جب حاشیے پر کیے گئے سماج کے حصوں کی بات ہوتی ہے تو ذہن زیادہ تر ان لوگوں کی طرف جاتا ہے جن کی تعدادکم ہے اور وہ ملک کے مختلف دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں۔ سماج اور سماجی زندگی کے حاشیے پر آدی باسی اور اقلیتی گروہ دکھائی دیتے ہیں لیکن چونکہ حاشیے کا تصور ہمارے دماغ میں ایک پتلی سی جگہ کا ہوتا ہے اس لیے ہم اس طرف توجہ ہی نہیں دیتے کہ حقیقتاً ملک کی آبادی کے نصف حصہ، یعنی ملک کی عورتوں کو آج بھی سماجی زندگی اور سماج کے تمام شعبوں اور جگہوں میں حاشیے پر گذر بسر کرنے کے لیے مجبور کردیا گیا ہے۔
ریاستی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے لیے تقریباً تیرہ مرتبہ انتخابات ہوچکے ہیں لیکن جیتنے والی خواتین کی تعداد بدلی نہیں، یہ تعداد آٹھ سے دس فیصد کے بیچ میں ہی رہتی ہے۔ مغربی بنگال کی موجودہ اسمبلی ہی اس کی مثال ہے اس میں تینتیس خواتین ممبر ہیں ان میں سے انتیس مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کی ہیں۔ اسمبلی کی کل تعداد کا یہ پندرہ فیصدی ہے۔
جب بھی ہمارے ملک میں کسی طبقے کو اس کے حقوق اور مناسب مرتبہ یا عہدے سے دور جاتا ہے تو یہ دلیل دی جاتی ہے کہ وہ اس کا اہل نہیں۔ خواتین کو بھی بہت دنوں تک سیاست اور حکومت کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ انکی گھریلو ذمہ داریوں کا حوالہ بھی دیا گیا، پھر یہ بھی کہا گیا کہ سیاست اتنی گندی ہوچکی ہے کہ پاک و صاف خواتین کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ ان دلیلوں سے کام نہ چلا تو پھر یہ کہا گیا کہ عورتیں جیت نہیں سکتیں اس لیے ان کو ٹکٹ دینا بے کار ہے۔ بہت دنوں تک خواتین تحریک سے منسلک کارکنوں نے ان دلیلوں کا جواب دینے میں وقت برباد کیا۔پھر جب سمجھ میں آیا کہ معاملہ دلیل اور اہلیت کا نہیں بلکہ مردوں کے غلبہ والی سیاسی پارٹیوں اور سیاسی گروپوں اور نیتاؤں کی سوچ کا ہے تومجبور ہوکر اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے رزرویشن کا مطالبہ کیا گیا۔ اس مطالبے کا زبردست مذاق اڑایا گیا۔ معاملے کو مذاق میں ٹالنے کی کوشش کی گئی لیکن جب خواتین کی ایک بڑی تعداد اس مطالبے کی حمایت میں آگے آئی تو کچھ بڑی پارٹیوں کے نیتاؤں نے بھی اس کی حمایت شروع کردی۔اور ۱۹۹۶ء میں ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے خواتین رزرویشن بل تیار کیا اس بل پر بہت بحث ہوچکی ہے، لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ رزرویشن صرف دس سالوں کے لیے ہی ہونے والا ہے۔ یہ بھی بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ پارلیمنٹ کے ارکان(جو تمام سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی کررہے تھے) نے یہ کہا تھا کہ اس بل کو بغیر بحث کے ہی پاس کردیا جائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جب بل کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تو محترمہ اومابھارتی ہی نے ضد کرکے بحث چھیڑ دی اور یہ کہا کہ اس بل میں ذات برادری کی بنیاد پر بھی رزرویشن دینے کی گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔ بل کے اوراق بھی پھاڑے گئے اور گلے بھی خوب پھاڑے گئے اور بار بار یہی ہوا۔ بھاجپا قیادت والی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس سرکار آئی تو ایک رسم سی بن گئی کہ سیشن کے آخری دن عزت مآب ارکان کی تفریح کے لیے بل پیش کیا جاتا تھا، ہنگامہ ہوتا تھا، ہنگامہ کرنے والے اور ان کی پیٹھ تھپتھپانے والے دونوں ہی خوب لطف اندوز ہوتے اور پارلیمنٹ کو اگلے اجلاس کے لیے ملتوی کردیا جاتا۔
