ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میں سوچنے لگی، کسی سہیلی کا فون ہوگا۔
’’ہیلو، کس سے بات کرنی ہے؟‘‘
’’عمران بول رہا ہوں۔‘‘
ارے، یہ تو کسی لڑکے کی آواز ہے… ’’سوری غلط نمبر۔‘‘
’’پلیز، فون بند نہ کیجیے۔‘‘ اس نے جیسے التجا کی۔
پتہ نہیں کیوں میرے دل میں تجسس جاگ اٹھا۔ ’’تو کیا کروں؟‘‘
’’تھوڑی دیر کے لیے مجھ سے بات کریں۔‘‘
’’اچھا! تمہارے نام کا تو مجھے پتہ چل گیا ہے، یہ بتاؤ کام کیا کرتے ہو؟‘‘
’’ابھی تو پڑھتا ہوں، ایف ایس سی کا امتحان دینا ہے۔‘‘
’’حد ہوگئی! امتحان سر پر ہے اور تم غلط سلط جگہ فون کرکے وقت برباد کررہے ہو۔‘‘
’’انسان سارا وقت تو پڑھ نہیں سکتا۔‘‘
’’چلئے تھوڑی تفریح کی ضرورت پڑتی ہے، وہ کسی پارک میں جاکر ہوسکتی ہے۔‘‘
’’وہاں کیا درختوں سے تبادلہ خیال کروں؟‘‘
’’اچھا، تو آپ کو بات کرنے کے لیے کوئی انسان نہیں ملتا؟‘‘
’’بس یونہی سمجھئے۔‘‘
’’کہاں کے رہنے والے ہو۔‘‘
’’حیدرآباد کے پاس ایک جگہ ہے۔‘‘
’’کون سے کالج میں پڑھتے ہو۔‘‘
’’ایف سی ایس کالج میں پڑھتا ہوں۔ آپ کیا کرتی ہیں؟ کہاں تک پڑھا ہے؟‘‘
’’جہاں تک ہمت تھی، پڑھتی رہی۔ اب اسکول میں پڑھاتی ہوں اور کچھ وقت مل جائے تو لکھتی ہوں۔ لگتا ہے تمہارے ابو کوئی اجڈ کسان ہوں گے اور والدہ غیر تعلیم یافتہ، اسی لیے بات کرنے کے لیے کوئی نہیں ملتا۔‘‘
’’آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ میرے ابو اپنے وقت کے گریجویٹ ہیں اور امی معروف لیڈی ڈاکٹر جو ریزرو قسم کی خاتون ہیں۔ میرے ابو بی اے کے بعد کئی سال برطانیہ میں مقیم رہے، بڑے نستعلیق اور شائستہ قسم کے انسان ہیں۔‘‘
کئی دنوں کے بعد عمران کا فون آیا: ’’عمران بول رہا ہوں۔ کیسی ہیں آپ؟‘‘
’’میں تو ٹھیک ہوں مگر تم نے کیوں پوچھا؟‘‘
’’حال پوچھنا بری بات ہے؟‘‘ وہ بڑی معصومیت سے بولا۔
’’نہیں، غلط آدمی سے پوچھنا اچھی بات نہیں۔‘‘
’’میں آپ کو کبھی غلط نہیں سمجھتا۔‘‘
’’جس انسان کو دیکھا نہ ہو اس کے بارے میں اتنی خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
’’سچ پوچھئے آپ کے بارے میں میری رائے ہمیشہ اچھی رہے گی۔‘‘
٭٭٭
ایک دن بڑی بے تابی سے وہ میرا نام پوچھ رہا تھا۔
’’نام میں کیا رکھا ہے۔ گلاب کو کسی نام سے پکارو گلاب ہی رہے گا۔‘‘
’’پلیز، اپنا نام بتادیں، مجھے گلابوں کی قسمیں جاننے کا شوق نہیں۔‘‘
’’اگلی دفعہ فون کروگے تو بتادوں گی۔‘‘
’’اچھا، اپنے نام کا مطلب ہی بتادیں۔‘‘
’’چلئے، اس طرح تمہاری ذہانت کا امتحان بھی ہوجائے گا۔… میرے نام کا مطلب ہے آنکھوں کی ٹھنڈک۔‘‘
’’ویسے میری اردو کمزور ہے، لیکن اس نام کی ایک مشہور رائٹر بھی ہیں، یاد آگیا قرۃ العین۔ اتنا لمبا نام مگر میں آپ کو عینی کہوں گا۔‘‘
’’کیا!‘‘
’’ہاں، بس یہی ٹھیک رہے گا، عینی صاحبہ!‘‘
’’اس نام سے تو مجھے سارے بہن بھائی پکارتے ہیں پھر کالج میں ہم جماعت اسی نام سے بلاتی تھیں۔‘‘
’’اچھا، آج کل آپ کیا کرتی ہیں؟‘‘
’’ایک ہائی اسکول میں پڑھاتی ہوں۔ فارغ وقت ملے تو معاشرے میں پھیلی برائیوں پر قلم اٹھاتی ہوں ،مثلاً جہیز کی لعنت، تعلیم کا گرتا ہوا معیار، بچوں کی پرورش سے والدین کی عدم دلچسپی وغیرہ۔
٭٭٭
’’ہیلو، عمران بول رہا ہوں۔‘‘ ایک روز فون آیا۔
میں اکتائی بیٹھی تھی۔ ’’میں کیا کروں!‘‘
میری بے پروائی پر وہ مایوس لہجے میں بولا: ’’شاید آپ نے مجھے بھلا دیا۔‘‘
’’نہیں، میں تمہیں عمر بھر یاد رکھوں گی۔ تم بھولنے والی چیز ہی کہاں ہو۔‘‘
’’عینی! میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مجھے تم ایک روح سمجھو اور روحوں کو انسان دیکھ نہیں سکتا۔‘‘
’’یہ تو آپ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہیں۔ سچ مچ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے کچھ تاثرات آپ کے بارے میں لکھے ہیں۔‘‘
’’نظم لکھی ہے کہ نثر؟‘‘
’’بس ملی جلی صورت کہہ لیجیے۔‘‘
’’اردو میں ہے یا انگریزی میں؟‘‘
’’میں اردو میں نہیں لکھ سکتا۔ اگر آپ رہنمائی کریں تو کچھ لکھوں گا۔‘‘
’’کیا عجیب بات نہیں کہ تم نے مجھے دیکھا ہے نہ ملے ہو، پھر کیسے لکھا ہوگا!‘‘
’’بس یہ معاملہ انسان کے محسوسات سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ خود ہی پڑھ لیجیے گا۔ میں پوسٹ کس پتے پر کروں؟ پلیز، پتہ تو لکھوادیں۔ میں ڈائریکٹری سے کہاں تلاش کرتا رہوں گا۔‘‘
میں نے اسے پتہ تو لکھوا دیا، مگر مجھے ڈر تھا کہ وہ خود ہی خط دینے نہ آجائے۔
دو روز تک عمران نے فون نہیں کیا۔ مجھے اس کی آواز کا انتظار تھا۔ عموماً وہ شام کو فون کرتا تھا کیونکہ دن کو مجھے اسکول پڑھانے جانا ہوتا تھا اور وہ کالج جاتا تھا۔
٭٭٭
’’ہیلو عینی! میں عمران بول رہا ہوں۔‘‘ آخر کار فون آگیا۔
’’دو روز سے تم نے فون تک نہیں کیا۔ میں نہیں بولتی تم سے۔‘‘
’’پرسوں میں حیدرآباد گیا ہوا تھا۔ بہت دنوں سے امی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ آپ کیسی ہیں؟ عید کی تیاری کی ہے؟‘‘
’’عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ انسان انہی کے لیے تو سب کچھ کرتا ہے۔‘‘
’’میں آپ کو عید پر چوڑیاں دینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’یہ چوڑیاں تم اپنی ہونے والی منگیتر کو دینا۔‘‘
’’مجھے توآپ اچھی لگتی ہیں۔ کیا آپ چوڑیاں نہیں پہنتیں؟ آپ کا پسندیدہ رنگ کونسا ہے؟‘‘
’’میں ایک مختلف قسم کی انسان ہوں۔ چوڑیاں، ہار اور کانٹے وغیرہ بہت کم پہنتی ہوں۔‘‘
’’عید پر تو پہنتی ہوں گی، عید بھی تو آرہی ہے۔‘‘
’’اچھا سوچوں گی۔‘‘
’’پتہ ہے کل میری امی کا فون آیا۔ انھوں نے عید پر بلایا ہے۔‘‘
’’کتنے بہن بھائی ہیں تمہارے؟‘‘
’’ایک بڑی باجی تھی، اس کی دس برس پہلے شادی ہوگئی۔ بھائی جان کو امریکہ گئے پانچ سال ہوچکے۔ میں اپنی خالہ کے یہاں رہتا ہوں۔ وہ سارے لوگ اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ ابو اکثر زمینوں والی حویلی میں رہتے ہیں۔ امی مریضوں میں گھری رہتی ہیں اور میں سوچتا ہوں ان دونوں کو میرا خیال کب آئے گا۔‘‘
’’اب میں سمجھی، تم ایک نظر انداز کیا ہوا بچہ ہو۔‘‘
’’آپ کہہ سکتی ہیں۔ بیل کو درخت کا سہارا نہ ملے تو وہ دیوار سے لپٹ سکتی ہے۔ بلا سے دیوار بے جان سہی۔‘‘ اس نے شاعرانہ بات کہی۔
کئی دن پھر خاموشی سے گزر گئے۔ پھر ایک دن اس نے فون کیا’’عینی! کیا آپ کو میرا خط مل گیا۔‘‘
’’ہاں، مل گیا۔‘‘
’’کیسا ہے؟‘‘ وہ بڑی فکر مندی سے بولا۔
’’اچھا ہے بلکہ خط کم اور شاعری زیادہ ہے۔ تم نے مجھے پھولوں، خوشبو اور ہوا کے معطر جھونکوں سے تشبیہ دے ڈالی۔ مجھے گلاب کی نازک کلیوں جیسا سمجھتے ہو، میں تمہیں صاف صاف بتادینا چاہتی ہوں کہ میں قطعاً ایسی نہیں۔‘‘
’’مجھے آپ کو ایک عید کارڈ دینا ہے۔ میرا دل تو چاہتا ہے آپ کو میں خود آکر دوں۔‘‘
’’نہیں عمران! تم مت آنا۔‘‘
’’کیوں، کیا حرج ہے؟ یقین کیجیے میں آپ کو برا نہیں لگوں گا۔‘‘ یہ کہتے ہی اس نے فون بند کردیا۔
میرے گھر کے دروازے سے کچھ فاصلے پر گاڑی رکنے کی آواز آئی۔ پھر کسی نے کال بیل دبائی۔ میں نے دروازہ کھولا… اتنا معصوم، پیارا اور شوخ سا لڑکا! اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ کہتی، وہ دو لفافے مجھے تھما کر یہ جا وہ جا۔ خود وہ کچھ بولا نہ مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا۔ میں نے لفافہ کھولا۔ خوشبو سے لبریز عید کارڈ پر پھولوں کی ایک شاخ تھی۔ دوسرا لفافہ کھولا، انگریزی میں بڑی خوبصورت تحریر تھی:
’’ڈیئر عینی! جب میں چھوٹا تھا تو میں خواب دیکھتا تھا ایک ایسی خاص ہستی کا جو میری زندگی میں آئے۔ جس کی تمام تر محبت اور خلوص میرے لیے ہو۔ ایسی ہستی جو مجھے سمجھ سکے، مجھے چاہے، میری حوصلہ افزائی کرے، جو میرے خوابوں میں شریک ہو۔ جب میں بڑا ہوا تو میں نے آخر کار اس ہستی کو ڈھونڈ لیا۔ اور وہ ہستی میرا خیال ہے، عینی! تم ہی ہو جس نے مجھے محبت دی ہے۔ تم سے مجھے بہت پیار ملا۔ جیسا کہ میںخواب دیکھتا تھا… عمران۔‘‘
اوہ میرے خدا! اس بے وقوف لڑکے نے کیا لکھ دیا۔ مجھ سے محبت اور زندگی کے اس مقام پر۔ نہیں، یہ ایف ایس سی کا اسٹوڈینٹ جس کے عزائم بلند ہیں، جو امریکہ جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے، اس کے ابو اسے باہر بھیجنا چاہتے ہیں۔ اتنی چھوٹی عمر میں تو یہ امریکہ کی بھول بھلیوں میں ویسے ہی کھو جائے گا۔ وہاں جاکر تو ڈاکٹر، انجینئر اورمیچور لوگ بھی گھر واپسی کا راستہ بھول جاتے ہیں۔
’’ابو مجھے باہر بھیجنا چاہتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے عینی؟‘‘ اس نے کہا تھا۔
’’دراصل اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کا سب سے زیادہ والدین کو حق ہوتا ہے مگر میں چاہوں گی تم جیسا پیارا لڑکا پہلے اپنے ملک میں تعلیم پوری کرے، بی ایس سی انجینئرنگ کی ڈگری لے پھر سوچے کہ باہر جانے کی ضرورت ہے یا نہیں۔ سوچو، یہ کتنا پیارا اور خوبصورت ملک ہے۔ کیا تم اسے اور بہتر بنانے میں میں ہاتھ نہیں بٹاؤگے؟ یہ جنت نظیر وطن میرے تمہارے بزرگوں کی بے شمار قربانیوں کا ثمر ہے۔ میں اس وطن کی لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کررہی ہوں۔ تم انجینئر بن کر اس کی ترقی کے لیے کام کرو۔‘‘ میں نے جواب دیا تھا۔
’’عینی! تم نے میرا خط پڑھ لیا۔‘‘ دو دن کے بعد ٹیلی فون پر اس نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
’’بہت اچھا خط لکھا ہے۔ تم نے اسے اردو میں کیوں نہیں لکھا؟‘‘
’’دراصل میں شروع سے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتا رہا ہوں۔ میری اردو بہت کمزور ہے۔ شاید آپ کو میرا خط پسند نہیں آیا۔‘‘
’’بہت اچھا لکھا ہے۔ شاید زندگی میں اس سے پیارا خط کسی نے مجھے نہیں لکھا۔‘‘
’’اوہ شکرہے۔ مجھے تو فکر تھی کہیں زیرو نمبر نہ دے دیں۔ ٹیچر جو ٹھہریں۔‘‘
’’سنو عمران! میں تمہیں عید کارڈ بھیجنا چاہتی ہوں۔ اپنا پتا تو بتادو۔‘‘
وہ کچھ مایوسی سے بولا: ’’میری آنٹی کا گھر ہے۔ آپ کا عید کارڈ آیا تو وہ میرے کزن پتہ نہیں مجھے دیں گے کہ نہیں۔ میں نے اسی لیے آپ کو اپنا فون نمبر نہیں دیا۔ میرے کسی دوست کا فون آئے تو وہ لوگ مجھے بتاتے بھی نہیں۔ اسی لیے میں خود ہی آپ کو فون کرلیتا ہوں۔ اچھا، میںآپ سے عید کارڈ خود ہی لے لوں گا۔‘‘
’’مگر عید کارڈ پر میں نے کچھ لکھا بھی نہیں… اپنا نام نہ تمہارا۔‘‘
’’ایسا سادا عید کارڈ تو میں بازار سے لے سکتا ہوں۔‘‘
’’دراصل میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں عید کارڈ پر کیا لکھوں۔‘‘
’’کچھ تو لکھیں۔‘‘
’’ہمارے معاشرے میں رشتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ دوستی اور محبت کا رشتہ سمجھ لیں۔‘‘
’’پھر کل میں آپ کے گھر آؤں گا عید کارڈ لینے۔ میں آپ کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں۔ اچھا، خدا حافظ۔‘‘ اس نے کھٹاک سے فون بند کردیا۔
کل عمران آرہا ہے۔ میں نے اپنی بے کیف زندگی میں کبھی خود کو اتنا مسرور نہیں دیکھا۔ ایک جیسے شب و روز، اسکول کا فرسودہ ماحول۔ ہر سال کلاس کی لڑکیاں دسویں میں پہنچ جاتیں۔ پھر مجھے نئی نویں کلاس ملتی۔ کسی سال کورس بدل جاتا تو مجھے نئے سرے سے زیادہ محنت سے پڑھانا پڑتا۔ مجھے اس اسکول میں پڑھاتے بیس پچیس برس ہوچکے تھے۔ دو تین دفعہ میری ترقی ہوئی اور مجھے ہیڈ مسٹرس بناکر دور دراز کے کسی اسکول میں بھیجنے کی پیشکش کی گئی مگر میں نے اسکول ٹیچر کے طور پر اسی اسکول میں رہنے کو ترجیح دی۔ اس کی وجہ تو یہ تھی کہ یہاں مجھے اپنی رہائش کی سہولت تھی۔ میںنے برسوں کی بچت کے بعد یہ چھوٹا سا گھر قسطوں میں بنوایا اور اس کانام خاصی سوچ بچار کے بعد ’’نشیمن‘‘ رکھا۔ اس کے دروازے پر بوگن ویلیا کی بیلیں لگائیں۔ میرے گھر کے آنگن میں انار کا بوٹا تھا۔ مارچ کے مہینے میں جب انار کا پودا بیر بہوٹی جیسی سرخ کلیوں سے لد جاتا تو مجھے خیال آتا کہ پھر بہار آگئی۔ گلاب کے پودوں میں جب نئے نئے پتے نکلتے اور پھر کچھ دنوں کے بعد پودوں میں نئی کونپلوں کے جلو میں نئی کلیاں پتوں سے جھانکتیں تو دل میں خوشی کی کرنیں جھلملاتیں مگر یہ سوچ کر دل اداس ہوجاتا کہ زیست کا ایک سال اور گزرگیا۔
میں منتظر ہوں، جانے کس لیے راہ گزر پر بیٹھی ہوں۔ وقت کا پہیہ تیزی سے گردش میں ہے۔ ایسے میں مجھے ابا میاں یاد آتے ہیں، ان کا تعلق محنت کش طبقے سے تھا۔ صبح تین بجے وہ سبزی منڈی جاتے اور پھر سارا دن سودا دھو دھلا کر ایک ریڑھی پر رکھ کر اپنے جانے پہچانے محلے گلیوں میں سبزی بیچ کر بارہ بجے تک فارغ ہوجاتے۔ ہم دو بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ ہم ابھی بہت چھوٹے تھے کہ اماں بی چل بسیں۔ ابا میاں کی خواہش تھی کہ لڑکوں کی طرح ہم دونوں بہنیں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ ابھی عالیہ میٹرک میں تھی اور میں ڈاکٹری پڑھنے کے لیے انٹر سائنس کررہی تھی۔ عادل بھائی نے بی اے پاس کرلیا تھا جبکہ چھوٹا ندیم ہائی اسکول کرکے فارغ ہوا تھا۔ ابا جی اب سبزی لانے اور بیچنے کے قابل نہ رہے تھے۔ بڑھاپے میں کمر درد نے آلیا۔ عادل بھائی تو کسی پرائیویٹ ادارے میں ٹائپ اور شارٹ ہینڈ سیکھ کر اسٹینو لگ گئے جبکہ ندیم فوج میں بھرتی ہوگئے۔ پہلے سکنڈ لیفٹیننٹ اور پھر لیفٹیننٹ بن گئے۔
فوجی وردی میں ندیم بھائی بہت اسمارٹ لگتے تھے۔ ان کی ذہانت اور آگے بڑھنے کی رفتار دیکھ کر ہیڈ کوارٹر میں ایک کرنل صاحب نے اپنی بیٹی کی شادی کردی۔ یہ شادی انھیں ہمارے پرانے شہر کے گھر سے ہمیشہ کے لیے دور لے گئی جیسے وہ پیدا ہی کسی دور دراز جزیرے میں ہوئے ہوں۔ دو ہی سال بعد عادل بھائی نے بھی شادی کرلی۔ میں بے اے بی ٹی کے بعد ہائی اسکول میں پڑھانے لگی۔ عالیہ نے انٹر کے بعد سی ٹی کی ٹریننگ مکمل کرلی مگر اسے نوکری یہاں سے کافی دور کے ایک مڈل اسکول میںملی۔ اسے روز بس سے جانا پڑتا۔
عادل بھائی کی شادی کے ایک سال بعد ہم بہنوں کا گھر بسانے کی حسرت دل میں لیے ابا چل بسے۔ ابا کی وفات پر ہمیں اپنے یتیم ہوجانے کا شدت سے احساس ہوا۔ ہم دونو ںبہنیں نوکری کرنے کے باوجود گھر کے کاموں میں برابر بھابی کا ہاتھ بٹاتیں۔ گھر کے اخراجات کے سلسلے میں چار پانچ ہزار ہر ماہ دیتیں۔ بھائی کے گھر اب دو پیارے پیارے بچوں کا اضافہ ہوچکا تھا۔ انھیں تین کمروں کا یہ گھر تنگ لگنے لگا۔ ہمارا دیا ہوا خرچہ بھی انتہائی کم لگتا۔ میں نے اپنے بچائے ہوئے پیسوں سے شہر سے دور ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا۔ تھوڑا تھوڑا کرکے اس میں ضرورت کا کچھ فرنیچر بھی رکھ دیا۔ اب میں کسی مناسب موقع کی منتظر تھی جب عادل بھائی سے جانے کی اجازت طلب کروں۔ عالیہ کا تبادلہ ایک دوسرے علاقے میں ہوگیا۔ اگلے مہینے کی یکم تاریخ کو اسے نئے اسکول میں حاضر ہونا تھا۔
فاطمہ بھابی کی جا بے جا تنقید کئی دفعہ مجھے بہت چھوٹا بنادیتی جیسے میں ان پر بوجھ ہوں۔ ایک دن میں نے انکشاف کیا:
’’عادل بھائی! میں یہاں سے جارہی ہوں۔ میں نے ایک چھوٹا سا گھر خریدا ہے۔‘‘
’’تمہارے پاس پیسے تھے، مجھے کیوں نہیں بتایا؟ میں کسی کاروبار میںلگاتا، کچھ منافع ہوتا۔‘‘
’’بہرحال اب تو میں نے گھر خرید لیا ہے۔ میرے لیے یہی سب سے بڑی انویسٹمنٹ ہے۔ خود میں بھی نہیں چاہتی کہ آپ کی ذمے داری میں اضافہ ہو۔‘‘ یہ کہہ کر میں اٹیچی کیس میں اپنے کپڑے رکھنے چلی گئی۔ عالیہ نے مجھے جانے کی تیاری کرتے دیکھا تو بولی:
’’میں یہاں رہ کر بھابی کی جلی کٹی سننے سے بہتر سمجھتی ہوں کہ ایک دو دن پہلے ہی چلی جاؤں۔ ہمارے اسکول سے ملحقہ عمارت میں ہوسٹل کی سہولت ہے۔‘‘
شادی سے پہلے گھر چھوڑدینا، یہ ہم دونوں بہنوں کی قسمت میں لکھا تھا۔بھابی نے جھوٹوں بھی نہ پوچھاکہ اے لڑکیو!تم گھر چھوڑ کر کیوں جارہی ہو؟ ابھی تو ہمیں تم کو بیاہنا ہے! نہ بھائی نے ہمارے سر پر ہاتھ پھیرا کہ ماں باپ کے بعد بڑے بھائی سرپرست ہوتے ہیں۔
کتنے بودے، کتنے بزدل نکلے بھائی جان! بھابی کے سامنے ایک لفظ نہ بولے۔ پھر کہا تو یہ کہ ’’تم دونوں اپنی مرضی سے جارہی ہو۔‘‘
پھر اس کے بعد کتنی چھٹیاں آئیں، عالیہ کبھی بھائی جان کے ہاں نہیں گئی۔ وہ جب بھی آتی میرے ساتھ رہتی۔ ہم دونوں بہنوں کی قسمت کے ستارے بھی ایک ہی جیسے تھے۔
میں نے اپنے چھوٹے سے گھر کو اپنی مرضی سے ترتیب دیا۔ چھوٹے چھوٹے پودے لگائے، گملے منگواکر اسکول کے مالی سے اس میں پھول لگوائے۔ جب کسی پودے کی شاخ پر نئے پتے نکلتے یا نیا پھول کھلتا، میرے دل کو خوشی کا احساس چھو جاتا۔
اسکول میں پڑھانا کبھی دلچسپ مشغلہ تھا۔ اب چالیس برس کی عمر کے بعد پڑھانا مشکل ہوتا جارہا تھا۔ کتنے ہی سال اور گزرگئے۔ اس اثنا میں میرے گھر میں نئے پھولوں اور پودوں کا اضافہ ہوا۔ میرے سر کے بال تیزی سے سفید ہونے لگے مگر میری زندگی
بیل پھلتی ہے تو کانٹوں کو چھپا لیتی ہے
زندگی اپنی پریشاں تھی پریشاں ہی رہی
فرصت کے لمحے دل میں زندگی کا حساب کرتی تو عجب دکھ ہوتا۔ ماں بچپن میں گزر گئی۔ پھر ابا بھی چل بسے۔ جب یہ دوہستیاں سر پر نہ رہیں تو پھر کوئی غم کھانے، تسلی دینے والا نہیں رہتا۔ چاروں طرف لاشوں کی طرح ٹھنڈے انسان دکھائی دیتے ہیں۔ شاید رب العالمین نے وہ انسان ہی تخلیق نہیں کیے تھے جو ہم دونوں بہنوں کے لیے شادی کا پیغام لاتے۔
پانچ سال پہلے میں نے ٹیلی فون کے لیے درخواست دی تھی۔ گزشتہ سال میرے گھر ٹیلی فون تو لگ گیا، مگر میںاسے فقط اسکول میں چھٹی کا پیغام دینے یا کسی ضروری کام کے سلسلے میںاستعمال کرتی۔
