آخر کیوں؟!

فرحت الفیہ جالنہ

آج کلثوم کے گھر میں کھانے کا خصوصی اہتمام ہورہا تھا کیونکہ پچھلے ایک ہفتے سے پڑوس میں کسی خاص مہمان کی آمد کی خبر گردش کر رہی تھی۔ پڑوس کی ساری خواتین بہت خوش تھیں کہ شہر سے طاہرہ باجی آرہی ہیں۔ طاہرہ باجی ابو جان کے عزیز دوست داؤد بھائی کی بیوی تھیں ۔ پچھلے سال کلثوم نے طاہرہ باجی کو ایک اجتماع کے موقع سے دیکھا تھا۔ جب وہ گاؤں میں رمضان کی آمد کے موقع سے استقبال رمضان پر خطاب کر رہیں تھیں۔ وہ کچھ خاص مواقعوں سے خطاب وغیرہ کے سلسلے میں شہر سے گاؤں اپنے شوہر کے ساتھ آتی رہتی تھیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا ابوذر بہت پیارا گول مٹول تھا۔ ویسے تو طاہرہ باجی میں اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ۔ البتہ ابوذر اسے بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ جب بھی ابوذر کے ساتھ کھیلنے کا ارادہ کرتی یا گود میں لینے کی خواہش ظاہر کرتی تو امی ڈانٹ کر منع کر دیا کرتیں کہ اسے ہاتھ نہ لگاؤ، چھوٹا ہے، گر جائے گا ،چوٹ لگ جائے گی۔

امی طاہرہ باجی کے لیے بچھی جاتی تھیں انہیں جب بھی گاؤں میں درس یا تقریر کے لیے بلایا جاتا تو وہ کلثوم کے گھر ہی قیام کرتیں، امی بہت پر جوش انداز میں ان کا استقبال کرتیں، ان کے کھانے، وغیرہ کا اہتمام کرتیں اور جب وہ شہر واپس جاتی تو ان کے ہاتھ میں ایک بڑی سی تھیلی تھما دیتیں ۔ شاید اس میں ناشتہ دان یا کچھ سامان وغیرہ ہو تا ، جب وہ چلی جاتی تو تھوڑی دیر کے لیے امی بہت اداس ہو جایا کرتی تھیں۔ ایک دن اس کے استفسار کرنے پر انہوں نے بہت مشفقانہ انداز میں بتایا کہ وہ میری دینی بہن ہے۔ جب آتی ہے تو بہت خوشی ہوتی ہے اور جب چلی جاتی ہے تو دل اداس ہو جا تا ہے۔ پھر وہ ازخود ہی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگتی کہ یہ کیفیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تی ہے۔ وہ اپنے دین کے خادمین کی محبت دلوں میں ڈال دیا کرتا ہے ۔

اسے کچھ حیرت اور کسی قدر خوشی اس وقت ہو ئی جب امی کواس نے کسی سے کہتے سنا کہ نئی مسجدکی امامت کے لیے طاہرہ باجی کے شوہر راضی ہو گئے ہیں اور وہ اپنے اہل وعیال کے ساتھ آج دوپہر تک گاؤں تشریف لا رہے ہیں۔ بغل والے مکان میں ان کے رہنے کا بندوبست کیا جا رہا تھا۔ آج کا کھانا بھی ان کے لیے کلثوم کے یہاں تیار ہورہا تھا۔

دوپہر تقریباً دو بجے کے قریب وہ لوگ تشریف لائے تھے ۔ کھانا اور نماز سے فراغت کے بعد طاہرہ باجی اپنے مکان میں جا چکی تھیں اور امی بھی گھر کی صفائی اور دیگر کاموں میں مصروف ہو گئیں تھیں اور کلثوم نے بھی اپنی امی کا خوب ہاتھ بٹایا تھا۔ اس کی سوچوں کا مرکزومحور طاہرہ باجی ہی تھیں۔ وہ سوچ رہی تھی کہ طاہرہ باجی آخر اتنی ہر دل عزیز کیوں ہے۔ اس کا معصوم ذہن اس’’ایک‘‘ سوال کے جواب کو غیر محسوس طریقے سے تلاش کر رہا تھا ۔

==================

جمعے کی نماز کے بعد کلثوم کے گھرپڑوس کی خواتین کی آمد ہمیشہ کی طرح شروع ہو چکی تھی ۔امی جان ہر ہفتہ قرآن مجیدکا درس دیتیں اور کچھ خواتین بھی مختلف احادیث وغیرہ مع ترجمہ آپس میں پڑھ کر سناتی تھیں۔ کلثوم کوبھی امی جان تقریر یا ترانہ پڑھنے کو کہتیں جس کا وہ انکا رنہ کرپاتی۔

