کہا جاتا ہے کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہونے کے باوجود دو جانوروں سے خم کھاتا ہے۔ ہاتھی اور گینڈا دو ایسے جانور ہیں جن کو آج تک کسی شیر نے ہلاک نہیں کیا۔ باقی سب شیر کا شکار بن جاتے ہیں۔ وہ جنگلی گھوڑے کو بھی ہلاک کرسکتا ہے تو پالتو گھوڑے کو ہلاک کرنا اس کے لیے کوئی ایسا مشکل کام نہیں۔ بادی النظر میں گھوڑے اور شیر کا مقابلہ ہی کیا… لیکن آج میں آپ کو ایک ایسی تاریخی اور حقیقی کہانی سنانا چاہتا ہوں جو گھوڑے کی شیر پر فتح کی داستان ہے۔
اس داستان کا تعلق لکھنؤ کے ایک نواب کے اصطبل سے ہے۔ اصطبل کے ساتھ ہی نواب صاحب کے پاس پورا چڑیا گھر بھی تھا، جس میں خونخوار شیروں کے پنجرے تھے۔ نواب صاحب، جنہیں اس زمانے میں شاہ یا بادشاہ کہا جاتا تھا، اپنے فارغ اوقات میں ان جانوروں کی حرکات و سکنات سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ کہانی ولیم نائنٹین نے اپنی مطبوعہ کتاب پرائیویٹ لائف آف این ایسٹرن کنگ (ایک مشرقی بادشاہ کی نجی زندگی) میں درج کی ہے۔ وہ لکھتا ہے:
میں بگھی میں سوار ایک صبح لکھنؤ کی ایک بہترین سڑک سے گزر رہا تھا اور میرا ایک ساتھی بھی میرے ہمراہ تھا۔ ہم بادشاہ کے محل کی جانب بڑھ رہے تھے۔ جونہی ہم آگے بڑھے، گلیوں کو سنسان دیکھ کر حیران ہوئے۔ دور دور تک کوئی انسان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اگر کوئی مرد یا عورت نظر بھی آتی تو تیزی سے سڑک عبور کرکے بھاگتی دکھائی دیتی۔
آخر کار یونہی چلتے چلتے ہم ایک ہجوم کے پاس آگئے جو ایک لاش اٹھائے ہوئے تھا۔ یہ انسانی لاش لگ رہی تھی۔ ہم نے اسے دیکھنے کے لیے بگھی روکی۔ یہ قریب کی گلی میں رہنے والی ایک عورت کی لاش تھی جو بری طرح مسخ ہوچکی تھی۔ اس کا جسم ہر جانب سے کچلا اور پھٹا ہوا تھا۔ لباس ریزہ ریزہ تھا اور چہرہ اتنا مسلا جاچکا تھا کہ ا س کے دانت بھی بد وضع ہوگئے تھے۔ اس کے لمبے گھنے بال جوگچھوں کی صورت میں سڑک پر پڑے تھے، خون میں لتھڑے ہوئے تھے۔ یہ ایک ایسا دلدوز منظر تھا جسے ہر کوئی رک کر دیکھنے پر مجبور تھا۔
ہم وہا ںسے آگے بڑھے تو دیکھا کے لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے اندر سے بند کررکھے ہیں۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے لوگ سہمے ہوئے ہوں۔ ہمیں اس عورت کی لاش کے پاس سے گزرے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ہم نے شاہی محل کے دستے کھڑے دیکھے۔ میں نے پوچھا: کیا معاملہ ہے؟ جواب ملا: آدم خور گھوڑا کھل گیا ہے۔ صاحب! اپنی حفاظت کا خیال کریں۔ وہ بالکل جنگلی اور وحشی گھوڑا ہے۔‘‘
