آدھے سر کا درد

علی ناصر زیدی

دنیا کے بیشتر ممالک میں آدھے سر کا درد ایک عام بیماری ہے۔ ہمارے قیمتی وقت کا کافی حصہ اس بیماری کی نذر ہوجاتا ہے۔ اس کا شمار ان عوارض میں ہوتا ہے جن کے اسباب و علاج پر اب تک بہت کم تحقیقات ہوئی ہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک کی بھی دس فیصد آبادی اپنی زندگی کے کسی نہ کسی دور میں اس میںمبتلا ہوتی ہے۔ عورتیں مردوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ تعداد میں اس کی تکلیف اٹھاتی ہیں۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ انہیں ہر ماہ ایک وظیفہ انجام دینا پڑتا ہے، جس کے دوران دردِ سر کی شکایت آسانی سے لاحق ہوسکتی ہے۔
بعض لوگوں کو بیدار ہوتے ہی آدھے سر میں سخت درد محسوس ہوتا ہے، جو آنکھوں پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ ان کی بینائی میں عارضی طور پر فتور واقع ہوجاتا ہے۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا آجاتا ہے یا پتنگے سے اڑنے لگتے ہیں۔ کوئی چیز صاف نظر نہیں آتی۔ ایک آنکھ پر بہت زیادہ بار محسوس ہوتا ہے۔ نصف پیشانی سے لے کر پیچھے گردن تک کے پٹھوں میں سخت درد محسوس ہوتا ہے۔ مریض فوراً لیٹ جانے کی خواہش کرتا ہے، اسے روشنی بری لگتی ہے اور وہ تاریک گوشوں میں منھ چھپاتا پھرتا ہے۔ تن درست ہوجانے پر بھی ایسے لوگ تیز روشنی سے گھبراتے ہیں۔
درد شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی مریض کو چکر آنے لگتے ہیں، متلی ہونے لگتی ہے اور قے آجاتی ہے۔ صبح سوریہ معدہ خالی ہونے کی وجہ سے متلی اور بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ آدھے سر کے درد کا دورہ چار گھنٹے سے چوبیس گھنٹوں تک جاری رہ سکتا ہے۔ بیشتر مریض بارہ گھنٹے اس میں مبتلا رہتے ہیں، لیکن اس کے بعد اتنے نڈھال ہوتے ہیں کہ باقی بارہ گھنٹے بھی انہیں ہوش نہیں آتا۔
بعض لوگ ہر ہفتے دو تین مرتبہ اس نامراد بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں تو زندگی ناقابلِ برداشت بوجھ بن جاتی ہے۔ بے چارے ایک حملے سے عہدہ برآ نہیں ہونے پاتے کہ مرض کا دوسرا حملہ ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے لوگ نہایت پژمردہ اور پست رہے ہیں۔
آدھے سر کے درد کا خطرہ ایسے لوگوں کو زیادہ لاحق رہتا ہے جو نگاہ کا کام کرتے ہیں، مثلاً حساب کتاب کرنے والے، پروف پڑھنے والے، مصنفین، محاسب، کلرک وغیرہ۔ لیکن یہ مرض آنکھیں زیادہ استعمال کرنے سے اتنا پیدا نہیں ہوتا جتنا غلط طور پر بیٹھنے سے ہوتا ہے۔ آپ سر جھکا کر کام کرتے ہیں تو آپ کی گردن کی رگیں اور پٹھے تن جاتے ہیں۔ اس طرح دماغ تک خون اچھی طرح نہیں پہنچتا، بلکہ شریانوں میں پھنسنے لگتا ہے۔
اسباب و علل
آدھے سر کے درد کے اسباب کے متعلق مختلف نظریات قائم کیے گئے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی صحیح ثابت نہیں ہوا۔ جدید تحقیقات مظہر ہیں کہ یہ مرض بہت کچھ موروثی نوعیت کا ہوتا ہے۔ شریانوں میں کسی بھی قسم کا فتور اس مرض کا سبب بنتا ہے۔ جب دماغ کی شریانیں متاثر ہوتی ہیں اور دماغی نسیجوں میں کسی جگہ کوئی مائع یا مواد پھنس جاتا ہے تو ہم دردِ سر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کے چار اسباب ہوسکتے ہیں۔ کیمیائی عوامل، الرجی، جذباتی کیفیات اور ذہنی تناؤ یا انتشار۔ ہم ان چاروں اسباب پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔
(۱) کیمیائی عوامل
یہ معلوم کیا جاچکا ہے کہ آدھے سرکے حملے کے دوران ہمارے خون میں سوڈیم کی سطح غیر معمولی طور پر زیادہ ہوجاتی ہے۔ عام طور سے جسمانی بافتوں اور نسیجوں میں سوڈیم کلورائڈ یا نمک جمع ہوجاتا ہے۔ ہماری غذا میں نمک جتنا زیادہ شامل ہوگا، خون میں اس کی آمیزش اور نسبت اتنی ہی زیادہ ہوتی جائے گی۔ جب خون میں نمک زیادہ ہوگا تو ہمارے خلیے، نسیجیں اور بافت بھی زیادہ نمک قبول کرلے گی۔
ابھی تک یقین کے ساتھ کچھ معلوم نہیں کہ آدھے سر میں درد پیدا کرنے میں نمک کیا حصہ لیتا ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ ہمارے جسم میں نمک کی مقدار جتنی کم ہوگی، اتنا ہی اچھا ہے۔ آدھے سر کے درد کے مریض کا پہلا علاج یہ ہے کہ اس کی غذا میں نمک کی مقدار کم کی جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے جسم کو سوڈیم کلورائڈ یا نمک کی کچھ مقدار درکار ہوتی ہے۔ لیکن تازہ ترکاریوں میں بھی نمک موجود ہوتا ہے۔ انھیں سلاد کی شکل میں یا تھوڑا جوش دے کر استعمال کیا جائے تو جسم کی یہ ضرورت آسانی سے پوری ہوسکتی ہے۔
بہت سے لوگوں کو بے نمک کی ترکاری یا غذا بدمزہ معلوم ہوتی ہے۔ خاص طور سے ایسے لوگوں کو جو ہر چیز پر نمک چھڑک کر کھانے کے عادی ہیں۔ تاہم اگر آپ کوشش کریں تو نمک چھوڑ سکتے ہیں۔ عادت بہت بڑی قوت ہے۔ رفتہ رفتہ بغیر نمک کی غذا استعمال کیجیے۔ تھوڑی سی محنت اور جبر کے بعد آپ اس کے عادی ہوجائیں گے۔ اس وقت آپ ترکاریوں اور پھلوں کے قدرتی ذائقے سے بہت محظوظ ہوں گے۔ شلجم، مولی، گوبھی اور کتنی ہی دوسری ترکاریاں ایسی ہیں، جن میں قدرتی طور پر نمک کافی مقدار میں موجود ہوتا ہے۔
دردِ سر میں مستقل طور پر مبتلا رہنے والے مریضوں کے خون میں شکر کی مقدار بالعموم زیادہ دیکھی گئی ہے۔ اگر ایسے لوگوں کی غذا میں پروٹین بڑھا دی جائے اور کاربوہائڈریٹ کم کردیا جائے تو یہ عارضہ غائب ہوجاتا ہے۔ ایسے مریضوں کی تعداد نسبتاً کم ہوتی ہے۔
ایسے مریض کا پتا لگانے کے لیے یہ معلوم کیجیے کہ اسے صبح کو زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے یا سہ پہر کو۔ اسے اعصابی الجھن زیادہ ستاتی ہے یا بھوک اور کیا شکم سیر ہونے کے جلد ہی بعد اسے پھر بھوک لگ آتی ہے؟ اگر ان سوالات کا جواب اثبات میں ہو تو یہ طے ہوجائے گا کہ اس مریض کو غذا کی وجہ سے سر درد ہوتا ہے، اس کی غذا فوراً تبدیل ہونی چاہیے۔ اسے ایسی تمام غذاؤں سے پرہیز کرنا چاہیے جن میں شکر یا نشاستہ زیادہ ہو، مثلاً جام، چٹنی، کیک، بسکٹ، مٹھائیاں، چاکلیٹ، پُڈنگ وغیرہ۔ ان کی جگہ اسے پروٹینی غذائیں استعمال کرنی چاہئیں۔ مثلاً انڈے، پنیر، گری دار میوے، گوشت، تازہ پھل اور ابلی ہوئی ترکاریاں۔
(۲) الرجی
دردِ سر کے بعض مریض الرجی کا شکار ہوتے ہیں۔ بعض غذائیں یا مشروبات یکایک انھیں اس تکلیف میں مبتلا کردیتے ہیں۔ خیال ہے کہ ان کے استعمال سے ان لوگوں کے جسم میں شدیدِ ردِّ عمل پیدا ہوتا ہے اور ان کے دورانِ خون میں ایک ایسا مادہ شامل ہوجاتا ہے جو انھیں سخت نقصان پہنچاتا ہے۔ شریانیں، متاثر ہوتی ہیں اور وہ دردِ سر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
غدودوں کا فعل خراب ہونے سے بھی یہ مرض پیدا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض عورتیں ہر ماہ اس کی تکلیف اٹھاتی ہیں۔ اس صورت میں علاج نسبتاً زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ مریض یا مریضہ کو کس غذا یا کس بات سے تکلیف پیدا ہوتی ہے تو اس سے گریز کرنا چاہیے۔ بعض حالات میں فاقہ بھی مفید رہتا ہے۔ ہلکی ورزش بھی فائدہ دیتی ہے، تاکہ جسم کا کیمیائی عمل درست ہوجائے اور الرجی دور ہوجائے۔
اس صورت میں صرف مختصر فاقوں پر اکتفا کی جائے، جن کے دوران سادہ پانی یا پھلوں کے پتلے عرق کے سوا کچھ اور نہیں کھاناپینا چاہیے۔ قبض پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ فاقہ توڑنے کے بعد پہلے دن پھلوں کے سوا کچھ نہ کھائیے۔ دوسرے دن سلاد، پنیر اور کسی خشک میوے پر اکتفا کیجیے۔ اس کے بعد ہر روز سلاد اور تازہ ترکاریاں شامل غذا رہنی چاہئیں۔ دوسرے وقت کے کھانے میں پروٹین زیادہ ہونی چاہیے، جو پنیر ، گری دار میووں، انڈوں اور گوشت میں افراط سے موجود ہوتی ہے۔ ایک کھانے پر ان میں سے صرف ایک چیز استعمال کرنی چاہیے۔ ہر روز پھلوں کا استعمال مفید رہے گا۔
ہر روز تھوڑی بہت ورزش بھی ضروری ہے۔ تاکہ دورانِ خون تیز ہوجائے اور پھیپھڑوں کو پورے طور پر پھیلنے کا موقع ملے۔ چند ورزشیں یہ ہوسکتی ہیں: (۱) بھاگنا دوڑنا (۲) زیادہ سے زیادہ تیزی کے ساتھ بیٹھکیں لگانا (۳) دونوں بازوں پھیلا کر جسم کو بائیں طرف اور پھردائیں طرف زیادہ سے زیادہ تیزی کے ساتھ موڑنا۔
شروع میں تھوڑی ورزش کی جائے پھر رفتہ رفتہ اسے بڑھایا جائے، تاکہ جسم میں چستی پیدا ہو اور پھیپھڑے پورے طور پر کام کریں۔ اگر مریض قلب کے کسی عارضے میں مبتلا ہو یا مبتلا رہ چکا ہو یا اس کی عمر زیادہ ہو تو ورزش اور بھی ہلکی ہونی چاہیے۔ کسی ماہر معالج سے مشورہ کرلیا جائے تو بہتر ہے۔
چلنا بھی ایک اچھی ورزش ہے، لیکن چلنے اور ٹہلنے میں فرق ہوتا ہے۔ تیز چلیے اور اپنے بازؤوں کو پوری طرح حرکت دیجیے۔ ساتھ ساتھ گہرے سانس لیجیے۔ شہر سے دور نکل جائیے تاکہ آپ کو تازہ ہوا میسر آسکے۔
دردِ سر کو زیادہ شدید اور ناقابلِ علاج بنانے میں قبض بہت مدد دیتا ہے، اسے دورکرنے کے لیے بار بار جلاب نہ لیجیے۔ قبض کشا دواؤں کا زیادہ استعمال اچھا نہیں ہوتا۔ اپنی غذا میں زیادہ سے زیادہ پختہ پھل شامل کیجیے۔ انجیر، انگور، منقی بڑے اچھے پھل ہیں، جنھیں آپ صبح ناشتے پر یا دوپہر کے کھانے کے بعد استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر قبض زیادہ سخت ہے اور قبض کشا دوائیں کثرت سے استعمال کی جاچکی ہیں تو تیسرے دن انیما لینا مفید رہے گا۔ رفتہ رفتہ درمیانی وقفہ بڑھاتے جائیے، تاآں کہ آنتیں اپنے وظائف خود انجام دینے لگیں۔
(۳) جذباتی اور ذہنی انتشار:
جذباتی ہیجان، انتشار اور تناؤ ایک ہی قبیل کی چیزیں ہیں۔ بعض اوقات ان کی وجہ سے بھی سر میں درد پیدا ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں کو غصہ آجانے سے سر درد کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ خاص طور سے اس وقت جب وہ اپنا غصہ کسی پر نکال بھی نہ سکیں، مثال کے طور پر ٹریفک کو لے لیجیے۔ کثرتِ آبادی کے ساتھ ہر شہر ٹریفک کے مسائل سے دوچار ہے۔ آپ اپنی کار یا اسکوٹر ٹھیک ہاتھ پر لیے جارہے ہیں، یکایک کوئی دوسرا ڈرائیور ٹریفک کے آداب و قواعد کی پروا کیے بغیر آپ کا راستہ کاٹتا ہے۔ آپ کچھ کہہ تو سکتے نہیں، اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا کر رہ جاتے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ گھٹے ہوئے جذبات اتنے شدید ہوجاتے ہیں کہ آپ سر درد میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