آج کے دن امی جان جب درس دے چکیں تو طاہرہ باجی تقریر کےلیے آئیں۔ ساری خواتین ہمہ تن گوش ہو کر تقریر سن رہیں تھیں ۔ طاہرہ باجی کا اندز بیان بہت زبردست تھا۔ ایک ایک لفظ فصاحت و بلاغت میں ڈوبا ہوا۔

’’معزز بہنو! حضرت سمیہ ہی وہ بہادر خاتون تھیں جنھوں نے اسلام کی خاطر سب سے پہلے جام شہادت نوش کیا۔جی ہاں وہ ایک خاتون تھیں میری اور آپ ہی کی طرح۔‘‘

وہ بنا پلک جھپکے طاہرہ باجی کے چہرے کو تک رہی تھی۔ اچانک اس کی نظر کا زاویہ تبدیل ہو کر لکڑی کی بنی الماری تک پہنچ گیا، جس کے اوپر کچھ چوہے اِدھر اُدھر پھدک رہے تھے ۔

’’احد کے میدان میں بر سرپیکار وہ ام عمارہ تھیں جن کی بابت رسولؐ کی زبان مبارک سے تاریخ نے وہ الفاظ سنے کہ میں جہاں بھی دیکھتا تو مجھے ام عمارہ ہی نظر آتی ہے۔‘‘

اس نے دوبارہ اپنی کانوں اور نگاہوں کو ان کی آواز اور چہرے پر مرکوز کردیا تھا، مگر ذہن ادھر ادھر دوڑتے چوہوں میں ہی الجھ گیا تھا ۔ اس نے نگاہوں سے پھر ایک بار اس خستہ لکڑی کی الماری کی اوپری سطح پر ان ننھی مخلوق کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگراس بار وہ اسے نہیں دکھائی دئیے مگرطاہرہ باجی کی تقریر اسی روانی اور جوش بھرے لہجے میں جاری تھی۔

’’شہادت کی مثال دیکھنا چاہتں ہیں تو حضرت سمیہ کو دیکھیں۔ بہادری کی مثال دیکھنا چاہتیں ہے تو ام عمارہ اور حضرت صفیہ کو دیکھیں جنہوں نے خندق کے موقع سے دشمن کا سر قلم کرکے تمام دشمنوں پر رعب طاری کردیا تھا۔‘‘

’’حضرت خنساء اپنے چاروں جگر پاروں کی قربانی پر کلمہ شکر ادا کرتی ہیں ۔ آخر وہ کون سی خواتين تھیں جن کی گودوں میں مجاہدین پروان چڑھے؟ بتائیے ۔۔!؟ کیا وہ میری اور آپ کی طرح نہیں تھیں مگر ان کی گودوں سے اسلام کی سر بلندی کا الم لہرانے والےمحمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی جیسے جاں بازوں اور قیمتی گوہروں نے جنم لیا۔۔۔۔۔جی ہاں! وہ تاریخ کی بہادر خواتین تھیں جنہوں ایسے فرزند تیار کیے جنہوں تاریخ کا دھارا تبدیل کردیا ۔ اب امت مسلمہ کی جو حالت زار ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔۔!

ساری خواتین ساکت وجامد طاہرہ باجی کے چہرے پر نگاہوں کو مرکوز کیے ہوئے تھیں اور اپنے آنکھوں سے شدت جذبات کے سبب نکلتے ہوئے آنسوؤں کو اپنے دامن سے صاف کرتی جا رہیں تھیں ۔

وہ کبھی امی کی گود میں بیٹھےابوذرکو دیکھتی جو بڑے انہماک سے بسکٹ کھا رہا تھا ۔ کبھی طاہرہ باجی کے سرخ آنکھوں اور تنے ہوئے چہرے کو۔

==================

دیور پر آویزاں گھڑی رات کے ایک بجا رہی تھی ، وہ بھی بستر پر لیٹی تھی ۔اس کی آنکھوں کے سامنے صبح کی ساری سرگرمیاں کسی فلم کی طرح گردش کررہی تھیں۔ اجتماع میں عقیدت سے بیٹھی ہوئی خواتین، امی کی گود میں بیٹھا بسکٹ کھاتا ہوا ابوذر کا گول مٹول چہرہ، طاہرہ باجی کی دل کی دھڑکنوں کو بے ترتیب کرتی آواز!

’’آخر کیوں؟ آخر کیوں ہماری گودوں میں محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہدین پرورش نہیں پارہے ہیں۔’’ آخر کیوں ۔۔؟

اس کی آنکھیں دھیرے دھیرے بھاری ہو رہی تھیں اور کانوںمیں گونجتی آوازیں، اب دھیمی ہوتے ہوئے محسوس ہونے لگی تھیں اور وہ نیند کے گہرے اندھیرے میں اترتی جارہی تھی۔

==================

اس کی نیند اچانک ایک شور ہنگامے سے کھل گئی۔ وہ بدحواس ہوکر اٹھی۔ امی اور ابو جان اسے دہشت زدہ انداز میں باہر نکلتے ہوئے دکھا ئی دئیے تھے ۔ وہ بھی اپنی اوڑھنی لپیٹتے ہوئے ان کے پیچھے دوڑی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کی نگاہ اچانک طاہرہ باجی پر پڑی جو چیختے ہوئے اپنے کمرے سے باہر نکلی تھیں۔ اس کی نگاہیں نیم اجالے میں طاہرہ باجی کے سراپے کا جائزہ لینے لگیں۔ بغیر ڈوپٹے کے بکھرے ہوئے بال اور دہشت زدہ چہرہ لیے ہوئے وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح امی کے سینے سے چمٹ گئیں ۔ ان کا پورا وجود خوف سے کانپنے لگا تھا ۔ مکان سے ابوذر کے رونے کی آوازیں آرہیں تھیں۔ طاہرہ باجی کی فلک شگاف آوازیں سن کر گاؤں والے ڈنڈے اور لا ٹھیاں لیے ہو ئے صحن کے مقفل دروازے سے پھلانگ کر اندرداخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور کچھ باہر ہی دروازہ کھلنے کے منتظر کھڑے تھے۔ امی جلدی سے طاہرہ باجی کو اپنے مکان میں لے گئیں۔ وہ بت بنی کھڑی ابوذر کے رونے کی آوازیں سن رہی تھیں۔ دفعتاً اسے ابوجان اور طاہرہ باجی کے شوہر ابوذر کو گود میں لیے ہوئے باہر آتے دکھا ئی دئیے، ابو جان تمام لوگوں کو واپس لوٹ جانے کا کہہ رہے تھے۔ وہ بھی کمرے میں چلی آئی۔ طاہرہ باجی چار پائی پر بیٹھیں تھیں اور امی انہیں اپنے ہاتھوں سے پانی پلاتی ہوئے دلاسا دے رہی تھیں۔ وہ اور میں، دونوں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھے۔کچھ دیر بعد امی طاہرہ باجی کو ان کے مکان پر چھوڑ آئیں ۔

وہ اب بھی متجسس تھی کہ آخر ہوا کیا تھا ۔

اس نے گھڑی کی طرف دیکھا جو تین بج کر دس منٹ کا وقت بتا رہی تھی۔ وہ سونے کے لیے دائیں کروٹ لیٹ گئی، جب امی اور ابوجان کی سرگوشی اس کے کانوں میں داخل ہوئی ۔

’’طاہرہ اتنی کیوں ڈر گئی تھیں ۔؟ کیا ہوا تھا ۔؟؟‘‘

امی متجسس انداز میں ابو جان سے سوالات کیے جارہی تھیں ۔

داؤد بھائی بھی تو کمرے میں ہی تھے ناں،! طاہرہ آخر اتنی دہشت زدہ کیوں ہو گئی تھیں؟

’’جب میں مکان کے دروازے میں پہنچا تو مجھے طاہرہ باجی چیختی ہوئیں باہر دوڑتے دکھائی دیں۔ داؤد بھائی ہاتھ میں ایک ڈنڈا لیے کھڑے تھے مجھے دیکھ کر وہ شرماگئے، ابوذر بستر پر پڑا تھا۔ میں نے اطمینان سے ابوذر کو گود میں لیا اور ان سے پوچھنے لگا کہ آخر کیا معاملہ تھا تو کہنے،کہ ہم لوگ سو رہے تھےکہ اچانک چھت پر دو بڑے سےچوہے ٹھیک ہماری چار پائی پر آگرے طاہرہ انہیں دیکھ کر بہت ڈر گئی اور زور زور سے چیخنے لگی اس کی چیخ پکار سے ابوذر ڈر کر رونے لگا میں بھی اس کے چیخنے سے حواس باختہ ہو گیا تھا ۔ مجھے کچھ سجھائی نہیں دیا، پھر چار پائی کے نیچے پڑا ڈنڈا نکال کر چوہوں کو بھگانے کی کوشش کرنے لگا تو آپ آتے ہوئے دکھائی دیئے۔ تب تک طاہرہ کمرے سے باہر نکل گئی اور چوہے اپنے بلوں میں چلے گئے ۔ ‘‘

وہ اپنے بستر میں لیٹے ہوئے ابو جان کی باتوں کو جیسے جیسے سنتی جا رہی تھی، اس کے ذہن میں خیالات سمندر کی تیز و تند لہروں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آخر ان گودوں سے محمد بن قاسم اور صلاح الدین کیوں پیدا نہیں ہورہے۔ کیوں؟ آخر کیوں؟؟

مزید افسانے پڑھیں!

نئی نسل کا عشق اور ماں کی ممتا

لحاف

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں