آنکھیں ہیں تو جہان ہے ورنہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ انسان کی زندگی میں آنکھوں کی اہمیت کا اگر اندازہ کرنا ہو تو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر چند قدم چلنے کی کوشش کیجیے اور دیکھئے کہ آپ کتنی دور چل سکتے ہیں۔ جی ہاں! یا پھر کسی نابینا انسان سے بات کیجیے یقینا آپ کا دل اللہ تعالیٰ کے شکر سے بھر جائے گا۔
سائنس نے موجودہ دور میں کافی ترقی کرلی ہے۔ اسی طرح میڈیکل سائنس بھی بہت آگے بڑھ گئی ہے۔ اور یہ ممکن ہوگیا ہے کہ بعض نابینا افراد کو دوسرے افرادکی آنکھیں لگا کر بینائی واپس دلائی جاسکتی ہے۔ اسے میڈیکل کی اصطلاح میں آئی ٹرانسپلائزشن کہتے ہیں۔ آنکھوں کی منتقلی سے مراد پوری آنکھ کی منتقلی نہیں ہے بلکہ آنکھوں کے اندر موجود cornea(دیدہ) کی منتقلی سے ہے۔ آنکھوں کی منتقلی کا یہ عمل انہی لوگوں میں کیا جاسکتا ہے جو کورنیا کی خرابی کی وجہ سے نابینا ہیں۔ لہٰذا اس عمل کو جاننے کے لیے پہلے کورنیا یا آنکھ کے اندر موجود پتلی کی بناوٹ کو جاننا ضروری ہے۔ آنکھ کے اندر کا گول حصہ ایک ٹیبل ٹینس کے بال کی شکل کی بناوٹ کا ہوتا ہے۔ اس کے سامنے والے حصے میں ایک شفاف گول حصہ ہوتا ہے۔ یہ شفاف گول حصہ ہی پتلی (cornea) کہلاتی ہے۔ یہ آنکھ کی پوری گولائی کا چھٹا حصہ ہوتا ہے۔ اس کی شفاف بناوٹ ہوتی ہے اور اس میں خون کی نلیاں نہیں ہوتی ہیں۔ یہ شیشے جیسی بناوٹ ہے جو اپنی غذا آنکھوں کے اندر موجود رقیق مادے سے حاصل کرتی ہے۔ دراصل پتلی چونّی کے سکے کے شکل کی گول بناوٹ ہے۔ جو چاروں طرف سفید سطح سے جڑی ہوتی ہے۔ چونکہ کورنیا آنکھ کی سطح سے ابھرا ہوا ہوتا ہے لہٰذا یہ ابھری ہوئی لگتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں گھڑی کے ڈائل کے آگے لگے شیشے جیسی یہ بناوٹ ہے۔ جب شیشہ کے مترادف یہ گول پتلی نقصان زدہ ہوکر دھندلی ہوجاتی ہے تو انسان کو دھندلا دکھائی دینے لگتا ہے اور بینائی میں کمی آنے لگتی ہے۔ ایسے اندھے پن کو کورنیل بلائنڈنس کہا جاتا ہے۔ اس کی مندرجہ ذیل خاص وجوہ ہوسکتی ہیں:۱- آنکھوں پر چوٹ لگنا۔ ۲- غذائی کمی سے آنکھوں پر جھلّی بن جانا، بالخصوص وٹامن اے کی کمی سے کورنیا میں ضرر پہنچنا۔ ۳- آنکھوں میں مختلف قسم کے انفیکشن کا ہونا۴- آتش بازی کے وقت آنکھوں کا جل جانا۔۵- کورنیا کا تیزاب سے جل جانا۔۶-آنکھوں میں پیدائشی نقص ہونا۔
اگر کسی آدمی نے موت کے بعد اپنی آنکھوں کا عطیہ کردیا ہو ہے تو اس کی موت کے بعد اس کی دونوں آنکھوں کو عمل جراحی کے ذریعے محفوظ نکال لیا جاتا ہے اور خاص تکنیک کے ذریعے اسے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ مرے ہوئے انسان کاچہرہ کسی بھی طرح بد وضع اور بدنما نہ لگے اس کے لیے آپریشن کے بعد اس میں مصنوعی آنکھیں لگا دی جاتی ہیں۔ عملِ جراحی کے ذریعے نکالی گئی آنکھ کو فوراًآئی بینک پہنچادیا جاتا ہے۔ جو کسی ضرورت مند انسان کو لگائی جاتی ہے۔
نابینا انسان کی خراب پتلی کو آپریشن کے ذریعہ نکال دیا جاتا ہے اور اس کی جگہ شفاف پتلی کو لگایا دجاتا ہے۔ چونکہ پتلی میں کوئی خون کی نلی نہیں ہوتی ہے اس لیے وہ اپنی غذا آنکھوں کے اندر موجود رقیق مادے سے حاصل کرتی رہتی ہے۔ کسی بھی انسان کی پتلی کسی بھی انسان کو لگائی جاسکتی ہے۔ کیونکہ انسان کا جسم کسی بھی انسان کی پتلی کو قبول کرسکتا ہے۔ اس طرح کے آپریشن کو caratoplastyکہتے ہیں۔
کورنیا موت کے ۶ گھنٹے کے اندر ہی سوکھنے لگتا ہے۔ لہٰذا آنکھوں کے عطیہ کرنے والے انسان کے موت کے ۶ گھنٹے کے اندر ہی آئی بال نکال لیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد آئی بینک میں ۲۴؍گھنٹے کے اندر ہی مناسب اور ضرورت مند انسان کو اسے منتقل کردیا جاتا ہے۔
——