہے۔ یہ ہاتھی دانت کا بنا ہوا ہے۔‘‘
وہ دوبارہ خاموش ہوگئی اور پھر دبی دبی خفگی سے بولی: ’’تم کس قدر کم فہم ہو۔ کیا تمہیں اب تک کوئی لڑکی ملی؟‘‘ اچانک اس نے پوچھا۔
’’لڑکی؟ لیکن ڈاکٹر تم نے یہ تو نہیں کہا تھا…‘‘
’’میں نے تمہیں محبت کرنے کے لیے کہا تھا اور اگر تمہیں اور کوئی نہیں ملتا تو ایک نوجوان لڑکی تو مل سکتی ہے۔‘‘ اس نے سختی سے کہا۔ اگلے ہی لمحے اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’مجھے بعض اوقات اپنے مریضوں کو یہ راستہ بھی دکھانا پڑتا ہے۔‘‘
اور اس طرح ایک مہینہ گزر گیا۔ اور پھر دو مہینے مزید بھی۔ پھر ایک دن خصوصی مکمل معائینہ کے بعد اس نے ایک لفظ منہ سے نکالے بغیر میری آنکھوں میں دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کی ٹھوڑی ہولے ہولے کپکپا رہی تھی اور ایک آنسو اس کی پلکوں پر لرز رہا تھا۔
’’اچھی تبدیلی ہے۔‘‘ اس نے نرمی سے کہا۔
’’میں نے خود بھی محسوس کیا تھا۔ اگرچہ یہ تبدیلی بہت ہلکی تھی مگر تھی۔ میرے اندر کہیں گہرائی میں۔ شاید صرف میرے تحت الشعور میں کوئی نئی چیز جنم لے رہی تھی۔ نشو ونما پا رہی تھی۔ کوئی غیر معمولی چیز۔ جسے الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے۔ یہ ایک مخفی سی مسرت تھی جو کسی آنے والی خوشی کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ میرے اندر حرکت و عمل اور معاملاتِ زندگی میں شمولیت کی خواہش سر اٹھا رہی تھی۔ ایک عرصے سے کھوئی ہوئی خواہش کہ لوگوں کے ساتھ رہا جائے اور ان سے باتیں کی جائیں، دوبارہ دل میں کروٹیں لینے لگی۔
وہ اٹھی۔ اس کی چھڑی فرش سے زور سے ٹکرائی اور دبارہ دیر تک میری آنکھوں میں دیکھتی رہی۔ ’’ایک ہفتے کے اندر لوٹ آنا۔‘‘
اس نے کہا۔
اور میں لوٹ آیا۔ ایسا کئی ہفتوں تک ہوتا رہا۔ ہر مرتبہ میں نے لکڑی کے زینے کو زیادہ تیزی سے طے کیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میری شریانوں میں تازہ خون گردش کرنے لگا۔ میری دھڑکن میں ترتیب تھی اور آنکھیں زیادہ چمکدار ہوگئیں۔
’’ڈاکٹر! اب میں صحت یاب ہورہا ہوں۔‘‘
’’ایک ہفتے کے بعد آنا۔‘‘
’’لیکن اب میں ٹھیک ہورہا ہوں۔ ڈاکٹر! کیا تم نہیں سمجھ سکتیں! میں صحت یاب ہورہا ہوں۔‘‘
’’آج کل لوگ ادویات کے بارے میں کچھ زیادہ ہی جاننے لگ گئے ہیں۔‘‘
اور پھر وہ دن بھی آیا جب وہ خود بھی پُر امید دکھائی دینے لگی۔
’’ایک کپ کافی ہوجائے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’خوشی سے لیکن مجھے ایسا کرنا چاہیے۔ یہ تمہارے دل کے لیے نقصان دہ ہے۔‘‘
’’واقعی! میں نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی۔ میں اسے زندگی بھر پیتا رہا ہوں۔ لیکن اس سے قبل کبھی اس بات پر غور نہیں کیا۔‘‘
تھوڑی دیر بعد میز پر دو کپ کافی رکھ دی گئی۔ وہیں کبھی جام کے دوبلوری گلاسوں میں بلبلے بن رہے تھے۔
