ملیحہ تقریباً آٹھ سال بعد اپنے والدین کے ہمراہ وطن واپس ہوئی تھی۔ وہ باہر کی مصروف ز ندگی کو یکسر بھلا کر اپنے وطن میں اپنی ہم عمر خالہ زادبھائی بہنوں کے ساتھ جن کے ساتھ اس کی دوستی تھی، بھر پور وقت گزارنا چاہتی تھی۔ لہٰذا وطن پہنچنے کے بعد دوسرے ہی ہفتے اپنے والدین سے خالہ کے گھر رہنے کی اجازت لے لی۔
خالہ جان کا تصور آتے ہی محبت کے سمندر میں غوطے کا احساس ہوتا تھا۔ خالہ اس پر جان چھڑکتی تھیں اور اس کے خالہ زاد بھائی بہن اس کو بے حد پیار کرتے تھے۔ آ ٹھ سال کے طویل عرصے میں اس کی دو خالہ زاد بہنیں تو اپنے گھروں کو رخصت ہوچکی تھیں، صرف اس کی ہم عمر حدیقہ ہی بچی تھی۔ بہوئیں گھر میں آگئی تھیں اور ان کے اچھے اخلاق و عادات کے قصیدے وہ اتنی دور سے بھی سنتی رہتی تھی۔ فون پر ان سے بات ہوتی رہتی تھی۔ انتہائی پیار کا انداز تھا ان سب کا، لہٰذا ان سے ملنے اور ان کے ساتھ وقت گزارنے کے تصور سے ہی ملیحہ انتہائی خوش تھی۔
خالہ کے ہاں دروازے پر قدم رکھتے ہی شور شرابے اور بے ہنگم آوازوں نے اس کا استقبال کیا۔
پانی کی موٹر شدید آواز کے ساتھ چل رہی تھی۔ خالہ جان موجود تھیں اور گھر کے باقی افراد بھی، لیکن اسے دیکھ کر کوئی اپنے کام کو چھوڑ کر اس کی طرف نہ بڑھا۔ وہیں بیٹھے کھڑے سب نے اس سے خیریت پوچھی۔ خالہ جان نے اس کے سلام کا جواب سلائی مشین پر کچھ سیتے ہوئے جھکے جھکے دیا۔ خالہ جان کی ایک بہو مشین پر کپڑے دھورہی تھی۔ ملیحہ کو دیکھ کر ذرا اور جلدی جلدی کرنے لگی۔ حدیقہ کپڑے استری کرنے میں مصروف تھی۔ خالہ جن کی دوسری بہو کچن میں مشین پر کچھ پیسنے میں مصروف تھیں، انھوں نے ازراہِ تکلف اسے بیٹھنے کو کہا ورنہ شاید وہ کھڑی ہی رہ جاتی اور دوبارہ گرائنڈر چلانے لگی۔ بڑے بھائی کمپیوٹر پر بے حد مصروف نظر آرہے تھے۔ بچے ٹی وی پر بہت اہم پروگرام دیکھ رہے تھے۔
ملیحہ دکھی دل کے ساتھ بیٹھی سوچ رہی تھی کہ خالہ جان کس قدر بدل گئی ہیں۔ وہ مجھ پر کس قدر جان چھڑکتی تھیں، کتنا اصرار کرتی تھیں کہ آؤگی تو کچھ دن رہنے کے لیے ضرور آنا۔ وہ بھی خالہ جان کو بہت چاہتی تھی، ان سے ہر فرمائش کا اظہار کرتی اور پوری کروالیتی۔ خالہ اپنے بچوں کے مقابلے میں نہ جانے کیوں ہمیشہ اسے فوقیت دیتیں۔ اسے خالہ پر بہت مان تھا اور اب اس کے سامنے وہی جان سے عزیز خالہ جان بے تعلق سی بیٹھی تھیں۔
اُف! سوچ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ تو چند دن رہنے کے خیال سے آئی تھی لیکن یہاں اُس کی اِس طرح پذیرائی ہوگی اس نے خواب میں نہ سوچا تھا۔ خالہ تو خالہ دوسرے لوگ بھی کیسے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ وہ محبت کی ماری یہاں چلی آئی اور یہ لوگ…
کیا فائدہ یہاں مزید بیٹھنے کا… سوچا کہ فون کرکے کسی کو بلالوں اور واپسی کی راہ لوں۔ اس نے سیل فون اپنے پرس میں سے نکالا اور نمبر ملانے لگی کہ …
اچانک یکلخت مکمل خاموشی چھاگئی۔ پانی کی موٹر کی کھٹ کھٹ، واشنگ مشین کی پھڑپھڑاہٹ، گرائنڈر کی کھڑکھڑاہٹ، پنکھوں کی پکھر پکھر بند، ٹی وی، کمپیوٹر کی موسیقی و آوازیں بند… مکمل خاموشی کا عالم طاری ہوگیا اور پھر آنکھوں نے ناقابلِ یقین منظر دیکھا۔ کسی نے گلے لگایا، کسی نے پیار کیا، تو کوئی گلے سے چمٹا کر رو رہا تھا۔ سب والا وشیدا ہونے لگے۔ پرانا وقت جیسے لوٹ آیا۔ محبتیں اپنا رنگ دکھانے لگیں۔ فضا میں قہقہے گونجنے لگے، نغمے رقص کرنے لگے۔ ساری کدورتیں چھٹ گئیں، وہ کیسی ہلکی پھلکی ہوگئی۔
کچھ دیر بعد جب سب نے اسے بمشکل چھوڑا اور وہ سوچنے کے قابل ہوئی تو شکوہ کرہی بیٹھی کہ میرے آنے پر آپ سب لوگوں پر شاید جادو کا اثر تھا، جب اثر ختم ہوا تو آپ لوگوں نے مجھے پہچانا… کیوں؟
سب ہنسنے لگے اور اتنا ہنسے کہ آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ شاید اپنی بے بسی پر، اور جواب دیا کہ لائٹ صبح دو گھنٹے کے لیے جاتی ہے، دوپہر دو گھنٹے اور شام دو گھنٹے… باقی بچے ہوئے گھنٹوں میں سب کو کام نمٹانے ہوتے ہیں، اگر ہم باتوں میں لگ جاتے تو نہ تو بروقت کھانا تیار ہوسکتا اور نہ گھر کے ضروری کام، نہ تمہیں دینے کے لیے خالہ جان کے ہاتھوں تیار کیا ہوا خوب صورت سوٹ۔
ہم سب لوگ بجلی کے تابع ہیں، جب آتی ہے تو غنیمت جانتے ہوئے سب کام جلدی جلدی کرتے ہیں۔ مشینوں کے بغیر آج کا انسان بے کار اور مشینیں بجلی کے بغیر بے کار، یعنی:
آنے سے اس کے آئے بہار
جانے سے اس کے جائے بہار