برسوں بعد ایک دن حادثہ ہی تو ہوگیا جب عمران جیسے شوخ لڑکے نے میری سوچ کا انداز بدل دیا۔ پتہ نہیں یہ محبت کی کون سی قسم تھی۔ شاید وہ مجھے پسند کرتا تھا۔ اس کی امی کو مریضوں سے فرصت نہیں، ابو کو خاندانی جاگیر بچوں کے مقابلے میں زیادہ پیاری تھی۔ اسی لیے عمران کو تعلیم کے لیے شہر بھیج دیا گیا۔ خالہ کے گھر سارے بچے اپنی اپنی جگہ سیٹ تھے۔ سب عمر میں عمران سے بڑے تھے اور اسے اپنے برابر کا درجہ دینے کو تیار نہیں تھے۔
ایف ایس سی میں پڑھنے والا یہ لڑکا دو ہزار روپے ماہانہ میں آرام سے ہوسٹل میں رہ سکتا تھا، لیکن ڈاکٹر عمرانہ نے اپنی بہن کے گھر بھیج کر گویا عمران کو عذاب میں ڈال دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ ان کا بیٹا اعلیٰ درجے کے کالج میں تعلیم حاصل کررہا ہے، مگر بازار سے کوئی سودا سلف لانا ہو، تو خالہ کے بیٹے بیٹیاں عمران ہی کو بھیجتے۔ چاہے اگلے دن اس کا ٹیسٹ ہی کیوں نہ ہو۔ خالہ کا سب سے بڑا بیٹا شہریار شادی شدہ تھا۔ اس سے دو چھوٹی بیٹیاں بھی شادی شدہ تھیں۔ ان سے چھوٹا عمر انجینئرنگ میں فائنل ائیر کا طالب علم تھا۔ اس کی تھوڑی سی عمران سے دوستی تھی ورنہ باقی سب اسے گھر میں دوسرے درجے کا فرد سمجھتے۔
خالہ کو ہر مہینے آنے والے دو ہزار روپے سے دلچسپی تھی جو عمران کی امی بھیجتی تھیں جب کبھی عمران کے کسی کلاس فیلو یا دوست کا فون آتا تو گھر والے صاف کہہ دیتے: ’’عمران گھر پر نہیں۔‘‘ وہ اپنی اس بے وقعتی پرخون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔ ابو نے اسے کالج جانے کے لیے موٹر سائیکل لے کر دے رکھی تھی، اور وہ جیب خرچ بھی فراخدلی سے دیتے، لیکن اس میں سے کچھ وہ اپنے کالج فیلوز کو کھلانے پلانے پر صرف کردیتا۔ ادھر خالہ عمران سے کوئی چیز منگواتے ہوئے کبھی پیسے نہ دیتی اور وہ مروت کے مارے اپنی جیب سے سموسے یا مٹھائی وغیرہ لاتا۔
وہ شہر کی اجنبی سڑکوں پر پھرتا جہاں نہ اسے ممی نظر آتیں نہ ابو۔ دونوں اپنی اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے۔
میرے دروازے پر موٹر سائیکل رکنے کی آواز آئی۔ پھر گیٹ پر دستک ہوئی۔ گیٹ تک جاتے ہوئے میرے ذہن میں بے شمار باتیں گردش کرنے لگیں۔عمران کے ہاتھ کی تحریر، خوشبو میں بسا عید کارڈ، انگریزی میں لکھا خط، ہر لفظ اپنائیت اور محبت لیے ہوئے تھا۔ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گرلز اسکول میں لڑکیوں کو تعلیم دینے، بگڑی بچیوں کو سنوارنے سمجھانے اور قوم کی اچھی بیٹیاں بنانے میں صرف کیا تھا۔ میں ایک استاد ہوں۔ رہنمائی میرا کام ہے، میرا پیشہ ہے۔ اس کے الفاظ بار بار میرے ذہن میں گونج رہے تھے۔ ’’عینی میں آپ سے ڈھیر ساری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں آپ کو قریب سے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے گیٹ کھولا۔ نیلی جینز، پھولدار ٹی شرٹ اور پاؤں میں جوگر، ماتھے پر جھکے ہوئے بال، وہ کتنا پیارا اور معصوم لگ رہا تھا!