اس نے ایک کپ میں کافی میرے لیے انڈیلی اور پھر اپنے لیے۔ میں نے غور کیا کہ اس نے سفید بلاؤز پہن رکھا تھا۔ یہ اس نے پہلے کبھی نہ پہنا تھا۔ اس کے سفید بال مختلف طریقے سے بنے ہوئے تھے اور قوس قزح نما کنگھے سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ اس نے پیالوں میں کافی انڈیلی۔ پھر اس نے اپنے رخسار کو ہاتھ پر ٹکالیا اور میری طرف دیکھ کر اس قدر پرکشش طریقے سے مسکرائی کہ اس بات پر یقین مشکل ہوگیا کہ وہ اسی سال سے زائد عمر کی عورت ہے۔ جس نے اب تک اپنے بہت سے دوستوں کو قبر تک جاتے دیکھا تھا۔ اور جس کو علم تھا کہ وہ دن بھی زیادہ دور نہیں جب وہ خود بھی اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دے گی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس کی مسکراہٹ سے روشنی پھوٹ رہی ہے بلکہ اس کے سفید بال، شفاف نیلی آنکھیں اور سارا جسم روشنی کا منبع ہے۔ وہ نوجوان خوبصورت اور کسی حد تک ایک شرمیلی لڑکی معلوم ہورہی تھی۔
’’ایک ہفتے میں آجانا … مجھے بھولنا نہیں۔‘‘
ایک برس گزر گیا اور میں مکمل طور پر بھول گیا کہ میں کبھی اس کے لکڑی کے زینوں پر دم لینے کو رکا تھا۔ ماضی کا اضطراب ختم ہوگیا۔ جب بیماری کا ایک حملہ یہ دہشت ناک احساس دلایا کرتا تھا کہ فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے اور موت ہر جگہ میرا انتظار کررہی ہے۔ میں اسے اپنے ساتھ لیے پھرتا ہوں۔ اور یہ سب اس عجیب، تنہائی پسند، ناقابلِ فہم عورت کی وجہ سے ہوا ۔
’’یہ سچ نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہا اور مسکرائی! ’’تم خود زندہ رہنا چاہتے تھے۔‘‘
’’کیا ہر شخص زندہ رہنا نہیں چاہتا۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’میری ابھی تک کسی بھی ایسے شخص سے ملاقات نہیں ہوئی جس میں زندگی کی خواہش نہ ہوں۔‘‘
’’میں ایسے بہت سے لوگوں سے ملی ہو۔‘‘ اس کے چہرے پر ایک سایہ سا لہرا گیا۔ اس نے رخسار کو ہاتھ پر ٹکایا اورخاموش ہوگئی۔’’لوگ ٹھیک ہوجاتے ہیں اور پھر سے اپنی زندگیاں مختصر کرنے میں لگ جاتے ہیں۔‘‘ اس نے سوچتے ہوئے بات کا سلسلہ جاری رکھا۔ جیسے وہ خود سے باتیں کررہی ہو۔
’’ایسا کون کرتا ہے؟‘‘
’’لوگ!!‘‘ اس نے اداسی سے کہا ’’وہ سگریٹ پیتے ہیں۔ رات کو کام کرتے ہیں اور دن کو سوتے ہیں۔ دوڑتے بھاگتے ہوئے کھاتے ہیں۔ یہ سب خود کشی کرنے والی باتیں نہیں تو اور کیا ہے۔‘‘
’’لیکن—!‘‘
’’اور تم انہی میں سے ایک تھے۔‘‘ اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ اس کی آواز میں خفگی تھی۔ ’’تمہاری حالت بہت سوں سے بدتر تھی۔ تمہارے اندر جینے کی امنگ نہیں تھی۔‘‘
’’یہ سچ نہیں ہے۔‘‘
’’یاد کرو— جب تم پہلی بار یہاں آئے تھے تو تم نحیف و نزار تھے— سب لوگوں سے بد تر حالت میں۔ پھر یوں ہوا کہ تمہارے دل میں اپنے ساتھیوں کے لیے محبت نہ رہی بلکہ اپنے لیے بھی نہیں اور یہ صاف ظاہر تھا کہ اگر تم تبدیل نہ ہوتے تو جلد ہی مرجاتے۔‘‘
