بند کمرے میں ہم سب ایک ادھ بجھی انگیٹھی کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ باہر آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ بجلیاں کوند رہی تھیں، تیز بارش ہورہی تھی ، سرد ہوا کے زور دار تھپیڑے رگوں میں خون منجمد کیے ڈال رہے تھے۔ ہمارے نحیف جسموں پر موسم گرما کے باریک اور بوسیدہ کپڑے تھے اور ہم سردی کی شدت سے یوں کانپ رہے تھے جیسے تیز ہوا سے خشک پتے۔ بار بار ہمارے ہونٹوں سے دبی دبی آہیں نکل جاتی تھیں اور ہم اس بجھتی ہوئی انگیٹھی کو دہکانے کی تدبیروں پر غور کرنے لگتے تھے۔ ہمارے برابر کا کمرہ مسرور قہقہوں سے گونج رہا تھا اور قہقہوں کی گونج میں خشک میوہ چبانے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔
اخروٹ— بادام— ننھے طارق نے سرگوشی کے لہجے میںکہا۔ ہم سب کے جھکے ہوئے سر ایک بار اٹھے اور ایک دوسرے کو خاموش نگاہوں سے دیکھ کر پھر جھک گئے۔ سب خاموش تھے، لیکن طارق کے وہ الفاظ میرے دہکتے ہوئے آتش دان — اور میں گہری آہ بھر کر اس انگیٹھی کو دیکھنے لگی جس کی چنگاریاں دم توڑ رہی تھیں۔ دراصل سردی اچانک ہی شدت اختیار کرگئی تھی ورنہ آج دوپہر تک موسم اس قدر سرد نہ تھا۔ اس وقت دھوپ خوب پھیلی ہوئی تھی جب میں کپڑے دھونے کے لیے بیٹھ گئی۔ یکایک ننھے طارق نے شور مچایا۔
بجیا بجیا وہ دیکھو بادل آرہا ہے۔
میں نے دیکھا واقعی بادل کا ایک ٹکڑا آسمانی وسعتوں میں یوں تیر رہا تھا جیسے کسی بڑے چشمے میں کنول کا تنہا پھول۔ میں بے پروائی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف رہی لیکن نورین اور عذرا، طارق سے جھگڑنے لگیں، ان کا کہنا تھا کہ ہوائیں بادل کے اس ٹکڑے کو واپس لے جائیں گی اور طارق کہتا تھا کہ نہیں۔ ہوائیں بادل لایا کرتی ہیں لے جایا نہیں کرتیں۔ میں ان کی ان معصوم تاویلات پر دل ہی دل میں مسکر اتی رہی۔ یکایک بادل سارے آسمان پر محیط ہوگئے اور عین دوپہر میں چمکتا ہوا گرم سورج نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اسی طرح ایک دن ہماری خوشیوں اور راحتوں کا سورج بھی اچانک ہماری نگاہوں سے چھپ گیا تھا۔ اس کے بعد سے جیسے ہم خوشی اور راحت کی روشنی کے لیے ترس ترس گئے تھے۔ دکھوں اور مایوسیوں کی گہری تاریکیاں ہمارے دلوں اور ہماری روحوں پر اس طرح چھاگئی تھیں کہ دور دور کہیں امید کی کرن بھی نظر نہیں آتی تھی۔ میں نے اٹھ کر باہر دیکھا۔ گہری تاریکی اورسخت سردی نے میرے رونگٹے کھڑے کردیے۔ کپکپاتی ہوئی واپس کمرے میں آگئی۔ سردی اس غضب کی تھی کہ ہر ختم ہونے والی ساعت ہمیں زندگی سے دور کرتی جارہی تھی۔ اسی وقت بالائی منزل پر دو مشترک قہقہے کھنکے۔ رانی باجی – شوکت بھائی- نورین بول اٹھی۔ یہ دونوں نام میرے ذہن پر دو ہتھوڑے بن کر پڑے اور ماضی کے وہ تمام واقعات جن کو میں بھول جانا چاہتی تھی، ایک ایک کرکے مجھے یاد آنے لگے اور میں نے بہت دکھ کے ساتھ سوچا ایک وہ دن بھی تھا جب چچا میاں نے بہت آرزو کے ساتھ ہمارے عادل بھیا سے رانی باجی کی نسبت کی تھی۔ ان دنوں چچا میاں ہم سے بہت محبت کرتے تھے ، ہماری معمولی معمولی خواہشوں اور چھوٹی چھوٹی ضرورتوں تک کا انھیں خیال رہتا تھا۔ وہ گھڑی بھر کو بھی ہمیں اپنے سے جدا نہیں ہونے دیتے تھے۔ رانی باجی بھی ہر دم ہماری خاطر میں لگی رہتی تھیں۔ منٹ منٹ پر پان کے بیڑے ہمارے ہاتھوں بھیا کو پہنچایا کرتیں۔ ان کے لیے ہرچیز وہ خود ہی تیار کرتی تھیں اور پھر پکچر کے بہانے، سیر کے حیلے وہ دونوں یکجا ہوہی جاتے تھے اور ان کے قہقہے فضا میں یوں گونجنے لگتے تھے، جیسے چاندی کے بہت سے ارغنون بج رہے ہوں لیکن بھیا اس زندگی سے مطمئن نہیں تھے، ان کی رگوں میں جواں جواں خون گردش کررہا تھا۔ وہ اپنے ملک اور وطن کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ فوجی زندگی انہیں اسی لیے پسند تھی۔ ابا میاں ان کی تمناؤں سے بے خبر ان کا سہرا باندھ کر دلہن بیاہ لانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ادھر بھیا اس بوجھل زندگی سے اکتائے جارہے تھے۔ اگر وہ ہمت سے کام لے کر اپنا نقطۂ نظر ابا میاں پر واضح کردیتے تو ابا میاں ان کے راستے میں رکاوٹ نہ بنتے لیکن بھیا نے کچھ کہے سنے بغیر ایک دن چپ چاپ گھر چھوڑ دیا، ان کے اس طرح چلے جانے سے رانی باجی بہت اداس رہنے لگیں اور ابا میاں کی پریشانی اور دل شکستگی کی تو کوئی حد نہیں رہی۔ وہ اس صدمے کی تاب نہ لاسکے اور ایک دن ہمیں روتا پیٹتا چھوڑ کر اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ دنیا ہمارے لیے اندھیری ہوگئی، بھیا کے متعلق متضاد افواہیں سننے میں آرہی تھیں۔ کوئی کہتا تھا، انھیں فوج میں کمیشن مل گیا ہے اور وہ کشمیر بھیج دئیے گئے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ بھیا کچھ عرصے سے لاپتہ ہیں اور ان کے ساتھیوںکا خیال ہے کہ وہ دشمن کی قید میں ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ شہید ہوگئے ہیں۔ اور چچا میاں کو تو اس آخری چیز کا پورا پورا یقین تھا۔ وہ کہتے تھے اگر وہ زندہ ہوتا تو اپنی زندگی کا کوئی ثبوت تو دیتا۔ بہر حال اب ہم چچا میاں کی سرپرستی میں تھے اور چچا میاں اب بالکل بدل چکے تھے۔ اب نہ وہ ان کی محبت باقی رہی تھی نہ شفقت۔ اور اب تو مہینوں سے انھوں نے بھولے سے ہمارا حال پوچھنا بھی گوارا نہ کیا تھا۔ خدا معلوم ایسے کون سے کام نکل آئے تھے۔ شاید ابا میاں کی جائیداد کے انتظام میں مصروف رہتے ہوں کون جانے۔ ادھر رانی باجی بھی بالکل بدل گئی تھیں، انھیں ہماری ذرا بھی پروا نہیں رہی تھی ہم روتے رہتے اور وہ ہنس ہنس کر شوکت بھائی سے باتیں کرتی رہتیں۔ اپنے بھیا کی جگہ شوکت بھائی کو دیکھ کر ہمارے دل تڑپ اٹھتے تھے۔ آج کی رات بھی ان کے مشترک قہقہوں نے میرا دل دکھادیا۔ بھیا شدت کے ساتھ یاد آنے لگے۔ کاش آج وہ زندہ ہوتے اور ہمارے پاس ہوتے۔
ملک انہی دنوں کئی روز تک چلی جنگ سے کامیابی کے ساتھ فارغ ہوا تھا، جاں نثاروں کو تمغے اور اعزاز مل رہے تھے۔ ہم سوچتے ہمارے بھیا زندہ ہوتے اوروہ بھی یہ اعزاز حاصل کرتے۔ کبھی کبھی میرا دل کہتا بھیا زندہ ہیں اور کوئی اہم ملکی خدمت انجام دے رہے ہیں، ممکن ہے وہ خود کو کسی مصلحت کی بنا پر ظاہر نہ کرنا چاہتے ہوں۔ میں سوچتی اگر بھیا زندہ ہیں تو انھوں نے اس جنگ میں ضرور شرکت کی ہوگی۔ خوب بہادری سے لڑے ہوںگے۔ ہائے کتنا اچھا ہوکہ بھیا اب کامیابی کے ساتھ لوٹ آئیں کاش!
ہمیں سردی لگ رہی ہے بجیا۔ طارق کی آواز نے میرا سلسلۂ خیال منقطع کردیا۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ تینوں پتلی سی دلائی میں لپٹے کانپ رہے تھے۔ اُف دنیا بھی کیا جگہ ہے۔ گھر کے سب لوگ گرم گرم بستروں میں آرام کررہے ہیں اور انہیں اتنی بھی خبر نہیں ہے کہ انہی کے گھر میں، انہی کے برابر والے کمرے میں چند معصوم جانیں موت کی زد میں آرہی ہیں۔ آہ ہماری زندگی کی یہ آخری رات۔
میری آنکھوں سے دو آنسو ٹپک کر طارق کے ہاتھ پر گرے۔ وہ گھبرا گیا۔
ارے بجیا!— آپ رو رہی ہیں…
معاً بجلی کی خیرہ کن چمک کے ساتھ بادل زور سے گرجے۔ عذرا اور نورین کی گھگی بندھ گئی۔ طارق مجھ سے چمٹ گیا اور عذرا نے اپنے ننھے سفید ہاتھ جو سردی کی شدت سے کانپ رہے تھے اوپر اٹھا دیے۔
اللہ میاں دھوپ نکال دیجیے۔
اس کی اس معصومیت پر میرے آنسو شدت سے بہنے لگے۔ اس وقت دھوپ۔ آدھی رات کو دھوپ کہیں نکلی ہے… کبھی ایسا ہوا ہے… ہائے کتنی نادان ہے میری بہن۔
تب ہی صدر دروازے پر پیہم دستکوں کی آواز نے ہمیں اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اس وقت کون آسکتا ہے۔ کون آیا ہے— رانی باجی اور شوکت بھائی کے قہقہے بھی ذرا دیر کے لیے تھم گئے۔ جیسے وہ بھی اس بے وقت آنے والے کے لیے سوچنے لگے ہوں۔ کچھ ملی جلی آوازیں آئیں۔ ہمیں یوں لگا جیسے مضبوط مضبوط ہموار قدموں کی چاپ ہماری طرف آرہی ہو۔ ہمارے دل دھڑکنے لگے۔ پھر ایک جھٹکے سے دروازہ کھل گیا۔ بجلی کی تیز روشنی میں ہم نے دیکھا ہمارے عادل بھیا فوجی ڈریس میں ملبوس اعزازی تمغے لگائے ہمارے سامنے کھڑے تھے— اُف خدا جیسے دھوپ نکل آئی ہو— تیز دھوپ!