آپ بھی بنائیں گھر کا بجٹ

مریم جمال

مارچ کا مہینہ آتے ہی ہمارے ملک میں بجٹ کی دھوم دھام شروع ہوجاتی ہے۔ پارلیمنٹ کا خصوصی بجٹ اجلاس ہوتا ہے جو ملک کے آمدوخرچ کا بجٹ منظور کرتا ہے۔ یہ بجٹ کیا ہوتا ہے؟ یہ دراصل ملک کی مالی پالیسی ہوتی ہے۔ آمد کہاں سے اور کتنی ہوگی؟ اور خرچ کہاں اور کس طرح کیا جائے گا؟ تعلیم پر کتنا خرچ ہوگا؟ دفاع کے لیے کتنی رقم مہیا ہوگی؟ صحت عامہ اور بہبود پر کتنا سرمایہ خرچ ہونا ہے؟ یہ اور اس طرح کی بے شمار چیزیں بجٹ ہی متعین کرتا ہے۔ یہ بجٹ دراصل آمد وخرچ کا ایڈوانس تخمینہ ہوتا ہے جس کے مطابق حکومت آئندہ ایک سال تک اخراجات کرتی ہے۔
ہمارا گھر بھی ملک کی ایک اکائی ہے۔ جہاں کمپنیاں، ادارے اور تنظیمیں اپنا سالانہ بجٹ بناتی ہیں کیوں نہ آپ بھی اپنے گھر کا بجٹ بنائیں اور سال بھر کے آمد و خرچ کا اندازہ کرلیں تاکہ گھر کے مالی نظم و انتظام کو بہتر انداز میں چلایا جاسکے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم خرچ کرتے وقت اپنی آمد کا مکمل اندازہ رکھیں اور آمد سے زیادہ خرچ کرنے سے بچیں۔ اپنے گھر کو قرض اور غیر ضروری اخراجات سے بچائیں، بلکہ گھر کی بعض ضروریات کے لیے کچھ رقم جمع کرنے کی بھی عادت ڈالیں تاکہ وہ مناسب مواقع پر استعمال ہوسکے۔ جو لوگ اپنی آمد و خرچ کا حساب رکھتے ہیں اور اسی انداز سے چلتے ہیں وہ کم آمدنی میں بھی اچھی زندگی گزارنے کی منصوبہ بندی کرلیتے ہیں اور انہیں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔
بڑھتی مہنگائی اور موجودہ حالات کی تجارتی کساد بازاری اور مندی کے دور میں تو یہ اور بھی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے نبی اور اللہ تعالیٰ کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ ہم اپنی مالی منصوبہ بندی کو نظر انداز نہ کریں۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ ’’(اللہ کے نیک بندے وہ ہیں) کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ انتہائی بخل بلکہ درمیان کی راہ اپناتے ہیں۔‘‘ اسی طرح اللہ کے رسول نے فرمایا کہ خرچ میں میانہ روی انسان کے معاشی مسائل کو آدھاکردیتی ہے۔ فضول خرچی اور کنجوسی کے درمیان میانہ روی دراصل اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی آمد کے ساتھ ساتھ خرچ پر بھی نظر رکھیں۔ ضروری کاموں کو ترجیح دیں اور غیر ضروری چیزوں کو یا تو نظر انداز کریں، یا ترجیحات سے دور رکھیں۔ کیونکہ آپ بازار میں جیسے ہی قدم رکھتی ہیں ہر طرف خوبصورت چیزیں آپ کو لبھاتی نظر آتی ہیں اور ہر چیز آپ کو اس انداز میں دیکھنے پر مجبور ہوتی ہیں کہ اسے بھی خرید لیں بڑی اچھی لگ رہی ہے۔ خواہ آپ کی جیب اس کی اجازت نہ دیتی ہو۔
کیسے بنائیں بجٹ
بجٹ بنانے کے لیے سب سے پہلے آپ اپنی گھر کی آمدنی کا بالکل صحیح اندازہ لگانے کی کوشش کریں۔ اگر آمدنی پر آپ کا اختیار نہیں ہے تو گھر کے کفیل سے یہ طے کرلیں کہ وہ ہر ماہ آپ کو گھر چلانے کے لیے کتنی رقم دے سکتے ہیں۔ یہ رقم آپس میں صلاح و مشورے کے بعد متعین کی جاسکتی ہے۔ پھر آپ اخراجات کی طرف آئیں اور ان اخراجات کو مختلف مدوں میں بانٹ لیں اور دیکھیں کہ کس مد میں کتنی رقم درکار ہوگی، یا اس مد میں کتنا خرچ کرنے کی ہمارے اندر صلاحیت ہے۔ گھریلو بجٹ بناتے وقت دو خاص پہلو آپ کے پیشِ نظر رہیں۔ ایک پہلو ماہانہ بجٹ کا ہے۔ جس میں پورے مہینے کی آمدنی کو پورے مہینے کے اخراجات پر پھیلا کر منظم کیا جائے۔ اور دوسرا پہلو گھر کے سالانہ بجٹ کا ہے۔ جس میں کل آمدنی کو سال کے بارہ مہینوں پر پھیلاکر باقاعدہ گوشوارہ بنایا جائے۔ ماہانہ بجٹ میں صرف مہینہ بھر کی عام ضروریات زندگی شامل ہوں گی جبکہ سالانہ بجٹ میں خاص چیزوں مثلاً: بڑے بچے خالد کی داخلہ فیس کی رقم بارہ ہزار روپے، گھر کی صفائی اور مرمت کی رقم، ولادت و عقیقہ کے اخراجات، عید بقرعید کے خاص خرچے، ضرورت مند رشتہ داروں کی مدد یا زکوٰۃ کی ادائیگی وغیرہ شامل ہوسکتے ہیں۔