میں نے ایک خونخوار گھوڑے کے بارے میں پہلے سے سنا ضرور تھا جو بادشاہ کی ملکیت تھا، لیکن اس کو دیکھا نہ تھا۔ پھر دور سڑک کے کنارے معاً وہ وحشی گھوڑا نظر آیا۔ یہ بڑی جسامت کا ایک تنو مند گھوڑا تھا۔ ہم جونہی اس کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ وہ ایک بچے کو منہ میں دبائے کھڑا ہے اور اسے بے رحمی سے ادھر ادھر جھٹکے دے رہا ہے مگر درحقیقت وہ ہماری طرف بڑھ رہا تھا۔
اگلے لمحے اس نے منہ میں دبائے بچے کو ایک طرف پھینک دیا۔ بچہ مرگیا۔ اب گھوڑا پورے وحشیانہ انداز میں ہم پر حملہ کرنے کے لیے دوڑتا آرہا تھا۔ ہمارے اور گھوڑے کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ ہمیں ایک لمحہ ضائع کیے بغیراپنا بچاؤ کرنا تھا۔ ہم خوف کے مارے اپنی بگھی کی طرف لوٹے اور اتنی تیزی سے بگھی دوڑائی جیسے وہ فضا میں پرواز کررہی ہو۔پٹ پٹ کرتی ہماری گھوڑا گاڑی لمحوں میں سلاخی دروازے تک پہنچ گئی۔ جہاں سے کچھ ہی دیر پہلے ہم گزر کر آئے تھے۔ آدم خور گھوڑا پورے زور سے ہمارا پیچھا کررہا تھا۔ ہم اس کے پاؤں میں لگے لوہے کے نعلوں کی آواز بخوبی سن رہے تھے۔ ہم ایک احاطے میں پہنچ کر اس کے اندر گھسنے میں کامیاب ہوگئے۔ میرا دوست بھی بگھی سے نیچے اچھل پڑا ۔ اس نے جلدی سے دروازہ بند کرلیا۔ یہ تمام ایکشن ایک منٹ میں کیا گیا۔ خوش قسمتی سے دروازے میں بھاری چٹخنی لگی ہوئی تھی جسے اندر سے بند کردیا گیا اور یوں ہمیں مستقل حفاظت فراہم ہوگئی۔
آدم خور گھوڑا اپنے بھاری قدم اٹھاتا آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کا سر بھی خون آلو د تھا۔ اس کے ہونٹوں کے کناروں سے خون کی رالیں بہہ رہی تھیں۔ سلاخی احاطے کے پاس پہنچ کر وہ کھڑا ہوگیا۔ اور آہنی سلاخوں کے باہر سے ہمیں دیکھنے لگا۔ اس کے کان بالکل کھڑے اور تنے ہوئے تھے۔ نتھنے پھولے ہوئے تھے اور وہ خونخوار آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ آدم خور گھوڑا بہت غضبناک لگ رہا تھا۔ ہمارا بگھی میں جتا گھوڑا آدم خور گھوڑے کی خوفناک ہنہناہٹ سے کانپنے لگا۔ وہ یوں کانپ رہا تھا جیسے شدید سردی کی وجہ سے ٹھٹھر رہا ہو۔
آدم خور گھوڑا کبھی آہنی سلاخوں کے ایک سرے سے دوسرے سرے پر جاتا اور کبھی واپس آتا، چونکہ یہ سلاخیں خاصی موٹی، سخت اور مضبوط تھیں، اس لیے وہ احاطے کے اندر داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ جب اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ اپنے مشن میں ناکام ہوچکا ہے تو اس کے ارد گرد گھومنے لگا۔ وہ اچھل اچھل کر پچھلی ٹانگیں نعلوں سمیت زور زور سے سلاخوں پر مارتا رہا۔ پھر گردن اکڑائے، کانوں کو تانے، سڑک کے زیریں حصے کی جانب بھاگ گیا جہاں ایک محراب سی بنی ہوئی تھی۔ کئی ایک گھوڑ سوار پھندا اٹھائے یہاں اس کا انتظار کررہے تھے، چنانچہ پھندا اس کی گردن میں ڈال دیا گیا۔ وہ پریشان ہوگیا۔ اس کا منہ مضبوطی سے بند کرلیا گیا۔ ہم اندازہ لگاتے رہے کہ اس غریب عورت اور بچے کو لوگوں نے اب تک وہاں سے اٹھا کر دفن کردیا ہوگا۔
