آؤ! آؤ! آؤ!!

ڈاکٹر عظیم الدین بخش، حیدرآباد

سیٹھ سلیم احمد کی رہائش گاہ بھلے ہی بظاہر کچھ حد تک ٹین پوش تھی مگر چاروں طر ف پھیلی کھلی اراضی پر ہمہ اقسام کے درخت لگائے گئے تھے جن میں ناریل، سیتا پھل، بیر،جام، جامن، پپیا، آم وغیرہ سے لے کے دوسرے کئی پھل دار درختوں کے ساتھ ساتھ نت نئے پھولوں کی کیاریاں بھی تھیں۔ خوبصورتی سے سجائے گئے گملوں میں مختلف رنگوں اور نمو نوں کے چھوٹے بڑے پودے رنگ برنگی بیلیں، ہمیشہ چاروں طرف بہار ہی بہار دکھاتے، اور یہ سب سٹھانی ماں کی دلچسپی و لگن کا نتیجہ تھا۔ وہ جہاں گھر کے کام کاج میں ہمیشہ مصروف رہتیں، وہیں گھر کے وسیع و عریض صحن میں لگائے گئے چمن کی دیکھ بھال بھی خاص طور پر اپنی نگرانی میں کراتی رہتیں۔ پودوں کو پانی دینا، وقتاً فوقتاً کھاد ڈالنا، مٹی بدلنا، کیاریاں درست کرنا وغیرہ گھر کے کاموں کے ساتھ ہر روز نپٹاتی رہتیں۔ انہیں ایک طرح سے ننھے منّے درختوں، پھولوں کی خوبصورتی سے عشق تھا۔ پتہ نہیں اتنا سب کچھ کرنے کے لیے وقت کہاں سے ملتا!
الحمدللہ سیٹھ صاحب کا بھرا پرا گھر، پانچ بچے، والدہ، دادی صاحبہ اور دو تین نوکر چاکر بہر حال اچھا خاصہ جھمیلا ہمیشہ لگا رہتا۔ پھر دونو ںمیاں بیوی کی ملنسار و پرخلوص شخصیت کا نتیجہ تھا کہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی مہمان گھر کی زینت و رونق بڑھاتا رہتا۔ خاندان میں ہی نہیں محلے میں بھی سب اس گھر کو عزّت و احترام کی نظر سے دیکھتے۔ ملنے جلنے والوں کے دلوں پر سیٹھ صاحب کی پروقار شخصیت کا رعب و دبدبہ ہمیشہ رہتا اور ہر کوئی ان سے بڑے خلوص سے ملتا۔
کبھی اتفاق سے چند دن گھر پر اگر کوئی مہمان نہ آتا تو دونوں میاں بیوی فکر مند ہوجاتے کہ کیا بات ہے کافی دنوں سے کوئی رشتہ دار گھر کی زینت نہیں بنا۔ وہ اکثر بچوں سے کہتے رہتے کہ مہمان اللہ کا دوست ہوتا ہے ،گھر آنے پر برکت رہتی ہے، فرشتے رحمت بھیجتے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے بستی میں سب سے الگ تھلگ چاروں طرف سے جھاڑیوں سے گھرا بڑا مکان ہونے کے باوجود گھر پر کتا نہیں پالا تھا۔
