قیدی بندر
یہ کھیل بڑا دلچسپ ہے اور اس میں بیک وقت کئی کھلاڑی شرکت کرسکتے ہیں۔ اس میں سب کھلاڑیوں کے نام کاغذ کے چھوٹے چھوٹے پرزوں پر لکھ کر ایک جگہ جمع کرلیے جاتے ہیں، ان میں ایک پرزہ سادہ بھی ہوتا ہے۔ سب کھلاڑی باری باری ایک ایک کاغذ کا پرزہ اٹھا لیتے ہیں جس کا پرزہ سادہ نکلتا ہے، اسے قیدی بندر کہا جاتا ہے۔
قیدی بندری کے دونوں بازوؤں کے نیچے سے ایک رسہ گزار کر اس کے دونوں سرے ایک درخت کی مضبوط شاخ سے باندھ دیے جاتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ قیدی بندر ایک خاص جگہ سے ادھر ادھر نہیں جاسکتا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چاک ہوتا ہے اور اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے۔ دوسرے کھلاڑی اپنے رومالوں کو بل دے کر چھوٹے چھوٹے ’’چابک‘‘ بنالیتے ہیں۔اور قیدی بندر کو خوب پیٹتے ہیں۔ ادھر قیدی بندر کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ چاک سے کسی نہ کسی کھلاڑی کو نشان لگادے۔ جس کے نشان لگ جاتا ہے، وہ قیدی بندر بن جاتا ہے۔
(یاد رہے کہ قیدی بندر کو کندھوں تک چابک مارے جاتے ہیں، کندھوں سے اوپر اگر کسی کھلاڑی کا رومال قیدی بندر کے جسم کو چھوجائے، تو اس کھلاڑی کو قیدی بندر بنادیا جاتا ہے۔)
تاج پوشی
اس کھیل میں بارہ کھلاڑی شریک ہوتے ہیں جو دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ایک گروہ کا پہلا کھلاڑی ایک دیوار کی طرف منہ کرکے اس طرح کھڑا ہوتا ہے کہ اس کی دونوں ہتھیلیاں دیوار سے لگی ہوتی ہیں۔ اس کے پیچھے دوسرے کھلاڑی بالکل ساتھ ساتھ گھنٹوں پر دونوں ہاتھ رکھے کھڑے ہوتے ہیں۔ دوسرے لڑکے باری باری دور سے دورڑے ہوئے آتے ہیں اور جھکے ہوئے کھلاڑیوں کو پھلانگتے ہوئے پہلے کھلاڑی کے سر کوچھونا چاہتے ہیں۔ اس دوران میں جھکے ہوئے کھلاڑیوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ ادھر ادھر ہوکر پھلانگنے والے کی کوشش کو ناکام بنادیں۔ اگر پھلانگنے والی ٹیم کا کوئی کھلاڑی پہلے کھلاڑی کے سر کو چھولے تو وہ جیت جاتی ہے۔
ڈاکیے کا کھیل
اس کھیل میں لا تعداد کھلاڑی شامل ہوسکتے ہیں۔ ایک باغ یا کھلے میدان میں گتّے کے چھوٹے چھوٹے ڈبے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رکھ دیے جاتے ہیں اور ان ڈبوں پر مختلف شہروں کے نام لکھے ہوتے ہیں۔ ادھر ایک مرکز بنایا جاتا ہے جہاں کسی ڈبے میں مختلف شہروں کے ناموں کی پرچیاں رکھی ہوتی ہیں۔ چھ کھلاڑی ان ڈبوں میں یہ پرچیاں ڈالتے ہیں جن پر ان کے شہروں کا نام لکھا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے پرچی مطلوبہ ڈبے میں ڈال کر واپس آنے والا جیت جاتا ہے۔
بھیڑیے بھیڑیے
یہ کھیل ننھے بچوں کے لیے بڑا دلچسپ ہے۔ اس میں چھ سے تیس تک بچے شامل ہوسکتے ہیں۔ ایک مخصوص جگہ بھیڑیا چھپ جاتا ہے اور باقی بچے اسے تلاش کرتے کرتے کہتے جاتے ہیں۔ بھیڑیے بھیڑیے نام بتاؤ نام نہیں تو کام بتاؤ۔
بھیڑیا اچانک حملہ کردیتا ہے اور جسے چھولیتا ہے، اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے، جو پکڑے جاتے ہیں، وہ بھیڑیے بن جاتے ہیں، جو بھیڑیا بننے سے بچ جاتا ہے، وہ جیت جاتا ہے۔
سیب کھائیے
ایک پانی سے بھرا ہوا ٹب جس میں کچھ سیب تیر رہے ہوں۔ ٹب کے کنارے ایک کرسی رکھی جائے جس پر کھلاڑی گھٹنوں کے بل بیٹھا ہو اور اس کے دانتوں کے درمیان ایک کانٹا چھری یا پتلے دستے والا چاقو ہو۔ کھلاڑی کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ ٹب میں پڑے ہوئے سیب کو دانتوں میں لیے ہوئے کانٹے سے کاٹ دے۔اس کھیل کی ایک اور صورت بھی ہوسکتی ہے۔ کانٹے یا چھری کی جگہ سیب کو دانتوں سے بھی کاٹا جاسکتا ہے۔ اس سارے کھیل میں ہاتھ استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔
اندازے
اس کھیل میں دو ٹولیاں بن جاتی ہیں جن کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ایک ٹولی کمرے سے باہر چلی جاتی ہے اورکمرے میں موجود ٹولی کسی لفظ کا انتخاب کرتی ہے۔ جب دوسری ٹولی واپس آتی ہے، تو اسے منتخب لفظ کے ہم قافیہ تین الفاظ بتادیے جاتے ہیں تاکہ وہ منتخب لفظ کے بارے میں اندازہ کرسکیں۔ وہ تین بار اپنا اندازہ بتاتے ہیں اور اگر اندازہ درست ہو تو وہ ٹیم ایک نمبر حاصل کرلیتی ہے۔ پھر دوسری ٹیم اس کارروائی پر عمل کرتی ہے۔ یہ کھیل دس نمبروں تک کھیلا جاتا ہے۔
سائے
اس کھیل میں بھی دو گروہ بن جاتے ہیں۔ ایک کمرے کے وسط میں ایک چادر لٹکادی جاتی ہے اور اس کے سامنے ایک لیمپ روشن کرکے رکھ دیاجاتا ہے۔ کمرے میں لیمپ کے علاوہ کوئی دوسری روشنی نہیں ہوتی۔ اب ایک گروہ کے کھلاڑی باری باری اس پردے کے پیچھے آکر مختلف حرکتیں کرتے ہیں اور دوسری طرف کے کھلاڑی انہیں پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا گروہ یہی کچھ کرتا ہے اور پہلا گروہ اندازے لگاتا ہے جس گروہ کے اندازے زیادہ صحیح ہوتے ہیں، وہ جیت جاتا ہے۔