اسی شام کھانے پر میری ملاقات بادشاہ سے ہوئی اور میں نے جہاں پناہ کو حقائق سے آگاہ کیا۔ جہاں پناہ نے بتایا کہ انھوں نے بھی اس گھوڑے کے بارے میںاکثرسنا ہے۔ وہ غصیلا وحشی گھوڑا ہے اور شیر سے زیادہ خوفناک ہے۔ بادشاہ میری باتو ںکو سن کر کچھ زیادہ متعجب نہ ہوا، تاہم جب میں نے زور دے کر اس آدم خور گھوڑے کو ختم کرنے کی بات کی اور ان سے درخواست کی کہ وہ اس کی طرف دھیان فرمائیں کہ ان کی رعایا میں اس گھوڑے کی وجہ سے کس قدر خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے تو وہ اس بات پر راضی ہوگئے کہ اس وحشی کا مقابلہ حال ہی میں پکڑ کر لائے جانے والے ایک شیر سے کرایا جائے۔ یہ شیر کچھ روز پہلے قریب کے ایک جنگل سے پکڑ کر لایا گیا تھا۔ اس کانام ’’بروہا‘‘ رکھا گیاتھا ۔ مقابلے کے لیے جمعہ کا روز مقرر ہوا۔
وہ ایک چمکتی شفاف صبح تھی۔ ہم ایک صحن کی گیلری میں جمع ہوئے جو ۶۰؍گز مربع رقبے میں واقع تھی۔ یہ ایک ایسا احاطہ تھا، جس کے ہر طرف عمارات تھیں اور اس کے نیچے ایک برآمدہ تھا۔ بانسوں کی گھنی فصیل برآمدے کے سامنے بنی ہوئی تھی جس نے مکمل طور پر احاطے کو دائرے کی شکل میں گھیر رکھا تھا۔ اس طرح یہ ایک طرح کا بہت بڑا پنجرہ معلوم ہوتا تھا۔ آدم خور گھوڑے کو ایک گھوڑی کے ذریعے للچاکر اس جگہ لایا گیا۔
بادشاہ، عوام، نوکر چاکر، عورتیں اور لڑکیاں سب گیلری میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ بادشاہ ایک صوفے پر ایک ادائے خاص سے براجمان تھا۔ جہاں پناہ کو خدمتی عورتیں چٹائی سے بنے پنکھے سے ہوا کررہی تھیں۔ بعض کے ہاتھوں میں مور کے پروں کے بنے مورچھل تھے۔ دیکھنے میںیہ خوبصورت اور شاندار منظر تھا۔ متحرک گورے بازو جو کندھوں تک عریاں تھے، زیورات سے مزین تھے اور کنگن کلائیوں میں پنکھے جھلانے کے ساتھ ساتھ کبھی اوپر اور کبھی نیچے حرکت کررہے تھے۔ کنگن کھنکنے کی آواز بہت دلکش تھی۔ باقی لوگ ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم جہاں پناہ کے دائیں اور بائیں کھڑے تھے اور صوفے پر جھکے ہوئے تھے۔ صحن کا منظر واضح اور صاف تھا۔