کشادہ لان سے ہوتے ہوئے، باہر مغربی سمت تین تین گیٹ تھے جن میں وسطی گیٹ ہی اکثر استعمال میں آتا۔ خدائی مہمان کو تکتے اس گھر میں، صبح کے یہی کوئی آٹھ بجے ہوں گے، ایک چھوٹی سی کبوتری پھدکتی ہوئی وسطی گیٹ سے اندر داخل ہوئی جس کے پر کسی شریر بچے نے اس خیال سے کتر ڈالے تھے کہ وہ کہیں اڑ نہ جائے۔ سیٹھ صاحب کے تیسرے بیٹے کی نظر جوں ہی اس مٹیالے رنگ کی پیاری سی کبوتری پر پڑی انھوں نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور جھٹ سے جالی دار چوہے دان میں بند کردیا۔ جو ایک عرصے سے ٹوٹا پھوٹا بیکار پڑا ہوا تھا۔ جب بیگم صاحبہ کی نگاہ اس پر پڑی انھوں نے پیار سے بیٹے کو سمجھایا کہ بیٹا! ہر جاندار اپنے ماحول میں ہی اپنے ہم جنسوں کے ساتھ آزادانہ زندگی گزارنا پسند کرتا ہے۔
پرندے یا کسی جانور کو پہلے تو قید نہیں کرنا چاہیے، اور اگر تم کسی پرندے کو گھر کی زینت بنانا ہی چاہتے ہو تو اس کے لیے آزادانہ ماحول مہیا کرو اور اس کے کھانے پینے کا پورا پورا خیال رکھو۔ ورنہ یہ ان جانداروں پر ظلم ہوگا جو اللہ کو بھی پسند نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آزاد پیدا کیا ہے۔ اور رزق کا دینا اس کے ذمے ہے۔ قید کی زندگی چاہے وہ سونے کے پنجرے ہی میں کیوں نہ ہو، غلامی ہی کہلائے گی۔ چونکہ کسی شریر بچے نے اس بیچاری کے پر کتر دیے ہیں، اس لیے تم اس کی نگہداشت کرو تاوقتیکہ اس کے پر پھر سے نکل آئیں اور وہ اڑنے کے قابل ہوجائے۔
اس طرح کلیم میاں خوشی خوشی اپنی نئی نویلی دوست کے ساتھ فرصت کے لمحات گزارنے لگے اور اس کی رہائش کا معقول بندوبست بھی ہوگیا۔ سیٹھ صاحب بھی آتے جاتے اپنے اس مہمان کا جائزہ لیتے رہتے تھے کہ کہیں وہ بھوکی پیاسی نہ ہو یا پانی نہ دیا گیا ہو۔ بیگم صاحبہ کو بھی ہمیشہ تاکید رہتی کہ دیکھو بچوں کی خوشی میں کہیں اس معصوم پر ظلم نہ ہونے پائے۔ اور اس طرح سے بیگم صاحبہ کی مصروفیتوں میں ایک اور ذمہ داری کا اضافہ ہوگیا۔
چند دنوں میں ہی کبوتری کے پر پھر سے مکمل طور پر نکل آئے اور گھر و آنگن کے ساتھ ساتھ باہر چمن میں بھی ادھر سے ادھر اڑتی پھرتی اور شام ہوتے ہوتے اس کے لیے بنائے گئے گھونسلے میں دبک جاتی۔ کبھی کبھی گھر میں پھیلی روشنی میں وہ اپنی آنکھیں کھولے ٹکر ٹکر چاروں طرف دیکھتی رہتی اور جوں ہی گھر کے مکین کھانے کے لیے دستر خوان بچھاتے یا ٹیبل پر بیٹھتے تو وہ پھر سے اڑ کر کبھی کسی کے سر پر یا کاندھے پر بیٹھ جاتی۔ بچے خوش ہوکر ہتھیلی میں چاول کے دانے لیے اسے کھلانے کی کوشش کرتے تو وہ اڑ کر ہاتھوں پر بیٹھ جاتی اور بے فکری سے چاول کے دانے چگنے لگتی۔ گویا اسے ہر طرح کی آزادی ہی نہیں بلکہ بے فکری کے ساتھ تحفظ بھی مل گیا ہو۔ اور وہ یوں اس گھر کے بچوں کی ساتھی بن گئی، جسے پیار سے ’’لاڈلی‘‘ پکارا جاتا۔
