آنکھوں کا ڈاکٹر

ڈاکٹر محمد اطہر مسعود خان

میں ایک روز بوڑھی دادی کا علاج کرانے دہلی کے ایک مشہور اور ماہر ڈاکٹر کے پاس گیا، جن کا نام پربھات تھا۔ دادی کو جو تقریباً نابینا ہوچکی تھیں، سہارا دیتے ہوئے میں جب ڈاکٹر پربھات کے کمرے میں پہنچا تو انھوں نے مسکراتے ہوئے دادی کو خوش آمدید کہا: ’’آئیے دادی ماں! بتائیے آپ کو کیا تکلیف ہے؟‘‘
دادی نے آواز سے ہی ڈاکٹر کی عمر کا اندازہ لگاتے ہوئے کہا:’’کوئی تکلیف نہیں بیٹا! اس بڑھاپے کی مادی ہوئی ہوں۔ بڑھاپے میں نظر کمزور ہوہی جاتی ہے۔‘‘
’’لیکن میں تو آنکھوں کا ڈاکٹر ہوں، دادی ماں! بڑھاپے کا علاج تو میرے پاس کہا ہے؟‘‘ ڈاکٹر پربطات نے ہنستے ہوئے کہا۔
میری دادی بھی کم حاضر جواب نہیں تھیں۔ کہنے لگیں: ’’کوئی بات نہیں بٹیا! تم آنکھوں کا علاج ہی کردو، بڑھاپے کا علاج تو اوپر والا خود کرے گا۔‘‘
یہ سن کر ڈاکٹر پربھات اور بھی زور سے ہنسے اور دادی سے باتیں کرتے ہوئے خوش اخلاقی کے ساتھ ان کی آنکھوں کی جانچ کی۔ ڈاکٹر کی عادت ایسی تھی کہ وہ بیچ بیچ میں دلچسپ اور مزیدار باتیں بھی کرتے جاتے تھے۔
میں خاموش بیٹھا ڈاکٹر پربھات کی طرف دیکھ رہا تھا، جانے کیوں میرا شعور کہہ رہا تھا کہ ان کی ہنسی کچھ جانی پہچانی سی ہے۔چندلمحوں بعد اور زیادہ دھیان سے دیکھنے پر مجھے ان کا چہرہ بھی کچھ شناسا معلوم ہوا، لیکن یاد نہیں آرہا تھا کہ میں نے انھیں پہلے کہاں دیکھا ہے؟ آخر جب انھوں نے دادی کی آنکھوں کا چیک اپ مکمل کرلیا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے ان سے پوچھ ہی لیا: ’’آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟‘‘
’’الٰہ آباد کاہوں۔‘‘ انھوں نے برجستہ جواب دیا۔ ’’کیوں بھئی کیا بات ہے؟‘‘
’’ارے! ہم بھی الٰہ آباد کے ہی ہیں۔‘‘ دادی مجھ سے پہلے ہی بول اٹھیں۔
’’اچھا! یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔‘‘ ڈاکٹر پربھات نے سچ مچ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’آپ لوگ الٰہ آباد میں کہاں رہتے تھے؟‘‘
دادی نے جیسے ہی الٰہ آباد والے گھر کا پتا ٹھکانہ بتایا، ڈاکٹر پربھات نے گھبرا کر حیرانی سے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا: ’’ارے تم ببو تو نہیں ہو؟‘‘
’’اور تم منٹو!‘‘ میرے سے بھی اچانک اس کا نام پھسل گیا۔ ’’آپ ہمارے بچپن کے دوست منٹو ہیں نا…؟‘‘
’’ہاں بھائی! میں منٹو ہی ہوں۔ واہ یار تم خوب ملے۔‘‘ ڈاکٹر نے بڑے جذباتی انداز میں کہا ’’تم تو شاید اس وقت دوسری یا تیسری کلاس میں پڑھتے تھے، تبھی ہم اپنے خاندان کے ساتھ دہلی چلے آئے تھے، مجھے تو خواب میں بھی امید نہیں تھی کہ زندگی میں پھر کبھی تم سے ملاقات ہوسکے گی، سچ بڑی خوشی ہوئی تم سے مل کر۔‘‘ منٹو ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔
منٹو یعنی ڈاکٹر پربھات اچانک بہت ہی سنجیدہ ہوگئے تھے۔ دادی کے لیے دوائی کا پرچہ لکھتے ہوئے انھوں نے کہا: ’’یہ باتیں پھر کبھی ہوں گی دادی اماں، باہر اور بھی کئی مریض انتظار کررہے ہیں۔ تمہاری آنکھوں کا آپریشن کرنا ہوگا۔ اگلے ہفتے آجانا۔‘‘
باہر آتے ہی دادی نے مجھ سے پوچھا: ’’یہ وکیل کا بیٹا منٹو تھا نا؟‘‘
’’ہاں دادی بچپن میں میرے ساتھ ہی پڑھتا تھا۔‘‘
’’بس اب اس کے پاس دوبارہ آنے کی ضرورت نہیں، میں اس نالائق کے ہاتھوں اپنی آنکھیں خراب نہیں کراؤںگی۔‘‘
’’کیسی باتیں کرتی ہو دادی؟‘‘ یہ تو بڑاڈاکٹر ہے اور اب ہماری جان پہچان کا بھی نکل آیا۔
’’تو بھول گیا اس نے وہاں الٰہ آباد میں کیا کیا تھا؟‘‘
’’کیا کیا تھا؟‘‘
’’ارے! کیا تو بھول گیا اس نے کتے کے تین بچوں کی آنکھیں آک کا دودھ ڈال کر پھوڑ دی تھیں۔‘‘
میں واقعی سب کچھ بھول گیا تھا، لیکن دادی کے یاددہانی کرانے پر ایک دھندلی سی شبیہ ابھری اور جب میں نے دماغ پر زور دیا تو بچپن کا وہ تکلیف دہ واقعہ اچانک کل کی سی بات کی طرح نظر آنے لگا۔
الٰہ آباد میں وکیل صاحب کے باغ کی مینڈھ کے پاس بہت سے آک کے پودے اُگے تھے، ہم اکثر وہاں کھیلا کرتے تھے، ادھر سے گزرتے ہوئے استاد نے ہمیں بتایا کہ آک کے پتے کبھی نہیں توڑنے چاہئیں، کیوں کہ انھیں توڑنے سے جو گاڑھا گاڑھا دودھ نکلتا ہے، وہ آنکھوں میں چلا جائے تو آدمی اندھا ہوجاتا ہے۔
یہ معلومات ہمارے لیے بالکل نئی اور تعجب خیز تھی، ہم آک کا دودھ کا تجربہ کرنا چاہتے تھے۔
ایک دن جب میں اسکول سے واپس آکر کھانا کھانے کے بعد منٹو کے پاس گیا تو دیکھا کہ منٹو آک کے پودوں کے پاس بیٹھا ہوا ہے اور اس کے گھنٹوں میں دبا ہوا ایک پلاَّ چیخیں مار رہا ہے، دو پلے پاس ہی کوں کوں کرتے ادھرادھر بھٹک رہے تھے۔ منٹو آک کے پتے توڑ کر ان کا دودھ کتے کے ان بچوں کی آنکھوں میں ڈال رہا تھا۔ اس گاڑھے لیس دار دودھ سے کتیا کے ان تینوں بچوں کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ پھر چار دن بعد ان کی آنکھیں بے شک کھل تو گئیں لیکن وہ تینوں بچے اندھے ہوچکے تھے، ان میں سے دو بچے تو کچھ روز کوں کوں کرتے مرگے، ایک بچے کی میری بڑی باجی اور میں نے پرورش کی، وہ بڑا تو ہوگیا لیکن اپنی آنکھوں سے کبھی دیکھ نہ سکا، ایک دن گھر سے نکلا ہی تھا کہ اچانک سڑک پر کسی گاڑی کے نیچے دب کر مرگیا۔
اس واقعہ کو یاد کرکے ایسا لگا کہ پوری فلم میری آنکھوں کے سامنے گزرگئی ہو، میرا دل اداس ہوگیا اور میری پلکیں پھر سے نم ہوگئیں۔
بچپن میں کتے کے تین معصوم، بے قصور بچوں کی آنکھیں محض اپنے تجسس کو دور کرنے کے لیے پھوڑ یدنے والا منٹو آج آنکھوں کا اتنا بڑا ڈاکٹر۔
’’لیکن دادی! بچپن کی اس بات کو لے کر ڈاکٹر پربھات کو برا بھلا کہنا ٹھیک نہیں۔ وہ ہزاروں مایوس لوگوں کو ان کی آنکھوں کی کھوئی ہوئی روشنی لوٹا چکا ہے۔‘‘ میں نے دادی کو سمجھانے کی کوشش کی۔
’’تم کچھ بھی کہو، میں اس نالائق سے اپنی آنکھوں کا علاج نہیں کراؤں گی۔‘‘ دادی نے فیصلہ سنایا۔ انھوں نے ڈاکٹر پربھات کی لکھی ہوئی دوائی بھی نہیں خریدنے دی۔
آخر شام کو ڈاکٹر پربھات کو میں نے ٹیلی فون کیا اور دادی کی ضد کے بارے میں بتایا۔ ڈاکٹر پربھات نے نہایت دکھ اور سنجیدگی سے سب کچھ سنا اور بولے:’’تم اپنے گھر کا پتا بتاؤ، میں خود آکر دادی اماں کو سمجھاؤں گا۔‘‘
تقریباً ایک ہی گھنٹے بعد ڈاکٹر پربھات ہمارے گھر میں تھے اور دادی سے کہہ رہے تھے:’’دادی اماں!میں نے بچپن میں جو گناہ کیا تھا اسے میں آج تک نہیں بھولا ہوں، اور میں اس بددعا کو بھی نہیں بھولا جو آپ نے مجھے دی تھی۔ جب تک آپ الٰہ آباد میں رہیں مجھے دیکھتے ہی کہنے لگتی تھیں: ’’ارے کم بخت منٹو! تو نے معصوم بچوں کی آنکھیں پھوڑ دی ہیں، تیری آنکھیں بھی کسی دن اسی طرح پھوٹیں گی۔‘‘ آپ کی اس بددعا سے ہی ایک رز میرے اندر کا انسان جاگ گیا اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ مجھے اپنی زندگی میں صرف آنکھوں کا ایک ماہر اور کامیاب ڈاکٹر بننا ہے، میں اپنی زندگی میں رات دن اسی کوشش میں لگا رہا اور دادی اماں…‘‘ اتنا کہہ کر ڈاکٹر پربھات اپنی آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو چھپاتے ہوئے بڑے جذباتی لیکن روہانسے لجے میں بولے: ’’میری آنکھیں تو آپ کی بددعا اور میرے کرتوت کی سزا میں کبھی نہ کبھی پھوٹیں گی لیکن اس سے پہلے میں ہزاروں آنکھوں میں روشنی دے جاؤں گا تاکہ وہ اپنی زندگی کی دوبارہ شروعات کرسکیں، اور ان ہزاروں آنکھوں میں آپ کی آ نکھیں بھی ہوں گی دادی ماں۔‘‘
ڈاکٹر پربھات کی آنکھوں، لہجے اور زبان میں نہ جانے کون سا جادو تھا کہ وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں بھر آئیں اور دادی اماں تو ممتا اور شفقت کے بوجھ سے ایسی جذباتی ہوگئیں کہ ڈاکٹر پربھات کو پاس بلا کر اپنے سینے سے لگالیا اور بولیں: ’’جیتے رہو بیٹا! دنیا میں خدمتِ خلق سے بڑی کوئی نیکی نہیں، اور اپنی غلطی مان لینا ہی سب سے بڑی بہادری ہے، اور اپنی ناکامی سے سبق لینا ہی سب سے اہم کام ہے۔‘‘
ڈاکٹر پربھات معصومیت سے سرجھکائے نم پلکوں کے ساتھ زمین کو دیکھتے رہے، ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دادی نے کہا: ’’جیتے رہو میرے لال! تمہاری آنکھوں کی روشنی اور چمک ہمیشہ برقرار رہے۔‘‘ پھر وہ شوخی سے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھ کر بولیں: ’’ارے ببو! دیکھ تیرا لنگوٹیا دوست آیا ہے، کیا اس کی خاطر داری نہیں کرے گا؟ جا، اس کے لیے اچھی سی مٹھائی لے کر آ، اور ہاں سن! اس منٹو نے میری آنکھوں کے لیے جو دوا لکھا تھی، وہ بھی خرید لانا۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146