قارئین شاید میری اس بات پر حیران ہوں گے، لیکن یہ سچ ہے کہ بڑھاپا بڑا ہی خوبصورت دور ہوتا ہے، اس میں دامادوں اور بہوؤں کے علاوہ پوت بہویں اور نواس بہویں ہوتی ہیں۔ ماشاء اللہ خاندان خوب بڑا ہوجاتا ہے۔ ایسے بزرگ بہت خوش قسمت ہوتے ہیں، جو اپنی زندگی میں اتنی خوبصورتی دیکھتے ہیں۔ مگر کہیں کہیں صرف نانی، دادی حیات ہوتی ہیں اور نانا،دادا نہیں ہوتے اور کہیں نانا، دادا ہوتے ہیں تو نانی، دادی نہیں۔ جب یہ جوڑا اکیلا رہ جاتا ہے تو یہ بزرگ کیا سوچتے رہتے ہیں؟ وہ کیا چاہتے ہیں؟ ان کے دلوں میں کیا ہے؟ کسی نے سوچا؟ بڑھاپے میں اکثر ہاتھ پاؤں میں درد رہتا ہے۔ آنکھوں سے کم نظر آتا ہے، دانت نہ ہونے کی وجہ سے کھایا نہیں جاتا۔ گوشت کی بوٹی چبائی نہیں جاتی اور انشاء اللہ یہ وقت سب پر آئے گا۔ خدا کرے کہ ہم سب بڑھاپے کا مزا چکھیں اور اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھیں۔ آمین!
میرا سب سے یہ سوال ہے کہ بہویں اور بیٹے ۲۴؍ گھنٹوں میں کتنی دیران کے پاس بیٹھتے ہیں؟ باتوں باتوں میں ان کا ہاتھ دبانا، ٹانگیں دبانا، ان کو اخبار پڑھ کر سنانا وغیرہ۔ ان کا پسندیدہ کھانا ان سے پوچھ کر پکانا، ان کو اہمیت دینا۔ان کو یہ یقین دلانا کہ ہمیں آپ کی ضرورت ہے آپ کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ آج جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے، آپ کے دم سے ہے۔ کون کرتا ہے؟ لیکن اگر آپ ایسا کرتی ہیں تو آپ خوش قسمت ہیں، کہ آپ کل دین اور دنیا میں سرخرو ہوں گی اور آپ کی اولاد بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرے گی، انشاء اللہ۔
بچپن میں ہمارے والدین ہمیں مہنگے سے مہنگا کھلونا دلواتے تھے۔ چھٹیوں میں باہر گھما کر لاتے تھے۔ انھوں نے ہمیں اچھے سے اچھے اسکول میں پڑھا کر اس قابل کیا ہے کہ اس وقت اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔کیا ہم اتنے احسان فراموش ہیں کہ بیوی بچوں کو ہر جگہ لے کر جاتے ہیں اور بوڑھے والدین کو گھر میں نوکروں کے ساتھ یا اکیلا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ کسی گھر میں اکیلی اماں دل ہی دل میں اللہ سے فریاد کررہی ہے تو کسی گھر میں بے چارے ابا نوکروں کے رحم و کرم پر زندگی کے دن پورے کررہے ہیں۔
ہمیں اپنی جنت کو بھی گھر سے باہر لے کر جانا چاہیے ، ہوٹل میں نہیں تو گھر ہی میں آئس کریم، کولڈ ڈرنک یا پھل وغیرہ کھلائیں۔ ان سے دن بھر کی کہانی سنیے۔ گرمیوں اور سردیوں میں ان کے لیے کپڑے، سوئیٹر، چپل، موزے، چادر لائیے کبھی کبھی گلدستے اور پرفیوم کے تحفے دیجیے۔
اگر والدین یا سسر ساس نارا ض ہیں تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر ان کے گلے لگ جائیں، پچھلی باتوں کو بھول جائیں۔ نہ پچھلی باتیں ان کو یاد دلائیں اور نہ ان کی سنیں بس صرف ہاتھ جوڑیے اور دیکھئے ایک ماں کا دل یا باپ کا دل …
اب شام کی چائے بسکٹ خوبصورت سی ٹرے میں رکھ کر ان کے پاس بیٹھیے اور پوچھئے اماں یا ابا جی آپ کی شادی کیسے ہوئی تھی؟ کس طرح ہوئی تھی؟ کیا لین دین ہوا تھا، شادی پر آپ نے کیسے کپڑے پہنے تھے؟
بس پھر ان کی سنیے آپ کو اگر مزا نہیں آئے تو پھر کہیے گا۔ کبھی یہ سوال بھی کیجیے کہ اماں آپ نے بچے کیسے پالے؟ ہم کو تو کچھ بھی نہیں آتا۔ پھر ان کی مزے دار باتیں سنیے اس کے علاوہ ہر بار کوئی نیا سوال کرکے آپ چپ ہوجائیے اور ان کو بولنے دیں۔
کبھی یہ بزرگ بیمار ہوجائیں تو پوری توجہ سے چائے دوائی دیں اور یہ تمام کام اپنے بچوں کے سامنے کیجیے ان کو بھی سکھائیے۔
جاؤ بیٹا اسکول جانے سے پہلے دادا، دادی کو سلام کرو، جاؤ بیٹا اسلامیات کی تیاری دادی کے کمرے میں جاکر کرو۔ بیٹا رزلٹ سب سے پہلے دادا کو دکھاؤ۔ بیٹا پوچھ کر آؤ امی آج کیا پکائیں؟
آپ یقین کیجیے کہ بوڑھا بچہ برابر ہوتا ہے اور یہ بزرگ چھوٹی چھوٹی باتوںسے خوش ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں آپ بچوں سے کرائیے اور اپنا بڑھاپا خوبصورت بنائیے اور بزرگوں سے جھولی بھر بھر کر دعائیں لیجیے، مگر سنیے بانو کو بھی دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
——