بہرحال نیشنل ڈیموکریٹک الائنس کے دن پورے ہوئے اور گانگریس کی سرپرستی میں یو پی اے کی سرکار بنی، اس کے ’’کم از کم مشترکہ منصوبہ‘‘ میں خواتین رزرویشن بل کو پاس کرنے کی یقین دہانی بھی درج کی گئی لیکن اس کی حکومت کے دو سال پورے ہوگئے لیکن اس یقین دہانی کی تکمیل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ جب حالیہ مانسون سیشن کا اعلان ہوا اور سرکار نے ان تمام بلوں کا تذکرہ کیا جن کو وہ پارلیمنٹ کی اس اجلاس میں پیش کرنے والی تھی تو اس بل کا نام اس میں کہیں نہیں تھا۔ لگتا تھا کہ سرکار میں بیٹھے لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ شاید عورتوں نے تھک ہار کر اسکو بھلا دیا ہوگا، لیکن تمام خواتین تنظیموں نے پارلیمنٹ کے سامنے تین دن کے دھرنے کا فیصلہ کرلیا اور ۲؍اگست کو دھرنا شروع ہوا۔ تین اگست کو عورتوں کے ایک وفد نے جب وزیر اعظم سے ملاقات کی تو انھوں نے کہا کہ وہ تو شروع سے ہی رزرویشن کے حامی ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی جانب سے بل پیش کیا جائے اور پھر پاس نہ ہو۔ انھوں نے اپنی حلیف پارٹیوں کے تمام ارکان سے بات چیت کی ہے۔ اور انھی کے لفظوں میں جتنی امید مجھے آج ہے اتنی مجھے ایک ہفتے پہلے نہیں تھی۔
وزیر اعظم کی یقین دہانی سے کچھ امید بندھی ہے۔ اس نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ اس جدوجہد کو جاری رکھنا کتنا اہم ہے لیکن اس طرح کی مہم کو چلاتے رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوریت کی دہائی دینے والے ہی اس راہ میں روڑہ بنتے ہیں۔ ہمارا میڈیا جو اپنے آپ کو عوامی آزادی کا محافظ بتاتا ہے وہ تو خواتین رزرویشن کے اشو کو ایک بے جان اور گھسا پٹا اشو سمجھ کر اس کے سلسلے میں قطعی مایوس رہتا ہے۔ کچھ دن پہلے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جب پسماندہ طبقوں کے بچوں کے لے رزرویشن کا اعلان کیا گیا اس وقت میڈیا نے بھی اپنا اصلی چہرہ دکھانے کا کام کیا۔ رزرویشن مخالف لڑکوں اور لڑکیوں کی ٹولیاں نکلیں، جو کہیں کٹورا لیکر بھیک مانگتی تھیں تو کہیں استرا لیکر لوگوں کے بال اور داڑھیاں بنانے لگتی تھیں یا پھر جوتوں کو صاف کرنے لگتی تھیں۔ ان کا اشارہ صاف تھا کہ وہ لوگ جن کے یہ آبائی پیشے ہیں انہیں یہی کام کرنا چاہیے اور ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ میڈیا نے ان کے ساتھ ساتھ بھونڈی اور جمہوریت مخالف سرگرمیوں کو چھاپنے اور دکھانے ہی کا کام نہیں کیا تھا بلکہ انہیں متحد کرنے کا کام بھی کیا اور انہیں حوصلہ بھی دیا۔ تو یہ میڈیا اگر خواتین رزرویشن کو مذاق بناکر ٹالنے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔
خواتین رزرویشن کے مخالفین سے خواتین تحریک سے منسلک لوگ بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ انسانی آزادی کی جمہوری روایات میں توسیع کرنے کی کوششوں کو تعاون اور حمایت دے کر ہی اس کام کو انجام دیا جاسکتا ہے۔
انہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ فلسطین جیسا ملک جو تمام طرف سے مشکلات سے گھرا ہوا ہے اس نے بھی منتخب اداروں میں خواتین کے لیے رزرویشن دیا ہے اور نیپالی موجودہ عارضی پارلیمنٹ نے ابھی حال ہی میں متفقہ طور سے تجویز پاس کی ہے کہ اس کے نئے دستور میں خواتین کو ہر سطح پر منتخب اداروں میں تینتیس فیصد رزرویشن دیا جائے گا۔