آپ تنہا سفر کررہے ہیں، چلتے چلتے آپ کے سامنے ایک دوراہا آجاتا ہے، ایک راستہ سخت دشوار گزار، عموماً پہاڑ کی بلندی کی طرف جارہا ہے اور دوسرا نشیبی آسانی سے طے ہوجانے والا، پہلا جو دشوار گزار ہے، اس میں ہر طرف پتھر اور کانٹے بکھرے ہوئے ہیں، قدم قدم پر گڑھے ہیں، جن کی وجہ سے اوپر چڑھنا بھی مشکل ہے اور راہ طے کرنا بھی دشوار ، لیکن اس پر حکومت کی طرف سے ایک کتبہ نصب ہے، جس پر لکھا ہوا ہے کہ راستہ اگرچہ دشوار گزار ہے اور اس پر چلنا تکلیف دہ ہے، لیکن یہی درست راستہ ہے جو بڑے شہر کو جاتا ہے اور منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔
دوسرا راستہ ایک ہموار گزر گاہ ہے۔ جس پر پھل دار درخت اور شگوفے سایہ فگن ہیں، دونوں جانب ہر قسم کی تفریحات جنت نگاہ اور فردوس گوش ہیں، جن کی وجہ سے دل کھنچا جارہا ہے، لیکن راستے کے سرے پر ایک انتباہ آویزاں ہے کہ یہ راستہ انتہائی خطرناک اور مہلک ہے اور اس کے آخر میں ایک ایسا نشیب ہے، جس میں یقینی موت آپ کی منتظر ہے۔ ایسی صورت میں آپ کون سے راستے کا انتخاب کریں گے؟
بیشک انسانی طبیعت دشواری کے مقابلے میں آسان راہ کی طرف مائل ہوتی ہے اور مشقت و تکلیف کے بجائے سہولت اور آرام کو پسند کرتی ہے۔ نفس انسانی قیدوبند کے مقابلے میں آزادی کا دلدادہ ہے اور یہی وہ انسانی فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے۔ اس لیے اگر انسان کو اس کی خواہشات نفس کے مطابق آزاد چھوڑ دیا جائے اور وہ ان کے پیچھے لگ جائے تو ظاہر ہے دوسرا راستہ اختیار کرے گا، لیکن ایسے تمام مواقع پر عقل آڑے آجاتی ہے اور یہ موازنہ کرتی ہے کہ وقتی اور فوری لذت و راحت، جس کا انجام طویل رنج و غم اور تکلیف ہو، اچھی ہے یا عارضی اور وقتی تکلیف و مشقت جس کے بعد نہ ختم ہونے والی راحت و لذت ہو، بہتر ہے اور بالآخر وہ پہلا راستہ اختیار کرتی ہے۔
یہی مثال جنت اور دوزخ کی طرف جانے والے راستوں کی ہے۔ دوزخ کے راستے میں ہر وہ چیز موجود ہے، جو لذیذ اور مرغوب ہے۔ انسانی طبیعت ان کی طرف مائل ہوتی ہے اور خواہشاتِ نفسانی انسان کو ان کی طرف ڈھکیلتی ہیں۔ اس راہ میں حسن و جمال اور اس کی فتنہ آفرینیاں ہیں۔ شہوانی خواہشات کے تقاضے پورے ہوتے ہیں اور فوری لذت حاصل ہوتی ہے، اس راستے میں ہر طریقے سے مال حاصل کرنے کا جواز ہے اور مال ودولت ایسی چیز ہے جو ہر شخص کو مرغوب و مطلوب ہے۔ اس میں ہر قسم کی آزادی اور آوارگی کی سہولت ہے اور کون ہے جو آزادی کوپسند نہیں کرتا یا پابندیوں سے بیزار نہیں؟
آپ جانتے ہی ہیں کہ انسان جو بھی کام کرتا ہے کسی مقصد اور کسی فائدے کے لیے کرتا ہے۔ اگر مقصد حاصل ہوجاتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ کام ٹھیک ہوا اور اگر مقصد حاصل نہ ہو تو آپ کہتے ہیں کہ کام ٹھیک نہیں ہوا۔
اس کے برعکس جنت کے راستے میں ہر طرح کی مشقت اور دقت ہے۔ پابندیاں اور رکاوٹیں ہیں۔ نفس سے جنگ کرنا اور خواہشات سے کنارہ کش ہونا پڑتا ہے۔ لیکن اس دقت کا صلہ جو اس راہ میں برداشت کرنی پڑتی ہے، آخرت میں ابدی اور دائمی راحت کی صورت میں ملتا ہے اور جہنم کے راستے کی عارضی لذتوں کا ثمرہ دوزخ کا نہ ختم ہونے والا عذاب ہے۔ اس کی مثال بعینہٖ اس طالب علم کی سی ہے جو امتحان کے دنوں میں رات کے وقت جب کہ گھر کے باقی افراد ٹی وی کے سامنے بیٹھے دلچسپ پروگراموں سے لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن وہ سب سے الگ تھلگ اپنی کتابوں اور کاپیوں میں غرق ہو اور محنت و مشقت برداشت کررہا ہو تاکہ اس کا نتیجہ کامیابی کی راحت کی صورت میںبرآمدہو یا پھر اس کی مثال ایسے مریض کی سی ہے جو چند دن چٹ پٹے اور مزیدار کھانوں سے پرہیز کی زحمت اور پابندی برداشت کرتا ہے اور نتیجہ کے طور پر اسے صحت کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