بچت کرنے کی خواہش، صلاحیت اور آمدنی کی کثرت و قلت کو دیکھتے ہوئے بجٹ کا درج ذیل انداز اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اس ماہانہ بجٹ میں جس کی آمدنی محض دس ہزار روپے ہے مناسب ترین انداز میں خرچ کرتے ہوئے گھر کی خاتون نے ایک ہزار تین سو بیس روپے ماہانہ بچانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ جبکہ ماہانہ خرچ میں کسی بھی کمی یا زیادتی کو کنٹرول کرنے کے لیے پانچ سو روپے کی رقم خاص کی ہے۔ عام شہری زندگی کے لیے یہ انداز ماہانہ بجٹ کے لیے مناسب قرار دیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ اس میں اس بات کی گنجائش ہے کہ حسبِ حال اس میں کمی یا زیادتی کی جائے۔ اگر گھر کا کوئی فرد مستقل بیمار ہے تو کسی جگہ سے کم کرکے دوا علاج میں دی گئی رقم کو بڑھایا جاسکتا ہے۔
سالانہ بجٹ سال کے بارہ مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کی آمد میں وہ چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں جو سال میں کسی بھی وقت آسکتی ہوں یا جن کا ماہانہ پابندی سے آنا ممکن نہ ہو۔ اسی طرح اخراجات میں وہ چیزیں شامل ہوتی ہیں جو عام طور پر ہر ماہ شامل نہیںہوتیں۔ اس کی مثال کے لیے درج ذیل گوشوارہ پیش کیا جاتا ہے۔
ماہانہ بجٹ میں اگرچہ آپ نے ہر ماہ 1320.00روپے کی بچت کی تھی مگر بڑے بیٹے عدی کے داخلہ کے زبردست اخراجات نے آپ کے سالانہ بجٹ کو خسارہ میں کردیا اور سالانہ بجٹ میں 4560.00روپئے کی کمی واقع ہوگئی۔ اب کیا کیا جائے؟ تو آپ نے ایک ترکیب یہ اختیار کی کہ گھر کی مرمت اور سفیدی کا کام اگلے سال کے لیے موخر کردیا اور 5200.00روپے کی کٹوتی کرکے بجٹ کو برابر کردیا۔ اب اگر پھر بھی آپ مزید بچت کی خواہش مند ہوں تو سال کے ان اخراجات میںکہیںکہیں کمی کرکے یا وطن کے سفر کو دو مرتبہ کے بجائے ایک مرتبہ کرکے مزید بچت کرنے کی ٹھان سکتی ہیں۔ اسی ایمرجنسی کی صورت میں شوہر کے سالانہ ملنے والے فنڈ وغیرہ سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کرایہ کے مکان میں رہ رہی ہوں تو ماہانہ بجٹ میں اسے بھی شامل کیاجائے اور اخراجات کی مدوں میںمناسب پھیربدل کرلیا جائے۔ لیکن اس بات کو ہمیشہ سامنے رکھا جائے کہ ماہانہ اور سالانہ دونوں گوشواروں میں آمد و خرچ کے درمیان ایسا توازن ہو جب سال بھر آپ کو قرض لینے کی مجبوری پیش نہ آئے۔
بعض ضرورتیں انسان کی اپنی خواہش پر منحصر ہوتی ہیں اور ان کی کوئی حد متعین نہیں کی جاسکتی۔ایسی ہی ضرورتوں کے سلسلہ میں قناعت اور میانہ روی اختیار کرنی ہوتی ہے۔
یہ بجٹ ایک عام سے تنخواہ دار گھر کا ہے۔ ظاہر موجودہ دور میں دس ہزار روپئے کی ماہانہ آمدنی شہری زندگی میں کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتی۔ لیکن یہ ایک نمونہ ہے تاکہ خواتین گھر کے مالی انتظامات کو زیادہ بہتر اور منظم انداز میں سنبھال سکیں۔
آپ اس نمونے میں آمدنی اور گھر کے حالات و اخراجات کی مدوں کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری تبدیلی کرسکتی ہیں۔ زیرِنظر مضمون میں یہی بات بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بجٹ کس طرح بنایا جائے مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اپنے اخراجات کو کس طرح بجٹ کے مطابق رکھا جائے۔
ایک بار بجٹ بنالینے کے بعد اس کے مطابق گھر کو چلانا آپ کی صلاحیت اور قوت ارادی پر منحصر ہے۔ اور اسی کو میانہ روی کہتے ہیں۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بعض اخراجات ایسے ہوتے ہیں جن پر انسان کا بس نہیں چلتا مثلاً کوئی قدرتی آفت آگئی، گھر میں کوئی فرد شدید بیمار پڑگیا یا کوئی حادثہ پیش آگیا وغیرہ۔
ایسے میں انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ سے پناہ مانگتے رہیں اور موقع پڑنے پر کسی بھی قسم کی انسانی ضروریات کی تکمیل کریںاور بعد میں اس کی بھر پائی کے لیے اللہ سے مدد بھی چاہیں اور مزید جدوجہد کا جذبہ اپنے اندر پیدا کریں۔ ایسی صورت میں گھر کی تعلیم یافتہ یا صاحب ہنر خاتون اپنے شوہر کی مالی مدد کے لیے مناسب کام بھی تلاش کرسکتی ہیں کیونکہ اسلام نے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے مقابلے میں باعزت زندگی اور حلال رزق کی تعلیم دی ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں