’’خالی ذہن شیطان کا گھر‘‘ ہوتا ہے اور وقت نہایت قیمتی ہے۔یہ دونوں باتیں اگرچہ تمام لوگوں پر صادق آتی ہیں مگر نوعمر طلبہ کے سلسلے میں ان دونوں باتوں کی خاص اہمیت ہے۔ نو عمری میں ذہن کی صلاحیتیں تیزی سے کام کرتی ہیں اور سیکھنے کے سلسلے میں یہ عرصہ بڑا قیمتی ہوتا ہے۔ چنانچہ والدین اور طلبہ دونوں ہی کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ چھٹیوں کی اس طویل مدت میں وہ ذہنی صلاحیتوں کے فروغ اور وقت کے صحیح استعمال کی طرف متوجہ ہوں۔ تاکہ ان گرمائی چھٹیوں کا کچھ مفید اور تعمیری استعمال ہوسکے۔
عام طور پر والدین اس طرف توجہ نہیں دیتے کہ وہ بچوں کی طویل گرمائی تعطیلات کے مناسب استعمال کی فکر کریں اور طلبہ یہی سوچتے ہیں کہ یہ چھ سات ہفتوں کا عرصہ محض کھیل کود اور مٹر گشتی کے لیے ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہم اسے اپنے بچوں کے مستقبل کی تعمیر کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ اس کی منصوبہ بندی توجہ کے ساتھ کریں۔
کیا کیا ممکن ہے؟
گرمی کی چھٹیاں جو پورے ملک میں تقریباً ایک ساتھ ہوتی ہیں اس دوران بچوں کے لیے ہم ایسا منصوبہ بناسکتے ہیں جس سے ان کا ذہن سال بھر کی پڑھائی کے بوجھ سے ہلکا پن بھی محسوس کرے اور ان کی صلاحیتوں میں ارتقاء بھی ہو۔ اس کا استعمال کرتے ہوئے ہم ایسے پروگراموں میں انہیں شریک کراسکتے ہیں جو ان کے لیے مفید بھی ہوں اور دلچسپی کا باعث بھی۔
٭ دسویں کلاس پاس کرچکے طلبہ کے لیے یہ مفید ہوسکتا ہے کہ وہ کیریئر کاؤنسلنگ کے پروگراموں میں شریک ہوکر مفید معلومات حاصل کریں تاکہ آئندہ تعلیم کی راہ منتخب کرنے میں انہیں سہولت ہوسکے۔
٭ مختلف اداروں کی جانب سے طلبہ کے لیے چلائے جانے والے کریش کورسز، ریفریشر پروگرام اور اسکل ڈیولپمنٹ کے کیمپوں میں بھی ہمارے بچے شریک ہوکر مفید اور دلچسپ معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔
٭ بچے کو اس کی خاص دلچسپی جیسے صحافتی صلاحیت، کمپیوٹر کورس، پینٹنگ اور پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کے مختلف کیمپوں میں شرکت وغیرہ کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ریڈنگ اسکل، میموری بوسٹر اور کھیل سے متعلق تربیتی کورسیز بھی اختیار کیے جاسکتے ہیں۔
٭ نصابی کتابوں کا بوجھ ہمارے بچوں پر کافی ہوتا ہے اور دینی معلومات کے مطالعے کا وقت دورانِ سال انہیں کم ہی مل پاتا ہے۔ اس لیے اس مدت میں اپنے بچوں کو دینی معلومات اور قرآن کلاسیز جیسے پروگراموں میں بھی شریک کراسکتے ہیں جس کا سال بھر انہیں موقع نہیں مل پاتا۔
گھومنا بھی ضروری ہے
سفر میں انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ آپ کے لیے اگر ممکن ہو تو اس دوران اپنے بچوں کو لے کر کسی خاص مقام یا علاقے کا سفر کریں۔ یہ سفر کسی پرفضا مقام کا بھی ہوسکتا ہے اور تاریخی چیزیں دیکھنے کا بھی۔ دونوں ہی صورتوں میں آپ کے بچے سفر سے لطف اندوز بھی ہوں گے اور معلومات کا خزانہ بھی لے کر لوٹیں گے۔ سفر کے سلسلے میں یہ ضروری نہیں کہ آپ کوئی بہت طویل سفر کریں۔ اپنی فیملی کے ساتھ کسی قریبی مقام کا سفر بھی ہوسکتا ہے مگر ضروری ہے کہ اس کی پہلے سے منصوبہ بندی کی جائے اور بچوں کو ایسی چیزیں دکھائی جائیں جو انھوں نے پہلے نہ دیکھی ہوں یا ایسے مقامات کی سیر کرائی جائے جو ان کے لیے معلومات کا ذریعہ ہوسکیں۔ مثلاً آپ اپنے قریب ہی بجلی پیدا کرنے والے کسی پلانٹ کے وزٹ کا ارادہ کرسکتے ہیں، کسی فیکٹری کی بھی وزٹ کرسکتے ہیں یا کم از کم ایک روز بچوں کو لے کر ڈسٹرکٹ کورٹ ہی جاسکتے ہیں تاکہ وہ دیکھیں کہ عدالت کیا ہوتی ہے؟ کیسے بحث ہوتی ہے اور وہاں کیا ہوتا ہے۔ وغیرہ۔
اگر کچھ نہ ہو
ان چیزوں میں سے اگر کچھ بھی نہ ہوپائے تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ گھر بیٹھے بھی آپ چھٹیوں کے مزے لے سکتے ہیں۔ اس کی صورت یہ ہے کہ آپ کتابوں سے دوستی کرلیں۔ اگر والدین اوپر بتائی گئی چیزوں میں سے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں تو اپنے بچوں کے لیے اچھی اچھی نئی نئی کتابوں کا ایک ذخیرہ لاکر دے دیں۔ بس بچے شوق سے اپنے خالی وقت میں ان کا مطالعہ کرتے رہیں گے۔ ہاں اگر ممکن ہو تو رات میں ان کے ساتھ گفتگو اور بحث میں حصہ لیں کہ انھوں نے کیا پڑھا اور کتابوں میں کون کون سی نئی اور مزے دار باتیں انہیں معلوم ہوئیں۔ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ اپنے بچوں کو کسی قریب کی لائبریری کا ممبر بنادیں تاکہ وہ مفت یا معمولی فیس پر اچھی اورمفید کتابیں حاصل کرسکیں۔
والدین اس سلسلے میں خود بچوں کی مدد کرسکتے ہیں یا اپنے جانکار احباب سے مدد لے کر کتابوں کی ایک فہرست بناکر بچوں کو دے سکتے ہیں یا ان کے ساتھ بیٹھ کر یہ طے کرسکتے ہیں کہ وہ کیا پڑھنا چاہتے ہیں۔
علم کا شوق اور کتابوں سے دوستی اگر بچوں میں پیدا ہوجائے یا آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو سمجھ لیجیے کہ آپ کا بچہ کامیاب انسان بننے کی راہ پر چل پڑا ہے۔ اس لیے کہ آپ کو اس بات کا ڈر نہ ہوگا کہ اس کے خالی ذہن میں شیطان ڈیرا ڈال لے گا۔ کیونکہ کتاب زمانے میں بہترین دوست ہے۔
——