اس گفتگو نے اسے تھکا دیا اور وہ ایک طویل وقفے کے لیے خاموش ہوگئی۔ اس کے بازو ہمیشہ کی طرح کرسی پر آرام سے دھرے تھے۔ آخر اس نے نرم آواز میں اپنی بات کا سلسلہ پھر شروع کیا۔
’’موت ہمیشہ ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتی ہے، یہ ایندھن ہے جو اسے رواں رکھتا ہے۔‘‘ پھر اس نے مزید کہا ہمیشہ کی طرح حکم سے نہیں بلکہ درخواست کے انداز میں’’اسے چھوڑدو- تم ہفتے میں دو بار آیا کرو۔ ایسا کرو گے تو مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
’’لیکن میں اب خود کو کافی بہتر محسوس کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ مجھے اب تمہارا مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
’’تم میرا وقت ضائع نہیں کرتے اور اگر تم نہ آسکو تو کوئی بات نہیں۔‘‘ اس نے ایک اچٹتی ہوئی سی نظر مجھ پر ڈالتے ہوئے کہا۔ پھر وہ اٹھ گئی اور اس کی چھڑی ایک زوردار آواز کے ساتھ فرش پر گرپڑی۔
اس کے بعد میں جتنی بار آیا گرم کافی کا برتن ڈھانپا ہوا ملتا۔ ایک چھوٹی پلیٹ میں بسکٹ اور دوسری میں پھل ہوتے۔وہ عمدہ لباس تھوڑی سی شرمائی ہوئی سی میز کے قریب بیٹھی ہوتی۔ وہ براہِ راست میری طرف نہیں دیکھتی تھی بلکہ کافی انڈیلنے لگتی اور ہم باتیں کرتے۔ باتیں کرنے کے لیے بہت سی چیزیں تھیں۔ وہ ہر موضوع پر قائل کردینے والے انداز میں دلائل دیتی لیکن ایک موضوع ایسا تھا جس پر اس نے کبھی بات نہ کی اور وہ تھا اس کی اپنی زندگی۔ اس کا ماضی – اس کانام نتالیہ تالویشین تھا۔ نتالیہ روسی نام تھا۔ ایک مرتبہ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا تم روسی ہو؟‘‘
’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے!‘‘ پھر اس نے میری بوریت کو محسوس کیا اور بولی: ’’کافی لو۔ بسکٹ بھی عمدہ ہیں ۔ میں منگل کو تمہارا انتظار کروں گی۔ آؤگے!‘‘
اس سے ملنے کے لیے وقت نکالنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا تھا۔ میں اب پہلے کی نسبت قوی تھا۔ میں نے اپنے سابقہ تقریباً ناقص طرزِ زندگی کو ختم کردیا تھا۔ آج کل کرنے کے لیے بہت سی چیزیں تھیں۔ بہت سی دلچسپ چیزیں۔ نئے لوگ میری زندگی میں داخل ہوئے اورپرانے دوست دوبارہ نمودار ہوئے۔ رفتہ رفتہ اور مستقل طور پرڈاکٹر سے ملنے کی ضرورت کم ہوتی گئی۔ بہت شرمندگی کے ساتھ میں نے ایک بار پھر محسوس کیا کہ ایک صحت مند مریض سب سے پہلے اس ڈاکٹر کا قرض فراموش کردیتا ہے، جس نے اس کو صحت یاب کیا ہوتا ہے۔ لیکن وہ میرا انتظار کرتی رہی۔ خاموشی اور صبر کے ساتھ – ہمیشہ اپنے بہترین لباس میں- کافی کے برتن، بسکٹ اور پھلوں کی پلیٹوں کے ساتھ۔
’’تم نے مجھے ہلا دیا ہے۔‘‘ اس نے ایک بار کہا ’’اور اب کافی دوبارہ ٹھنڈی ہوچکی ہے۔‘‘ اس روز ہم اپنی گفتگو زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکے۔ ایک ہفتہ گزرگیا – پھر ایک اور – اور پھر تیسرا مگر مجھے اس خاتون کے پاس جانے کا وقت نہ ملا، جس نے مجھے زندگی لوٹائی تھی۔ پھر بہار آگئی۔ ولینس کے تمام درختوں کو سبز پتوں نے ڈھانپ لیا۔ زمین نے جیسے سبز لباس پہن لیا۔ لینن اسکوائر پر کبوتر گٹک رہے تھے۔ آسمان شہر سے بہت اونچا دکھائی دے رہا تھا۔ عورتوں نے بہار کے ملبوسات زیب تن کر رکھے تھے۔ بہار تمام تر اداسیوں اور مایوسیوں کو ختم کرتی ہوئی، بچوں کوہنسنے اور بڑوں کو مسکرانے کی دعوت دیتی ہوئی، لوگوں کے دلوں میں کیف جگاتی ہوئی، گلیوں اور شاہراہوں پر چہل قدمی کررہی تھی۔ ایک ایسا ہی دن تھا، جب مجھے ایک عجیب سی عورت نے بلایا۔ وہ کمرے کے وسط میں کھڑی تھی۔ اس نے برہمی سے مجھے دیکھا اور بولی: ’’نتالیہ نے آپ کو بلایا ہے- اگر آسکیں تو-‘‘ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کسی سے ملیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی اجنبی سے مل رہے ہیں۔ ایک ایسے شخص سے جس میں اس شخص والی کوئی بات نہیں جس کو آپ جانتے تھے اور جو آپ کا دوست تھا۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ میں نے لکڑی کا زینہ طے کیا اور اوپر آیا جہاں ایک بوڑھی عورت کے چہرے پر موت کا تاریک سایہ لہرارہا تھا۔ اس نے سرد اور تاریک آنکھوں سے میری طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھا۔
’’شکریہ!‘‘ اس نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔
’’ڈاکٹر! پلیز مجھے معاف کردو۔‘‘ میں اس کی حالت پر لرز کر بڑبڑایا۔ اس کی انگلیاں پھڑکیں جیسے کہہ رہی ہوں کہ کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اس نے میز سے کاغذ کے دو ورق اٹھائے جو پورے لکھے ہوئے تھے۔
’’میں نے ہر چیز لکھ دی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ اس کے لب بولتے ہوئے کپکپاجا تے تھے۔
’’اگر تم دوبارہ بیماری میں مبتلا ہوجاؤ تو اسے پڑھ لینا۔ تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ تمہیں کیا کرنا ہوگا۔‘‘
’’نہیں ڈاکٹر! مجھے ان ہدایات کی ضرورت نہیں ۔میں روزانہ تمہارے پاس آؤں گا۔ تم سے ملنے۔ تم سے مشورہ لینے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں اندیشے دیکھ کر میں تیزی سے بولا: ’’نہیں میں ضرور آؤں گا۔‘‘
وہ خاموش تھی۔ جیسے کسی چیز کے بارے میں سوچ رہی ہو۔ جیسے اندرکسی آواز کو سن رہی ہو۔ پھر اس نے کسی قدر شرماتے ہوئے کہا۔ ’’کیا تم مجھے پیار کرسکتے ہو؟‘‘
میں جھکا میںنے اس کی پیشانی کو چوم لیا۔
’’اب جاؤ۔‘‘ اس نے چہکتے ہوئے کہا۔ ’’اور ہر چیز کے لیے … تمہارا شکریہ۔‘‘
’’کیا تم میرا شکریہ ادا کررہی ہو!‘‘
’’جاؤ!‘‘
سو میں چلا آیا۔ برآمدے تک پہنچا تو میں نے محسوس کیا کہ مجھے واپس جانا چاہیے۔ نتالیہ میرا انتظار کررہی تھی۔ ایک زرد مسکراہٹ اس سرمئی سائے سے نبرد آزما تھی جو اس کے چہرے پر پھیلا ہوا تھا۔
’’ڈاکٹر!‘‘ میں چلایا!
’’چلے جاؤ—‘‘
میں سیڑھیاں اتر آیا۔ وہی سیڑھیاں جنہیں پہلی مرتبہ میں نے مشکل سے طے کیا تھا۔ اچانک میں رک گیا۔ ایک عجیب سی کمزوری مجھ پر چھا گئی میں شش و پنج میں مبتلا ہوگیا کہ نیچے اتروں یا لوٹ جاؤں۔
’’مجھے تمہارے قدموں کی آواز نہیں آرہی۔‘‘ اوپر سے ایک کمزور سی آواز آئی ’’میں تمہیں جاتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں چلے جاؤ۔‘‘
اور میں چلا آیا۔
اگلے ہی روز – جو پھولوں سے معطر تھا اور کیرولینن کی پہاڑیوں سے ہوائیں آرہی تھیں۔ وہ عجیب عورت پھر میرے پاس آئی۔ اس نے پہلے کی طرح بولے بغیر برہمی سے میری طرف دیکھا۔ پھر مجھے ایک چھوٹا سا پیکٹ دے کر بولی: ’’یہ تمہارے لیے ہے۔‘‘
میں نے پیکٹ کھولا، یہ ایک شیر تھا۔ ہاتھی دانت سے بنا ہوا بالکل ویسا ہی شیر۔ تیز دانتوں اور مضبوط دم والا، ایک مانوس سی تحریر میں ایک خط بھی تھا۔
’’یہ ساٹھ برس پہلے ایک بوڑھے آدمی نے دیا تھا۔ وہ اس قدر بوڑھا تھا جس قدر میں اب ہوں۔ اس نے مجھے اپنی ’’آخری مسرت‘‘ کہا اور ہدایت کی کہ میں بھی اپنی ’’آخری مسرت‘‘ کسی کو دے دوں۔ ایسا ہی شخص جس سے میں اس عمر میں ملوں جو اس کی تھی۔ اور اب میں ایک درخواست کروں گی کہ یہ شیر لے لو۔ بڑھاپے تک خوشی سے زندہ رہو۔ پھر یہ اپنی آخری مسرت کسی کو دے دینا۔ اپنی زندگی کے اس آخری شخص کو جو تمہیں جینے، کام کرنے اور محبت کرنے کی امنگ دے۔ خدا کرے یہ خوشی سورج کی طرح، پہاڑ کی ہواؤں، دریاؤں اور پہاڑوں کی طرح نسل درنسل ہمارے ساتھ رہے۔‘‘
میں نے آنکھیں اٹھائیں، وہ عورت جاچکی تھی۔ وہاں ایک پرسکون مضبوط اور طاقتور شیر کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ تب میں نے سوچا کہ میں نتالیہ کی خواہش پوری کروں گا۔ اور یہ شیر کسی کو دے دوں گا۔ کوئی ایسا شخص ہوگا جس کو یہ دیا جاسکے۔ میرے سامنے ایک زندگی پڑی ہے۔ اچھی اور بری- پرکیف- تلخ اور اداس- ہر شے ابھی میرے سامنے ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146