آگ

توقیر عائشہ

’’لنچ کے بعد سے اب تک ۳ کپ چائے پی چکا ہوں، سر کا درد جاہی نہیں رہا۔‘‘ شعیب ہمدانی نے سگریٹ کا پیکٹ کھولتے ہوئے قیصر سے کہا۔
’’تو تم آج گھر چلے جاؤ، ریسٹ کرلو۔‘‘ قیصر نے مشورہ دیا۔
’’کیسے کرلوں؟ وہ فائزہ خان ’’دل کی لگن‘‘ بنا رہی ہیں، دو لڑکیاں مانگ رہی ہیں… ڈرامے کے لیے آج ایک گروپ بلایا ہے۔ آڈیشن، فوٹو سیشن، سلیکشن سب ہی کچھ کرنا ہے۔ د و دون میں لڑکی اوکے کرکے دینی ہے۔‘‘ ہمدانی نے سارے ہی کام گنوادیے۔
قیصر نے پوچھا: ’’کتنی لڑکیاں ہیں؟‘‘ ہمدانی نے بتایا کہ ’’مس شینا نے ۵؍بلائی ہیں، ۲؍تو کسی کالج سے ہیں اور ۳؍ کسی کے ریفرنس سے آرہی ہیں۔‘‘
’’چلو نوبرابلم… مس شینا تو ہیں، ہم یہ کروالیتے ہیں، تم چلے جاؤ۔ ویسے بھی اب تم بڈھے ہورہے ہو، بیمار شیمار بھی رہتے ہو۔‘‘ قیصر نے اسے شرارت سے چھیڑا۔
’’خبردار جو مجھے بوڑھا کہا۔ میں تو بوڑھا ہوکر بھی اپنے کو بوڑھا نہ مانوں گا، ہماری تو فیلڈ ہی ایسی ہے کہ ہمیں بوڑھا نہیں ہونے دیتی۔‘‘ ہمدانی نے مکروہ سی ہنسی سے قیصر کی طرف دیکھا اور گھر جانے کے لیے کار کی چابی اٹھالی۔
ہمدانی صاحب بے وقت گھر پہنچے تو ان کی چار سالہ پھول سی بچی ابو کہہ کر لپٹ گئی۔ سنہری بالوں والی گڑیا سردی سے لال ہوتے گالوں میں اور بھی پیاری لگ رہی تھی۔ انھوں نے بڑھ کر اسے گود میں لے لیا۔ ماہ نور نے ٹھنڈے ٹھنڈے ہاتھ ان کی آنکھوں پر رکھ دیے۔ ’’بتائیں میں نے کس کلر کے کپڑے پہنے ہیں؟‘‘ اپنے ابو کے ساتھ یہ اس کا مخصوص انداز تھا۔ ابھی وہ جواب دینے نہ پائے تھے کہ رضوانہ کمرے میں داخل ہوئیں اور بے وقت آنے کا سبب پوچھا، پھر بچی سے کہا: ’’جاؤ بیٹا ابو کو ریسٹ کرنے دو۔‘‘
ہمدانی نے بڑی بیٹی ماہ رخ کو نہ پاکر پوچھا تو پتا چلا کہ سہیلی کے ساتھ مارکیٹ گئی ہے۔ اس سے چھوٹی ثانیہ اسکول سے آکر سورہی ہے۔ ہمدانی صاحب کی یہ کل کائنات تھی۔ ماہ رخ بڑی تھی اور فرسٹ ایئر کی طالبہ — ماں سے حسن اور باپ کی طرف سے ملنے والے قدوقامت نے اسے کچھ زیادہ ہی دلکش بنادیا تھا۔ ہمدانی صاحب رضوانہ سے کہتے: ’’میں تو گھر میں ہوتا نہیں ہوں، تم ان کا خیال رکھا کرو۔ زمانے کی ہوا اس وقت بڑی زہریلی ہے۔ میرے کام کا تو تم کو پتا ہے، میں تو ان کو اپنے آفس تک نہیں لے جاتا۔‘‘ اور بات تھی بھی درست۔