ایسے موقع پر خون کے بے شمار خلیے یکایک گردن سے گزر کر دماغ میں پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جذبات دورانِ خون میں رکاوٹ ڈال دیتے ہیں۔ دماغی نسیجیں بھر جاتی ہیں اور سر میں درد پیدا ہوجاتا ہے۔ اگر ریڑھ کی ہڈی کی کوئی کڑی کسی وجہ سے اپنی جگہ سے ہٹ جائے، تب بھی یہی صورت پیدا ہوتی ہے۔
شور وشغب، ہلچل اور اضطراب بھی دردِ سر کا سبب بنتے ہیں۔ شہروں میں رہنے والے لوگ ان مصائب سے اچھی طرح واقف ہیں۔ جدید طرزِ زندگی، مالی مشکلات، سامانِ تعیش کی خریداری اور اس کی قیمت کی ادائیگی اور اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو احساسِ محرومی۔ یہ اور اسی قسم کے دیگر تفکرات ہمیں طرح طرح کے اعصابی ہیجان میں مبتلا کردیتے ہیں اور ہم دردِ سر کے مریض ہوجاتے ہیں۔
چند ورزشیں
ایسی صورت میں بعض ایسی ورزشیں مفید رہتی ہیں، جو اعصاب کو سکون دیں، خاص طور سے گردن کے اعصاب کو۔ ایک کرسی پر سیدھے بیٹھ جائیے۔ سر کو نیچے کی طرف حرکت دیجیے، پھر ایک طرف، اس کے بعد پیچھے کی طرف اور پھر دوسری جانب لے جائیے۔ پوری ورزش آہستہ آہستہ کیجیے۔ ایک گردش پوری کرنے میں آپ کو تقریباً دس سیکنڈ لگنے چاہئیں یہ ورزش تقریباً دس بار کیجیے۔
اعصاب کو سکون دینے کے لیے ایک ورزش ایسی بھی ہے، جو آپ سونے سے قبل بستر میں کرسکتے ہیں۔ یہ ورزش ان لوگوں کے لیے بھی بہت مفید ثابت ہوگی جو کم خوابی یا بے خوابی کے شکار رہتے ہیں۔ اگر وہ پابندی سے یہ ورزشیں کریں تو انھیں خواب آور گولیوں سے نجات مل جائے گی۔
بستر پر چٹ لیٹ جائیے۔ اس طرح کہ آپ کے دونوں پیر آپس میں جڑے ہوں اور پوری کمر بستر سے لگی ہو۔ آپ کے ٹخنے بھی ایک دوسرے سے مس ہورہے ہوں، دونوں ہاتھوں کو سینے پر ایک دوسرے پھانس لیجیے۔ اب پیروں سے شروع ہوکر باری باری ہر عضو پر زور دیجیے۔ فرض کیجیے پیروں کے اعصاب قطعی ڈھیلے ہیں۔ انھیں کس لیجیے۔ پھر ڈھیلا چھوڑئیے، پھر کس لیجیے۔ چند بار ایسا کیجیے، آپ کو پیروں میں ہلکی سی گدگدی محسوس ہوگی۔
اس کے بعد پنڈیوں کے پٹھوں کو ڈھیلا چھوڑ دیجیے، پھر رانوں کے پٹھوں کو اور ایک ایک کرکے اوپر تک آجائیے، تا آں کہ پورا جسم ڈھیلا پڑ جائے۔ دو تین منٹ اسی حالت میں رہیے۔ اس کے بعد آپ اپنے جسم کو ہلکا پھلکا محسوس کریں گے اور آپ کو آسانی سے نیند آجائے گی۔ چند راتوں تک یہ ورزش کرنے کے بعد آپ کو کافی سکون محسوس ہوگا۔
یہ چند سادہ اور ابتدائی ہدایات ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر سر درد کے بہت سے مریض تکلیف سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ دواؤں کے بجائے غذا میں چند تبدیلیاں کرکے اور ہلکی پھلکی ورزش سے اپنا علاج کرنے کی کوشش کیجیے۔ ضروری نہیں کہ تمام مریضوں پر، ان ہدایات کا اثر یکساں ہو، بعض مریضوں کو ہفتوں، بلکہ مہینوں ان پر عمل پیرا رہنا ہوگا، تب کچھ فائدہ محسوس ہوگا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146