بادشاہ نے احکام جاری کیے اور شیر کا پنجرہ برآمدے میں لایا گیا۔ ایک دروازہ جو بانسوںکا بنا ہوا تھا، اوپر کھینچ کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا گیا۔ اب بروہا شیر اس صحن میں تھا۔ وہ اپنی لمبی دم اپنے جسم پر مار رہا تھا۔ دوسری جانب قریب ہی آدم خور گھوڑا غصے سے اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے بہت شیر دیکھے ہیں لیکن پورے ہندوستان میں بروہا شیر سے خوبصورت شیر تلاش کرنا شاید آسان نہ ہو۔ اس کی چمکدار کھال اور رنگین دھاریاں پورے احاطے کو جگمگارہی تھیں۔ نگاہ تھی کہ اس کے جسم پر سے پھسل پھسل جاتی تھی، مگر گھوڑے کا رنگ مدہم تھا اور اس کی کھال بھی اتنی صاف نہ تھی۔ وہ شیر کے سامنے بھلا کیسے خوبصورت لگ سکتا تھا۔
اس آدم خور گھوڑے کو دبوچنے کے لیے شیر کو پچھلے ایک دن سے بھوکا رکھا گیا تھا تاکہ بھوک کی وجہ سے اس کا حملہ شدید ہو اور وار خالی نہ جائے۔ اس نے گھوڑے پر جارحانہ انداز میں نظر ڈالی اور گھات کے انداز میں اس کی طرف بڑھنے لگا۔ اس دوران آدم خور گھوڑے نے بھی مکمل طور پر اپنی نظریں اپنے دشمن پر جمائے رکھیں، البتہ اپنا سر نیچے کیے رکھا اور بے صبری سے ایک قدم آگے بڑھائے کھڑا رہا۔ وہ بروہا کے حملے کا انتظار کررہا تھا۔
جہاں تک غریب گھوڑی کا تعلق تھا، جو اس گھوڑے کو للچانے کے لیے لائی گئی تھی، دہشت سے مبہوت تھی۔ وہ بروہا اور آدم خور گھوڑے کی متوازی لائن میں کھڑی کانپ رہی تھی اور سہمی ہوئی اپنی قسمت کو کوس رہی تھی۔ اچانک ایک ہلکی سی چھلانگ لگا کر شیر گھوڑی تک پہنچ گیا۔ اور پنجے کے ایک ہی وار سے اسے زمین پر چت گرادیا اور تیز نوکیلے دانت اس کی گردن میں اتار دیے اور خون پینے لگا ۔ بادشہ یہ منظر دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ گھوڑی کا خون پی کر شیر کی اشتہا اور بڑھ جائے گی۔ وہ خوشی سے اپنے ہاتھوں پر ہاتھ مار رہا تھا۔ یورپین اور درباری عورتیں سبھی محظوظ ہورہے تھے اور بادشاہ کی مسکراہٹ میں شریک تھے۔
بروہا تین سے پانچ منٹ تک گرم گرم خون کے گھونٹ پی کر لطف اندوز ہوتا رہا لیکن آدم خور گھوڑے کی جانب اپنا سر کیے اور آنکھیں اس پر جمائے رکھیں۔ اس دوران آدم خور گھوڑے نے بھی اپنی جانب سے کسی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہ کیا۔ آگے بڑھائی ہوئی گردن، کھڑے کانوں، ٹکٹکی باندھی نظروں اور جھٹکتی ہوئی دم کے ساتھ وہ ارادتاً اپنے دشمن کو دیکھتا رہا۔ یوں لگا جیسے وہ کسی فوری ایکشن کے لیے تیاری کررہا ہو۔
آخر کار بروہا مطمئن ہوگیا۔ اب اسے اپنی زبان سے خون چاٹنے میں کوئی مزہ نہیں آرہا تھا۔ اس نے اپنے پنجے مردہ جانور کی گردن سے باہر کھینچ لیے اور اپنے جسم کو دائیں بائیں حرکت دینے لگا۔ پھر وہ صحن کی جانب بڑھا، بالکل اس طرح جیسے بلی چوہے پر حملہ کرتے ہوئے چلتی ہے۔ اس کی چال آہستہ اور بے آواز تھی۔ اس کے بڑے بڑے پنجے آہستہ آہستہ کھل رہے تھے۔ وہ لمبی شست لیے آگے بڑھتا رہا۔ پھر اپنے کندھے یکدم اوپر اٹھائے اور پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے اس کی کھال کبھی آگے اور کبھی پیچھے حرکت کررہی ہو اور کھال کا تعلق جیسے ہڈیوں اور پٹھوں سے برائے نام ہی ہو۔