ہمدانی اور قیصر نے ایک کمپنی HQ کے نام سے بنائی تھا۔ یہ وزارتِ ثقافت سے رجسٹرڈ تھی اور بڑی کامیابی سے پروڈیوسر خواتین و حضرات کو آرٹسٹ لڑکے اور لڑکیاں فراہم کرتی تھی۔ کھمبیوں کی طرح اگنے والے چینلز نے ان کو بہت مصروف کررکھا تھا۔ اس وقت آرٹسٹ اور ماڈل بننے کا رجحان اتنا تیز ہے کہ انھیں بمشکل ہی نئے ٹیلنٹ کے لیے کوئی اشتہار دینا پڑتا۔ اور جب سے مس شینا نئے آئیڈیاز کے ساتھ ان کی سکریٹری شب میں آئی تو کام اور بھی آسان ہوگیا تھا۔ شینا خواتین کی مختلف فیکٹریوں میں جاتیں، گزرکالجوں میں پُرکشش گفتگو رکھتیں، یہا ںتک کہ وہ کچی بستیوں تک میں بے دھڑک پہنچ جاتیں اور ٹیلنٹ کو کمپنی کے آرٹ روم تک لے آتیں، پھر آڈیشن اور فوٹو سیشن وغیرہ سے گزر کر ایک بااعتماد اور باصلاحیت ہیرا تیار ہوتا، جسے یہ پروڈیوسر حضرات کو فروخت کردیتے۔
ہمدانی کا آفس میں اٹھنے والا سردرد شام تک تیز بخار میں بدل گیا اور وہ بمشکل دو دن بعد ہی بستر سے اٹھ سکے۔ ابھی وہ آفس میں اپنی ٹیبل پر آکر بیٹھے ہی تھے کہ قیصر اور شینا ایک ساتھ داخل ہوئے۔ ’’مبارک ہو آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے۔‘‘ قیصر نے کہا۔ شینا نے بھی بات بڑھائی۔ ’’مبارک ہو ہم نے ایک ہی سیشن کے بعد لڑکی سلیکٹ کردی۔‘‘
’’اچھا — گڈ، میرے سیٹ پر نہ ہونے سے آپ لوگ زیادہ اچھا کام کرتے ہیں۔‘‘ ہمدانی نے بشاشت سے کہا۔
’’بات ہماری نہیں— ٹیلنٹ تو خود چل کر آگیا۔ پہلے ہی ٹیسٹ میں شاندار پرفارمنس دی ہے۔ ہمیں کوئی ہدایت دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ دل رکھنے کے لیے باقی لڑکیوں کا بھی آڈیشن لے لیا، لیکن وہ تو بنا بنایا ہرایا ہے۔ تم اس کے کلپس دیکھو۔‘‘
اتنی دیر میں شینا نے لیپ ٹاپ آن کردیا۔ اسکرین پر متحرک ہونے تک قیصر اس کو خوبیاں گنواتا رہا ’’آواز میںاتنا اعتماد ہے، ہم نے جس سچویشن کا کارڈ دیا، ایسے پرفارم کیا جیسے پریکٹس کرکے آئی ہے۔ ہائٹ بھی بہت اچھی ہے اور فیچرز تو— حالانکہ ageکچھ بھی نہیں، بہت آگے جائے گی یہ۔‘‘
ہمدانی کی پرشوق نگاہوں نے جب اسکرین پر جلوہ گر چہرہ دیکھا تو دماغ بھک سے اڑ گیا۔ وہ دھاڑا ’’بند کرو اسے‘‘ اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ابھی تو اسے دل بھی پکڑنا تھا جہاں خون نے گردش کرنے سے انکار کردیا تھا۔
پہلے تو یوں ہوتا تھا کہ ماڈل اور اداکارہ بننے کی امیدوار لڑکیوں کے کلپس وہ قیصر کمرہ بند کرکے دیکھتے تھے۔ وہ جو کسی کی بیٹیاں ہوتی تھیں ان کے لیے محض ’’لڑکیاں‘‘ تھیں۔ مگر آج وہ جس ڈریم گرل کے قصیدے قیصر کی زبانی سن رہا تھا وہ کوئی اور نہیں اس کی اپنی بیٹی ماہ رخ تھی جو اپنی سہیلی کے ساتھ پرسوں ہی آڈیشن دے کر گئی تھی۔
زمانے کی زہریلی ہوا نے ماہ رخ کو چھوٹی سی عمر میں ہی سب کچھ سکھا دیا تھا۔ بے حیائی کوبطور پیشہ اپنانے والا بھول گیا تھا کہ کوئی چنگاری اس کے دامن کو بھی جلاسکتی ہے۔ ہوا میں زہر ملانے والا یہ بھی بھول گیا کہ اس کے بچے بھی اسی ہوا میں سانس لیتے ہیں۔
——

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146