موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن ہی نہیں۔ یہ تو آکر ہی رہے گی۔ قبر ٹھکانہ ہوگی جو بار بار اعلان کرتی ہے میں مٹی کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا یا جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ۔
ہم کتنے ہی لوگوں کو اپنے کندھوں پر لے جاکر اس گھر کے سپرد کر آئے، اب وہ ہیں اور ان کے اعمال۔ اب کوئی ان کے لیے کچھ نہیں کرسکتا، ہم لاکھ چاہیں ان کی کوئی خدمت کریں، نہیں کرسکتے۔ اعمال کے سب راستے بند ہیں۔ لیکن ذرا غور کیا جائے تو ایک راستہ باقی ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا ہے: نیک اور اچھی اولاد صدقۂ جاریہ ہے۔ ہم اپنے متوفین کی چھوڑی ہوئی خوبیوں کو آگے بڑھا کر، ان کے عزیزواقارب کے ساتھ حسنِ سلوک کرکے ان کی اب بھی خدمت کرسکتے ہیں اور ان کے لیے اور خود اپنے لیے بھی خیر سمیٹ سکتے ہیں۔ ایک شخص نے اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھا میری ماں فوت ہوچکی ہیں؟ کیا میں اب بھی ان کی کوئی خدمت کرسکتا ہوں؟ آپؐ نے فرمایا کیا تمہاری خالہ حیات ہیں؟ کہا: جی ہاں۔ تو ان کی خدمت کرو۔اسی طرح ایک اور موقع پر جواب میں فرمایا : اپنے والد کے دوستوں کی عزت کرو، ان کی خدمت کرو۔ یہی والد کی خدمت کرنا ہوگی۔
خطبۂ جمعہ میں یہ آیت ہم مسلسل سنتے ہیں: اللہ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی وبے حیائی اور ظلم وزیادتی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو۔(النحل:90)
جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو کتنے ہی رشتوں کے درمیان زمین پر قدم رکھتے ہیں۔ ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی، خالہ پھوپھی، بہن بھائی۔ جب موت آتی ہے تو کتنے ہی رشتے باقی ہوتے ہیں۔ بہن بھائی کے علاوہ پھوپھی خالہ وغیرہ۔ ہمیں آیات قرآنی اور ہدایات رسولؐ کے ذریعہ ان سے ربط و ضبط صلہ رحمی کا حکم دیا جاتا ہے۔ ہمیں یہ سب یاد رہتا ہے کہ ہمارے ماں باپ اپنی بیٹیوں بیٹوں کو کتنا چاہتے تھے۔ ہماری پھوپھیوں کے ساتھ کس درجہ محبت رکھتے تھے۔ عید بقرہ عید کے مواقع پر ان کو عیدی دیتے تھے جس دن ہماری کوئی بہن، خالہ یا پھوپھی آتی اس کی خاطر داری تو الگ اس دن کی آمدنی بھی اس کے ہاتھ میں رکھ دیتے تھے۔ لے ’’جنت‘‘ تو آئی ہے آج ساری دوکان کی آمدنی یہ لے یہ تیری ہے۔ ان باتوں سے کیسا خوشگوار ماحول بنتا تھا۔ آج بھی ہمارے چاروں طرف ہمارے رشتے پھیلے ہوئے ہیں۔ اب ہم سوچتے ہی نہیں! ہوگی کوئی جنت، رحمت یا اس کی اولاد۔ نتیجتاً زندگی میں کوئی کیف اور کوئی خلوص نہیں۔ آج ہم اپنے درمیان صلۂ رحمی کے جذبوں کو پھر زندہ کریں۔ اپنے رشتے داروں اور دوست احباب کی خدمت کریں یا ان سے ناطہ جوڑیں تو ان ہی کی نہیں ہم اپنی قبریں بھی روشن کریں گے۔ اور یہ حسنِ عمل صدقہ جاریہ بن جائے گا۔ll