بادشاہ اور دوسرے تماشائی ہمہ تن محو تھے۔ آدم خور گھوڑا صحن کے وسط میں کھڑا تھا اور آہستہ آہستہ دائیں جانب مڑ رہا تھا۔ شیر نے سر گھمایا اور اس کے ساتھ ساتھ بلی کی طرح دبک کر مزید کچھ آگے بڑھا۔ اس کے اس طرح چلنے سے کوئی آواز پیدا نہیں ہورہی تھی، مگر آدم خور گھوڑے کے پاؤں کے آہنی نعلوں کی آواز ضرور آرہی تھی جن کو وہ کبھی اوپر اٹھاتا اور کبھی نیچے پٹخ دیتا۔
آخرکار شیر بجلی کی سی تیزی سے اپنے دشمن آدم خور گھوڑے پر حملہ آو رہوا۔ ادھر گھوڑا بھی پوری طرح تیار تھا۔ اس نے پھرتی سے اپنے سر اور کندھوں کو بہت تیز حرکت دے کر اپنے دشمن پر ایک زور دار دولتی رسیدکردی جس سے شیر کا جبڑا ٹوٹ گیا اور وہاں سے گوشت لٹکنے لگا۔ اس وقت شیر کے پچھلے پاؤں کی گرفت گھوڑے کی اگلی ٹانگوں پر تھی، مگر اسے توازن برقرار رکھنے میں دشواری ہورہی تھی معاً گھوڑا ہوا میں سیدھا ہوا اور خوفناک آواز سے ہنہنایا۔ شیر زمین پر پاؤں پھیلا کر لیٹ گیا۔ ہم بمشکل یقین کرسکتے تھے کہ اسے پشت کے بل پھینک دیا گیا ہے۔ جب وہ دوبارہ اٹھا تو پہلے کی طرح ادھر ہی گھومنے اور دبک کر حرکت کرنے لگا جیسا کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
پھر ایک غضبناک ہنہناہٹ کے ساتھ آدم خور گھوڑا اپنی پہلی پوزیشن میں آیا اور دولتی مارنے کی تیاری کرنے لگا۔ تماشائیو ںکا خیال تھا کہ یہ دولتی شیر کی کھال ادھیڑ دے گی، مگر بادشاہ کی سوچ مختلف تھی۔ اس کا خیال تھا کہ شیر اب گھوڑے کو مار دے گا۔ شیر بلی کی طرح ارد گرد قدم رکھ رہاتھا۔ اس کا چوڑا گول سر ہوشیار اور چوکس دشمن کی طرف مڑا۔ اس کا ہر قدم بغیر کسی آواز کے اٹھ رہا تھا۔ اب دوبارہ پھولے نتھنوں اور شعلے اگلتی آنکھوں سے آدم خور گھوڑے نے پوزیشن لی۔ سر اور گردن نیچے جھکائے اور پھر گردن آگے بڑھائی۔ کان اکڑائے اور آنکھیں ٹکٹکی کی صورت میں دبا کر آنے والے شیر کی طرف کرلیں۔ اس نے کندھے، سر اور اگلے پاؤں کو ہلکا سا آگے بڑھایا تاکہ دولتی مارنے میں آسانی ہو۔
آٹھ یا دس منٹ تک بروہا شیر گھوڑے کے گرد گھیرا ڈالتا رہا اور گھوڑا بھی گھوم گھوم کر اپنی پوزیشن برقرار رکھتا رہا۔ شیر آہستہ آہستہ دہاڑتا اور غراتا رہا اور گھوڑا بھی آہستہ آہستہ ہنہناتا رہا۔ شیر نے اپنا جبڑا بمشکل ہی کھولا۔ گھوڑی کے خون کے چند قطرے جو ابھی تک اس کے ہونٹوں پر جمے ہوئے تھے، اس نے چاٹے اور مردہ گھوڑی کی طرف دیکھا جیسے وہ خون کے چند اور گھونٹ پینے کا ارادہ رکھتا ہو، لیکن یہ ایک لمحے کے لیے تھا… پھر وہی اکتادینے والی چال اور پھیرے شروع ہوگئے۔
آخر کار شیر مردہ گھوڑی کی لاش کے اوپر کھڑا ہوا اور چھلانگ لگائی۔ یہ اتنی اچانک تھی کہ ہم سب گیلری میں بیٹھے اس کی توقع نہیں کررہے تھے۔ آدم خور گھوڑے کے لیے یہ خطرے کا اعلان تھا۔ ایسا لگا جیسے کسی برقی قوت نے شیر کو اوپر اٹھایا ہو۔
تاہم گھوڑے کو کوئی پریشانی لاحق نہ ہوئی۔ اس کا سر پہلے سے بھی نیچے جھکا ہوا تھا، مگر شیر کے جبڑے ٹوٹ کر ناکارہ ہوچکے تھے، اس کا دوسرا وار بھی پہلے کی طرح خطا گیا۔شیر کا بڑا سا سر گھوڑے کی دم کے پاس ایک لمحے کے لیے رکا۔ پھر اس کے جبڑوں کا پچھلا حصہ گھوڑے کی چھاتی پر جاپڑا۔ اگلے ہی لمحے شیر گھوڑے کے اوپر سوار تھا۔ ایک ثانیے کے لیے ہم نے گھوڑے کو بے سکون دیکھا۔ شیر گھوڑے کی پیٹھ پر اپنا پیٹ رکھے آگے بڑھ رہا تھا کہیں گھوڑا اسے پیٹھ کے بل گرا نہ دے۔ پھر وہی ہوا۔ اس نے جسم کی ایک پھرتیلی جنبش سے شیرکو نیچے گرادیا۔ اس کے آہنی نعل دار پاؤں ایک تباہ کن قوت کے ساتھ شیر کے منہ پر پڑے اور جنگل کا بادشاہ ایک مرتبہ پھر زمین پر پاؤں پھیلائے بے یارومددگار پڑا تھا۔
شیر کچھ دیر اسی طرح پڑا رہا۔ جب وہ کچھ سنبھلا تو اس نے بانسوں کے احاطے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ دوڑنا شروع کردیا۔ اب یہ واضح ہوچکا تھا کہ شیر مزید حملہ نہیں کرے گا۔ وہ صرف اپنا دفاع کررہا تھا۔ اس کا جبڑا ٹوٹا ہوا تھا اور اس کی دم ٹانگوں کے درمیان تھی۔ اس کی حالت اس کتے کی طرح تھی جس کے بال نیچے کی جانب گرے ہوئے ہوں۔ وہ درد سے کراہ رہا تھا اور بے بسی سے آدم خور گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کے کراہنے پر لوگوں کو ترس آرہا تھا۔ بادشاہ بھی اس کی پکار سن رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ کیا ہم شیر کو بچاسکیں گے؟ پھر بادشاہ کے اشارے پر پنجرے کا دروازہ کھول دیا گیا اور شیر دوڑ کر اپنے پنجرے کے کونے میں اس طرح جابیٹھا جیسے اس نے اپنے آپ کو اندر دفن کرلیا ہو۔ آدم خور گھوڑے نے فاتحانہ انداز میں اپنے اگلے پاؤں اٹھائے اور زور سے ہنہنایا۔ پھر گھوڑی کو سونگھ کر وہاں سے پیچھے ہٹ گیا۔ سر کو بلند کیا اور دم کمان کی طرح بناکر احاطے میں دلکی چال چلنے لگا جیسے تماشیائوں پر اپنی فتح کی دھاک بٹھا رہا ہو… بھوکے شیر پر گھوڑے کی یہ فتح افسانہ نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے ہم سب عینی شاہد تھے۔
(اردوڈائجسٹ، لاہور)
مرسلہ: اقبال احمد ریاض
——