’’اندر آجاؤعمران!‘‘ وہ جتنا مجھ سے ملنے اور باتیں کرنے کا مشتاق تھا، اتنا ہی جھجک رہا تھا۔ میں نے اپنے چھوٹے سے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولا اور صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیٹھنے کو کہا اور پوچھا: ’’کیا پیوگے؟ چائے یا شربت؟‘‘
’’کچھ نہیں، آپ بیٹھیں۔ میں تو آپ سے ملنے آیا ہوں۔ میں کہہ نہیں سکتا مجھے چند مہینوں میں آپ سے کتنی مدد ملی ہے۔ آپ سے ملنے کے بعد مجھے زندگی اچھی لگنے لگی ہے۔ میں پڑھائی کرنے لگا ہوں۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا۔
اور میں سوچ رہی تھی :’’عمران! تم نے دیکھا آج میں نے اپنے کمرے میں پھول سجائے ہیں، کمرے میں لگے جالے صاف کیے ہیں، ہاں شوخ رنگ کے پردے آویزاں کیے ہیں۔ اپنے گھر کے آنگن میں انار کی کھلتی کلیاں مجھے کتنی پیاری لگنے لگی ہیں۔ مدت کے بعد میں نے شوق سے چوڑیاں پہنی ہیں۔ میری زندگی جنگل میں تنہا کونج جیسی تھی جو سالوں سے ایک شاخ پر سوگوار بیٹھی ہو۔‘‘
میں نے اپنے اندر کی تمام قوتیں مجتمع کرکے اپنا ما فی الضمیر مرتب کیا: ’’عمران! ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں، یہاں کچھ رشتے ناتے ہیں جن کے حوالے سے ہم ایک دوسرے سے ملتے اور تعلق قائم کرتے ہیں۔ تم بتاؤ مجھ سے کیسا رشتہ رکھنا چاہتے ہو؟‘‘
’’میں کیسے بتاسکتا ہوں۔‘‘ وہ جھجکتے ہوئے بولا۔
’’عمران! مجھے تم بہت پیارے ہو۔ تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ میں ایک استانی ہوں۔ اور اچھا استاد طلبہ کی رہنمائی کرتا ہے، انھیں گمراہ نہیں کرتا۔‘‘
وہ بڑے غور سے میری صورت دیکھ رہا تھا۔
’’عینیٗ میں نے آپ کو خط میں سب کچھ لکھ دیا تھا، جو میں سوچتا ہوں، محسوس کرتا ہوں۔ میں آپ کو اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی مانتا ہوں اور آپ کے ساتھ…‘‘
’’ٹھہرو، میں تمہارے لیے پینے کے لیے کچھ لاؤں۔‘‘ میں نے اسے آگے کچھ کہنے سے روک دیا۔ اس کے لیے شربت بنا کر اس میں برف ڈالی اور شیشے کے گلاس میں لاکر پیش کیا… مگر یہ چند لمحے تو میں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا جھوٹ بولنے کے لیے حاصل کیے تھے۔
’’آپ نے یونہی تکلیف کی!‘‘
’’کوئی بات نہیں، عمران! میری بات غور سے سنو۔ جو بات میں تمہیں بتانے جارہی ہوں، وہ جاننے کے بعد مجھے نہیں معلوم تمہارا کیا رد عمل ہو، لیکن حقیقت میں تم ایک طالبعلم ہو، تمہیں اور پڑھنا اور آگے بڑھنا ہے تاکہ کامیابیاں تمہارے قدم چومیں۔ خیر سنو، میں ایک ماں ہوں۔ میرے دو بیٹے ہیں۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ تم سے کتنے بڑے یا کتنے چھوٹے ہیں۔ میں اپنی زندگی میں تمہیں تیسرے بیٹے کا مقام دیتی ہوں۔ میرے دل میں یہی جگہ تمہارے لیے بنی ہے۔ اس رشتے سے جب بھی مجھے مدد کے لیے پکارو گے، میں حاضر ہوں۔‘‘
’’اچھا، میں چلتا ہوں۔‘‘ وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ میرا جی چاہا جاتے ہوئے اس کی پیشانی چوم لوں، اپنے ہاتھوں سے اس کے بال ٹھیک کروں جو موٹر سائیکل پر آتے ہوئے خراب ہوگئے تھے، مگر میں نے اپنے ہاتھوں میں ہمت نہ پائی اور وہ ’’خداحافظ‘‘ کہہ کر چلا گیا۔
اس کے بعد کتنے ہی دن آئے، ہفتے اور مہینے گزرے مگر عمران کا ٹیلی فون نہیں آیا۔ پتہ نہیں وہ بہت پڑھنے لگ گیا تھا۔
پھر میری ریٹائرمنٹ کے دن آگئے۔ بہت بڑی پرہجوم پارٹی میں مجھے اسکول سے ’’دیس نکالا‘‘ مل گیا۔ اس کو بھی کئی سال بیت گئے۔ گہری اداس شاموں کو جب تیز ہوا چلتی ہے، فضا گرد آلود ہوجاتی ہے، میرے گھر کے بیرونی دروازے پر دستک سی ہوتی ہے، تو میرے دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے۔ میں جانتی ہوں یہ دستک آندھی کی ہے۔ عمران اب نہیں آئے گا!
——