اللہ رحیم و کریم ہے اور اس نے اس صفت کو اپنے بندوں میں بھی ودیعت کیا ہے۔ سچے پیار و محبت سے پرندے و پالتو جانور تو کیا درندے بھی مانوس ہوجاتے اور خلوص کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر انسانوں کے دلوں سے یہی خلوص و محبت کی صفت چلی جائے تو پھر یہی انسان دوسرے انسان کے حق میں درندہ بن جاتا ہے۔
لاڈلی کا پیار اس گھر کے مکینوں سے یوں ہی نہیں تھا۔ وہ اپنی اس اچانک پڑی افتار کو نہیں بھولی تھی، جب کالج سے گھر آتے کلیم میاں کے سر پر پھر سے اڑ کر بیٹھنے کے شوق میں وہ تیزی سے چلتے سیلنگ فین میں الجھ کر بری طرح زخمی ہوگئی تھی اور اس کی آنتیں باہر کو نکل آئی تھیں۔ کلیم میاں اور بیگم صاحبہ کی وہ تڑپ اور بے چینی وہ بھول نہیں سکتی تھی جب انھوں نے اسے تڑپتے دیکھ کر اپنے ہاتھوں میں اٹھایا تھا، اور بیگم صاحبہ نے اس کی جلد کو دھاگے سے سی کر ہلدی پوڈر کے ساتھ آیوڈین وغیرہ کے پھائے لگائے کئی دنوں تک اس کی تیمارداری کی تھی۔ اگر زندگی ہو تو انسان ہو یا چرند پرند کوئی سا بھی جاندار، بدترین حالات میں بھی جی ہی جاتا ہے اور وہ بھی اس جان لیوا حادثہ سے جان بر ہوکر صحت مند ہوگئی۔
خدا کی کرنی کہ ایک اور مہمان اس گھر میں چلا آیا۔ ایک خوبصورت سا سفید گول مٹول کبوتر جس کے پورے پیروں اور انگلیوں پر نرم نرم پروں کی چادر سی چڑھی ہوئی تھی۔ سچ ہے خدا نے ہر ایک کو جوڑے جوڑے پیدا کیا ہے اور ہر ایک کے جینے کے سہارے مہیا کرتا ہے۔ پتہ نہیں دونوں مہمانوں میںکیا کانا پھوسی ہوئی۔ غڑغوں،غٹرغوں!! عہد و پیماں ہوئے اور یوں نئی زندگی کی شروعات ہوئی۔ دونوں مہمانوں کو پاکر گھر کے میزبان خوشی سے پھولے نہ سماتے۔ ناریل کے درختوں پر تار باندھ کر ایک بڑا سا مٹی کا گھڑا باندھ دیا گیا جو اس نئے جوڑے کا مسکن بنا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دو سے تین، تین سے چار گھڑے باندھے گئے۔
کبوتری ہر جھول میں دو انڈے دیتی اور ہر دفعہ ایک نر ایک مادہ جنم لیتے۔ دیکھتے دیکھتے بچے بڑے ہوتے اور پھر ان کی اپنی نسل پروان چڑھتی گئی۔ قدرت کا یہ بڑا حیرت انگیز کارخانہ نظام ہے جہاں ہر پرندہ و جانور اپنی نسل ہی سے جوڑی بناتا ہے اور اس سے اپنی نئی نسل پروان چڑھاتے ہوئے مگن رہتا ہے۔ وہاں آج کا یہ مغرب زدہ و ترقی یافتہ سیو لائیزڈ کلچر، کہلانے والا انسان، ان بے زبان پرندوں چرندوں سے بھی گیا گزرا ہوگیا ہے جس کی جنسی بھوک کہیں بھی اور کسی سے بھی مٹتی نظر نہیں آتی!
کبوتروں کی بڑھتی فوج کی ضرورتوں کے مدِّ نظر سیٹھ سلیم نے بازار سے خاص طور پر لکڑی کا ایک بڑا سا کبوتر خانہ بنوا کر چمن میں ایک اونچے ستون پر رکھ دیا، جہاں اس ایک جوڑے سے پیدا شدہ پچاسوں کبوتر اپنے کنبہ بنائے مل جل کر رہتے۔ مگر لاڈلی کے لاڈ و پیار میں کمی نہیں آئی تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح گھر میں ہر طرف پھدکتی دانہ دنکا چگتی اور آزادی سے گھومتی رہتی۔
اس کے بچے، پوتے، پڑپوتے، پوتیاں اس سے اکثر کہتی رہتی کہ گرانی ماں! کیا ہم بازو والی ان اونچی بلڈنگوں میں اپنا بسیرا بنالیں۔ دونوں عمارتوں میں کافی جگہ گھروندے بنائے جاسکتے ہیں، ہمیں مزید آزادی ملے گا! مگر لاڈلی اپنے خاندان کی اس نئی نسل کو بڑے پیار و الفت سے سمجھاتی کہ میرے پیارے بچو! جو پیارو خلوص ہمیں اس گھر سے ملا اور ملتا ہے وہ تمہیں کہیں نہیں ملے گا۔ یہاں ہمیں آزادی ہی نہیں تحفظ بھی ہے۔ کبھی کچھ کم بھی پڑجائے تو ہم مل بانٹ کر کھاسکتے ہیں۔ دوسروں کی طرح لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آتی۔ یہ گھر خلوص و الفت کا گہوارہ ہے، جو ہمیں قدرت نے دیا ہے اس کی قدر کرو اور اس گھر کے مکینوں کو دعائیں دو۔ خبردار! دوسروں کی بڑی بڑی عمارتوں کے لالچ میں اپنا وہ گھروندا کبھی نہ چھوڑنا جہاں انسانیت جھلکتی ہے۔ جہاں ہر ایک کے ساتھ انصا ف کیا جاتا ہے۔ جہاں ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹا جاتا ہے۔ خدا کی دی ہوئی اس نعمت سے منہ موڑنا کفرانِ نعمت ہے۔
گھر کی مالکن کی آوازوں کے ساتھ ہی کبوتروں کی پھڑپھڑاہٹ فضا میں گونجتی بڑی بھلی معلوم ہوتی۔ مستی میں وہ اٹکھیلیاں بھی کرتے بڑے پیارے سے لگتے۔ جہاں وقت گزرنے کے ساتھ آنگن میں پرندوں سے گھر آباد ہوا، وہیں گھر میں بھی سیٹھ صاحب کا خاندان پھلتا پھولتا گیا۔ بچے بڑے ہوگئے۔ اسکول سے کالج، پھر بزنس اور ملازمتوں کا چکر چل نکلا۔ گھر کے محدود ماحول سے بچوں نے باہر کی نئی دنیا تلاش کرنی شروع کردی۔ گھر میں بہوئیں بھی آئیں۔ فکروں کی تبدیلیوں اور سوچوں کے فرق نے خیالات کے ٹکراؤ کا روپ دھارنا شروع کیا۔ روز روز کے گھر آتے مہمان نئی نسل کو کچھ بے چین کرنے لگے۔
جب کچھ بھی نہ تھا، دل بڑے تھے۔ کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہوتی تھی۔ اب ہر طرف خیر ہی خیر ہونے پر بھی دلوں میں گھٹن سی محسوس ہونے لگی۔ نئے دور کی نئی سوچ و فکر رکھنے والی بہوؤں کو یہ گھر گرہستی، دن بھر کے کام کاج میں لگے رہنا، گھر میں آنے والے رشتہ داروں کی آؤ بھگت، درختوں کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی، جھاڑ پونچھ سب کچھ گراں گزرنے لگا۔ نہ کبھی آرام نہ کوئی سیرو تفریح، ٹی وی پروگراموں پر بھی پابندی کہ یہ نہ دیکھو وہ نہ دیکھو تو پھر کیا دیکھو؟ باقی اس میں دھرا ہی کیا ہے۔ اس طرح تو پوری کی پوری ٹی وی دنیا ہی خرافات ہوکر رہ جاتی! اوپر سے جب دیکھو تب کبوتروں کی غٹر غوں، غٹرغوں!! فوج کی فوج ادھر سے ادھر اڑتی پھرتی۔ صبح و شام دانہ دنکا ڈالو، ان کے پانی، صاف صفائی کا خیال رکھو! ایک دردِ سر سا معلوم ہوتا۔
پرانے پیڑ سے نکلی نئی کونپلیں اپنا الگ وجود و پہچان قائم کرنے کی جستجو کرنے لگیں۔ اب نہ وہ بے لوث جذبات جھلکتے نہ محفلوں میں تازگی رہی۔ دلوں میں پوشیدہ الجھنیں چہرے پر سائے کی طرح لہراتی نظر آتیں۔ دوسرے کبوتروں کی طرح لاڈلی نے بھی گھر کی بگڑتی فضا کو محسوس کرنا شروع کیا۔ بیگم صاحبہ پہلے کی طرح ہشاش بشاش دلوں کو مسخر کرنے والی معصوم سی پاکیزہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے ادھر، ادھر بہت کم نظر آتیں، جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہو! وہ کچھ بیمار بیمار سی رہنے لگیں تھیں۔ سیٹھ صاحب آئے دن زندگی کے گرداب میں الجھتے ہوئے تھک سے گئے تھے۔
حالات نے جب کروٹ بدلی اور نئے دور کا سورج ہر طرف تیز شعاؤں کی تمازت بکھیرنے لگا، لاڈلی نے ان شعاؤں کی تپش محسوس کرتے ہوئے بری دل گرفتگی سے یہ کہتے ہوئے اپنے اہلِ خاندان کو اپنے من پسند گھونسلوں کی تلاش کی اجازت دے دی کہ مطلب پرستی کی دنیا میں جہاں خلوص و محبت نہ رہے۔ جب ریا کاری اپنے مکروہ چہرے کو بناوٹ کی نقاب میں پوشیدہ رکھنے لگے وہاں انصاف کا ملنا دشوار ہوجاتا ہے، اور وہاں زندگی عذاب بن جاتی ہے۔
دیکھتے دیکھتے اڑوس پڑوس کی بلند وبالا عمارتوں پر پرندوں کی نوجوانوں نسل نے گھونسلے بناتے ہوئے اپنی الگ سے دنیا بسالی۔ مگرلاڈلی جو گزشتہ چھ سات سالوں میں کافی بوڑھی و نڈھال ہوگئی تھی، نے اپنے ان محسنوں کا در نہیں چھوڑا۔ آفاتِ سماوی نے اس کے جیون ساتھی کو بھی اس سے چھین لیا مگر اس نے اس لکڑی کے بنے درجنوں چھوٹے بڑے خانوں والے اپنے خاندان کی بنیاد، کبوتر خانے کو چھوڑنے سے انکار کردیا۔
لاغر، کمزور و ناتواں لاڈلی اپنے ڈربے میں پڑی رہتی۔ اب اس سے دور دور اڑنا بھی دشوار ہوگیا تھا۔ دانہ پانی بھی مشکل سے حاصل کرتی ۔ کلیم میاں اور دوسرے بچے قانونِ قدرت کی بچھائی ہوئی بساط پر شطرنج کے مہروں کی طرح اِدھر اُدھر تلاشِ معاش میں بکھر گئے۔ کچھ نے اپنی الگ دنیا سجالی تھی۔ جو چھوٹے تھے وہ اپنے اپنے دوستوں کے گلشن میں علیحدہ پہچان بنوانے میں مگن ہوگئے۔ کسی کوگھر اور گھر کی الجھنوں سے اب وہ لگاؤ نہیں رہا تھا۔ شایدقدرت کا یہ تکوینی منظم معاشرتی نظامِ عمل ہی ہے جو ایک فرد سے جوڑ، پھر گھر و خاندان اور محلہ، شہر درشہر بستی دنیا یوں ہی گردشِ لیل ونہار کے ساتھ پھیلتی جاتی ہے۔
گردشِ ایام کے ساتھ گھر اجڑتا گیا۔ مشیتِ ایزدی کے تحت مکافاتِ عالم کا پہیہ اپنی گردش مکمل کرتا رہا۔ کئی برسوں سے خوش نما پھول بیل بوٹوں سے لہلہاتا سدا بہار ہرا بھرا چمن قصۂ پارینہ بن گیا۔ضرورتوں کے پیمانوں کے اقدار بدلے۔ خیال و فکر میں نیا موڑ آیا اور اس وسیع و عریض آشیانے کے اس چمن پر کنکریٹ کی ایک ہمہ منزلہ عمارت کھڑی ہوگئی، جس کے ایک کونے میں آج بھی بوڑھے سیٹھ اور ان کی اہلیہ رہتی ہیں اور کبھی کبھار عمارت کی چھت پر سنبھال کر رکھے ہوئے پرانی یادوں کے اس گھروندے پر نظر پڑتی ہے تو اڑوس پڑوس کی عمارتوں پر بسے کبوتروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے چھت پر مٹھی بھر دانے بکھیر کر آواز دینے لگتے ہیں…
آؤ!آؤ!! آؤ!!!
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں